فاضل ظہور
طالب علم : گورمینٹ ہای سکول کھل نورآباد
[email protected]
اپنے وقت کی وہ ملکہ حُسن تھی اس کی سب سہیلیاں اس کو محفل کی جان کہا کرتی تھی، ہر چیز میں نکھرے تھے اس کے کبھی کپڑوں کا رنگ نہیں ٹھیک تو کبھی فلاں دوپٹہ اس کے حسن پر فٹ نہیں آتا تھا۔
اس کے بابا نے اس کو کبھی کسی چیز کی کمی نہیں ہونے دی تھی وہ گھر میں اس طرح رہتی تھی جیسے کوئی ملکہ اپنے محل میں رہتی ہو کام کرنے کے نام سے ہی اس کو الرجی تھی کچن کا تو اس نے منہ نہیں دیکھا تھا کبھی
ہاں جب کبھی ماں کی طبعیت خراب ہوتی تھی تو وہ چاۓ بہت اچھی بناتی تھی اور تو کچھ اس کو بنانا نہیں اتا تھا لیکن چاۓ کیا ہی خوب بناتی تھی اس کی ماں اس سے اکثر کہا کرتی تھی مہارانی صاحبہ کچھ کھانا بنانا بھی سکھ لو اگلے گھر بھی تمہیں بھیجنا ہے وہ ہنس کر کہہ دیتی تھی مہارانی صاحبہ کے نوکر ہونگے نا کام کرنے کے لیے پھر مجھے کیا ضرورت کچھ سکھنے کی۔
ان باتوں باتوں میں دن گزرتے گئے مہارانی صاحبہ کب بڑی ہوگی پتہ بھی نہیں چلا اج اس کی شادی تھی اج وہ اس طرح رو رہی تھی جیسے کوئی بچہ روتا ہے اس کی ماں اس کو خوش کرنے کے لیے کہنے لگی پاگل کہی کی روتی کیوں ہوں تم اپنے گھر جارہی ہوں جو تمہارا اصلی گھر ہے جہاں پر تم مہارانی صاحبہ ہوگی وہ ایک بوجھی سی مسکراہٹ کے ساتھ مسکرا دیتی ہے
وہ جس کو کبھی گھر میں جھاڑو لگانا پڑ جاتا تھا تو گھر سر پر اٹھا لیتی تھی اب خود بخود اتنی سمجھدار ہوچکی تھی کہ سارے گھر کا کام خود کر لیتی ہے صبح سے شام شام سے صبح بس بچوں کی تربیت بچوں کی فکر جس کو سہیلیوں کی محفل سے کبھی فرصت ملتی تھی تو نماز وقت پر پڑھ لیتی نہیں تو اکثر دیر ہوجاتی تھی اب وہ تہجد کے وقت آٹھ جاتی ہے پھر رو رو کر اپنے بچوں کے اچھے مستقبل کے لیے دعائیں کرتی ہے جب بچے کے رونے کی آواز آتی ہے تو تڑپ سی جاتی ہے بچہ بیمار ہوجائے تو کیا کیا منتیں ماننا شروع کر دیتی ہے ساری رات اس کی نگرانی میں جاگ کر گزار دیتی ہے اتنی اتنی مشقتیں مصیبتیں سہتی ہے کہ میری اولاد کو کوئی تکلیف نہ ہو سال کے 12ماہ میں ان کا ہر ایک ایک دن رات وہ ان بچوں کی فکر میں گزارتی ہے
اور ہم ان کو سال کے ایک دن میں ویش کر کے اس ماں کے سارے حقوق بھول کر آزاد ہوجاتے ہیں یہ دن تو دین سے باغیوں کے لیے ہے ہم تو الحمداللہ مسلمان ہیں ہمارے لیے تو والدین جنت ہیں۔
ایک دفعہ میں ایک صحابی کا واقعہ پڑھ رہا تھا کہ جب ان کی شہادت ہوئی تو ان کی والدہ نے کہا تھا کہ میں نے تو اس کو جنم ہی اس لیے دیا تھ میری امی پاس بیٹھے تھے میں نے کہا کہ اپ میں اتنی ہمت ہے کہ یہ کہہ سکتے تو امی نے بتایا کہ جب تم دس دن اعتکاف بیٹھتے ہو نا تو مجھے سے تو وہ دس دن کی جدائی بھی بہت مشکل سے برداشت ہوتی ہے میں حیران رہ گیا امی کا جواب سن کر .
ہم سب کی زندگیوں میں ایسے بہت سے واقعات ہیں کہ جن میں ہم سب کو ماں کے دل میں اپنے لیے محبت دیکھنے کو ملتی رہی ہے اور ملتی ہے امی کی طبعیت کافی ناساز رہتی ہے ابھی گزرے رمضان میں پھوپھو آئی ہوئی تھی تو وہ ہی سحری افطاری کا انتظام کرتی تو اج سحری ٹائم میرا دل کیا جوس پینے کا میں نے کہا جوس پینے کا دل کر رہا تھا تو بنا ہی نہیں تو امی نے سنا تو امی کی اپنی طبیعت ٹھیک نہ ہوتے ہوئے بھی دس منٹ کے بعد جوس میرے سامنے پیش خدمت تھا
یہ مائیں کبھی بھی تھکتی نہیں ہیں کیا؟
صبح کی نماز سے لے کر شام تک سلسلہ کام کرنے ہوتا ہے اور بعض اوقات بچوں کی ٹینشن میں گھر کی ٹینشن میں رات رات بھر بھی جاگ لیتی ہیں گھنٹوں گھنٹوں یہ ہسپتال کی لائنوں میں کھڑی ہوجاتی ہیں۔
کپڑوں کی دھلائی کرنا پھر ان کو استری کرنا جھاڑو لگانا کھانا بنانا بچوں کی دیکھ بھال سب کرتی ہیں لیکن بغیر کسی معاوضے کے بغیر کسی تنخواہ کے
ان کو بس ایک چیز چاہئے ہوتی ہے اپنی اولاد سے رسیپکٹ عزت دو میٹھے پیار بھرے بول اپ کا کچھ وقت چاہئے ہوتا ہے ان کو
جو کہ ہم نہیں دیتے بس پورے سال میں ایک دن مدڑ ڈے سوشل میڈیا پر فرماں برادر اولاد ہونے والے سٹیٹس لگا کر ہم ان کے حقوق سے بری ہوجاتے ہیں
خدارا اس چیز کو پرکیٹکل لائف میں اپنائیں۔
ان کو ٹائم دیں رات کو پیر دبا کر سوئیں یہ تو اپنے ساتھ عہد کر لیں اج سے کہ میں نے اپنے والدین کے سر دبا کر سونا ہے یقین کریں میں کچھ ایسے لوگوں کو بھی جانتا ہوں جن کی کبھی تہجد قضا نہیں ہوئی ایک بار میں نے کہا امی کے سر پیر کو دبا کر سوتے ہو؟ تو جواب ملا نہیں یار بس جس دن امی بولیں تو ہی دباتا ہوں
وہ بھی تھک جاتے ہیں بس کہتے نہیں اپ کی اس تھکاوٹ کو دور کریں ان کو وقت دے کر اس سے پہلے کے وقت ہی نہ رہے۔
اور ہاں میں اپنی امی کے لیے کسی مدر ڈے کا محتاج نہیں ہوں میری زندگی کا ہر دن میری امی کے نام ہے۔
اللہ ہم سب کو ان کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کا سایہ ہمارے سروں پر تادیر سلامت رکھے۔ آمین۔