نگر نگر یہ شور ہے کہ ظلمتوں کا دور ہے
شور ہے کہ رنگ بدل کے دور کا سما بھی ہے
شور ہے کہ آندھیوں میں خوف کا مقام ہے
شور ہے کہ بارشوں میں خون کا رواں بھی ہے
میری نظر کے سامنے یہ دھوم دھام خام ہے
کہ مرے شہر میں پھول کا گلاب ہونا صبح ہے
صبح کا سماں بھی ہو ،شام کاعیاں بھی ہو
کہ ظلمتوں کے خوف میں میرا مقام خاک ہو
مری زباں میں اثر نہ ہو،مرے قلم میں جھلک نہ ہو
مری پركھ کا دور ہو،بے بسی کے زور میں
مرے شہر کو کیا ہوا،مری نظر کے سامنے
مری نگاہ کو معاف ہو ،بازوں کے سامنے
مومن مقبول
کولگام کشمیر