گلشن لون
ریسرچ اسکالر شعبۂ عربی،
بابا غلام شاہ بادشا یونیورسٹی، راجوری، جموں وکشمیر
[email protected]
9596434034
ماں باپ کے گذر جانے کے بعد صوفیہ کی ماموں مامی نے پرورش کی۔ ماموں کے کوئی اولاد نہیں تھی۔ اس لئے صوفیہ ماموں اور مامی کے لئے بہت پیاری تھی۔ صوفیہ بھی ان کی ماں باپ کی طرح ان کی خدمت کرتی۔ صوفیہ جتنی خوب صورت تھی اتنی ہی محنتی اور پڑھائی میں انٹلیجینٹ تھی۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے صوفیہ نے ماسٹرس بھی کمپلیٹ کر لیا۔ لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا کہ اچانک ماموں اور مامی کی کار اکسیڈینٹ میں موت ہو جانے کے بعد بھی صوفیہ نے حالات کا سامنا کرتے ہوئے اپنی پڑھائی جاری رکھتے ہوئے ریسرچ میں داخلہ لیکر یونیورسٹی کے پاس ہی روم کیرائے پر لے لیا۔ اور اپنے ریسرچ میں مشغول ہوگئی۔
ساحل سے صوفیہ کی ملاقات محض ایک اتفاق تھی اور یہ اتفاق کب محبت میں تبدیل ہوگئی دونوں کو معلوم ہی نہ ہو سکا۔ساحل صوفیہ کی اداس زندگی میں ایک خوبصورت خوشی بنکر آیا تھا۔ اور صوفیہ بھی ساحل کو دل و جان سے محبت کرتی تھی۔
”صوفیہ! صوفیہ!ساحل نے صوفیہ کو بلا تے ہوئے کہا۔اٹھو! آنکھیں کھولو!“
”بولو! میں سن رہی ہوں“، صوفیہ نے آنکھیں بند کئے ہوئے کہا
”تم مجھے کتنا پیار کرتی ہو؟ بولو“
صوفیہ نے فورا آنکھیں کھولیں اور ساحل کو محبت بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے بولی۔ ”دیکھو! میری آنکھوں میں، تمہیں کیا دیکھائی دیتا ہے؟ بولو! ساحل! آپ جانتے ہیں مجھے آپ سے سچ میں بہت پیار ہوگیا ہے اور ایسا بے پناہ پیار جو میں آپ کے لئے دل سے روح سے محسوس کرتی ہوں۔ دنیا میں آپ میرے بہت اہم ہیں۔ میری دنیا آپ سے ہی شروع ہوتی ہے اور آپ پر ہی ختم۔ اور میں نے سب کچھ کھو کر آپ کو پایا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے اللہ تعالی نے مجھے میرے سارے دکھوں اور تکلیفوں کے بدلے دنیا ہی میں اجر دیا ہے۔ ساحل! میں اللہ قسم آپ کے بغیر نہیں جی سکتی“۔
”میں بھی تمہیں بے پناہ محبت کرتا ہوں صوفیہ۔ اور تم میرے لئے زندگی کا سب سے بہترین تحفہ ہو“۔ یہ کہکر ساحل نے صوفیہ کو اپنے سینے سے لگالیا۔
”اچھا! اب کافی دیر ہو چکی ہے یہ کہکر ساحل نے صوفیہ کو روم تک چھوڑ کر خود واپس ہاسٹل چلا گیا۔
اگلے روز صوفیہ موبائیل میں بزی تھی کہ اسکا بیچ میٹ اسکالر شاہد دروازے کو دھکا دے کر روم کے اندر داخل ہوا تو صوفیہ کچھ گھبرا سی گئی۔
”کیا کر رہی ہو تم“؟
”میں!!! کچھ خاص نہیں بس میسج کا رپلائی کر رہی تھی“
”کس کا میسج“؟ شاہد نے کچھ شرارتی انداز میں صوفیہ کو چھیڑتے ہو پوچھا
”کسی کا نہیں“ صوفیہ نے موبائیل کو ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا ”اچھا! بتاؤ آپ کیسے ہو“؟
”میں! میں تو ٹھیک ہوں، لیکن میسج کس کا ہے محترمہ“؟
”میسج“!!! صوفیہ نے دہراتے ہوئے کہا ”وہ! وہ تو کوئی فرینڈ کا ہے“۔
”تمہارے چہرے کی چمک بتا رہی ہے کہ کوئی خاص فرینڈ ہے شاید“۔ اجی ہم سے کیا چھپانا؟ اب بتا ہی دو“
”ہاں! بالکل، خاص نہیں بہت خاص، بلکہ سب سے زیادہ خاص“اور پھر صوفیہ نے ساحل کے بارے میں سب کچھ بتا دیا۔
اور روم سے باہر جیوں ہی جانے لگ تو شاہد نے پھر پوچھا۔”اب کہاں کا ارادہ ہے محترمہ“؟
”میں ذرا بینک تک جارہی ہوں۔ ساحل کو فیس کے لئے کچھ پیسے ٹرانسفر کرنے تھے ساحل کی پی ایچ ڈی کا یہ لاسٹ سال ہے اور اس کے گھر والے پیسوں کا انتظام نہیں کرسکے“۔
تھوڑی دیر کے بعد صوفیہ کو ساحل کا کال آیا۔
”یار تم نے یہ کیوں کیا“؟
”پلیز ساحل! میں نے کچھ نہیں کیا“
”تم میرے لئے بہت کرتی ہو اتنا کوئی اپنا بھی نہیں کرتا، اور تم! تم! میرے ہر برے وقت میں ساتھ دیتی ہو“۔
”اف! ساحل پلیز! اب کچھ مت بولو۔اگر میں تمہاری مشکلوں میں کام نہیں آؤں گی تو میرا تمہاری زندگی میں ہونے کا پھر کیا مطلب؟ آپ بس اپنی پڑھائی پوری کرو اور ساری ٹینشن مجھے دے دو۔ لیکن یاد رہے! جب تمہاری جاب لگے لگی تو سارے پیسے میں تم سے سود سمیت لوں گی۔ اوکے، چلو اب فون رکھتی ہوں، بائے“ کہکر صوفیہ فون کاٹ کر ڈیپارٹمنٹ کی طرف چلی گئی۔
وقت گذر رہا تھا صوفیہ اور ساحل اپنے اپنے ریسرچ ورک کو کمپلیٹ کرنے میں مشغول تھے کہ صوفیہ مشغولیت کی وجہ سے ساحل کا کال ریسؤ نہیں کرسکی۔ لیکن بعد میں جب کام سے فری ہوکر اس نے ساحل کو کال بیک کی تو ساحل غصے سے چیخ رہا تھا۔
”تم خود کو کیا سمجھتی ہو؟ میرا فون پک کیوں نہیں کیا“؟
”نہیں! ساحل ایسی بات نہیں ہے ایکچولی میں بیزی تھی۔ سوری! مجھے معاف کر دوپلیز! آئندہ اب دوبارہ نہیں کروں گی“۔
”اوکے! معاف کیا۔ سنو! میں اپنے دوست کے ساتھ بائک پر کسی ضروری کام کے لئے جموں جا رہا ہوں“۔
”اچھا! لیکن آپ کب واپس آئیں گے“؟ صوفیہ ہڑبڑاتے ہوئے پوچھا
”بس دو دن کے بعد“
”اچھاسنو! آپ اپنا بہت خیال رکھنا ساحل! آپ کو معلوم ہے آج آپ پہلی بار مجھ سے دور جا رہے ہیں۔ جانے کیوں میرا دل بہت گھبرا رہا ہے؟ پتا نہیں میں آپ کے بغیر کیسے رہوں گی؟ آپ کی بہت عادت ہو گئی ہے مجھے“۔ اور صوفیہ رونے لگی
”اف یار! تم یہ سب ڈرامے مت کرو، میں صرف دو دنوں کے لئے جا رہاہوں، دنیا سے نہیں جا رہا“۔ ساحل نے صوفیہ کو ڈانٹتے ہوئے کہا
”آپ پلیز! زبان سے ایسی باتیں مت کہو، آپ کو اللہ کا واسطہ،میں نے آپ کو ہزار بار منع کیا ہے کہ زبان سے ایسی باتیں نہیں بولتے۔
اور سنو! آپ اتنی جلدی غصہ کیوں ہو جاتے ہیں؟ اگر مجھے ایسا فیل ہوتا ہے تو اس میں میرا قصور“؟ بولو
”اچھا تو میں نہیں جاتا! اوکے!“
”نہیں آپ جاؤ، لیکن مجھے فون کرتے رہنا اور اپنا بہت خیال رکھنا بس میرے لئے“۔ صوفیہ نے آنکھوں سے آنسوں پوچھتے ہوئے کہا
ساحل کے جانے کے بعد صوفیہ اپنے روم میں بیڈ پر لیٹ گئی تبھی اس کی آنکھ لگ گئی۔ موبائیل کی گھنٹی سے صوفیہ جلدی سے اٹھی یہ سوچ کر کے کہیں ساحل کا فون نہ ہو اور پھر ساحل غصہ نہ ہو جائے۔ موبائیل جلدی سے ہاتھ میں لیا تو دیکھا کہ کسی ان نون کا فون ہے۔ اور اس ان نون نے بتایا کہ ساحل کا ایکسیڈینٹ ہوگیا ہے۔ یہ سنتے ہی صوفیہ کے ہوش اڑ گئے۔ اسے اپنے کانوں پر یقین نہیں ہو رہا تھا۔ اسے گھبراہٹ سے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اب و ہ کیا کرے۔ پھر اس نے خود کو مشکلوں سے سمنبھالتے ہوئے شاہد کو کال کرکے ساحل کے ایکسیڈینٹ کی ساری تفصیل بیان کردی۔
”صوفیہ تم گھبراؤ نہیں میں بس تمہارے پاس آ رہا ہوں“۔ اور کچھ ہی دیر بعد شاہد صوفیہ کے پاس پہنچ گیا۔ اور صوفیہ کو جلدی سے لیکر ہاسپٹل روانہ ہو گیا۔ جہاں ساحل زندگی اور موت کے بیچ جھول رہا تھا۔ صوفیہ ڈاکٹر کے پیروں میں گر کر رونے لگی اور منت کرنے لگی، ”ڈاکٹر صاحب میرے ساحل کو بچا لو۔ میں آپ سے بھیک مانگتی ہوں“۔ صوفیہ چیخ چیخ کر پاگلوں کی طرح رو رہی تھی۔ شاہد نے صوفیہ کو اٹھایا اور اس کو پاس کے بینچ پر بٹھادیا۔ ڈاکٹر نے شاہد کو بتایا کہ”ساحل کے سر میں گہری چوٹ لگی ہے اگر اوپریشن وقت پر نہ ہوا توپھر ساحل کو بچانا مشکل ہو جائے گا۔آپ لوگ جلدی پیسوں کا انتظام کریں“۔
”لیکن اتنی بڑی رقم کا انتظام کیسے ہوگا؟ صوفیہ“! شاہد نے فکرمند ہوتے ہوئے کہا۔
”ساحل کو بچانے کے لئے میں کچھ بھی کروں گی“۔ اور صوفیہ نے آنسو پوچھے اورکچھ سوچتے ہوئے شاہد سے بولی ”ٹھہرو!ایک راستہ ہے میرے پاس، میرے پاس امی کے دیئے ہوئے کچھ زیورات ہیں انھیں بیچ دوں گی“۔
”تم کیا بول رہی ہو“؟ لیکن یہ کیسے۔۔۔۔۔“؟
”میرے لئے ساحل سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں۔ بس تم اب اور دیر مت کرو“۔
”ٹھیک ہے جیسی تمہاری مرضی“۔ اور شاہد نے اگلے دن اوپریشن کی فیس جمع کروا دی۔
اوپریشن کے بعد ڈاکٹر نے بتایا کہ اوپریشن کامیاب ہوا اور ساحل اب خطرے سے باہر ہے۔ یہ کچھ دوایاں ہیں جو وقت پر دینی ہوگی اور ہاں! ساحل کا خاص خیال رکھنا ہوگا“۔
ساحل کی طبیعت میں دن بہ دن سدھار ہوتا جا رہا تھا اور اسے کچھ دن نورمل وارڈ میں شفٹ کرنے کے بعد ہاسپٹل سے ڈسچارج کر دیا گیا۔ اور صوفیہ اسے کچھ دنوں کے لئے اپنے روم میں لے آئی۔ صوفیہ کی دن رات خدمت اور دعاؤں سے ساحل بہت جلد ٹھیک ہونے لگا۔
”آج موسم کچھ خراب ہے“؟ ساحل نے بیڈ پر لیٹے ہوئے کہا
ہاں! بارش بہت زیادہ ہے۔ باہر طوفانی ہوا بھی چل رہی ہے“۔ صوفیہ نے کھڑکیوں کو بند کرتے ہوئے کہا۔
”صوفیہ! میرے پاس تو آؤ!“
”کیا آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں؟“ صوفیہ ساحل کے قریب بیٹھتے ہوئے بولی
”نہیں! نہیں! میں ٹھیک ہوں“، ساحل نے صوفیہ کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا۔ ”تم نے اچھا کیا جو میرے گھر والوں کو اس حادثے کے بارے میں نہیں بتایا، ورنہ وہ برداشت نہیں کر پاتے۔ اور اگر تم نہ ہوتیں تو میں شاید مر ہی جاتا“۔
صوفیہ نے فورا ساحل کے ہونٹوں پر اپنی انگلیاں رکھیں اور اس کو چپ کرواتے ہوئے بولی”ساحل! پلیز، ایسا مت بولو! اگر تمہیں کچھ ہو جاتا تومیں جی نہیں سکتی تھی“۔ یہ سنتے ہی ساحل نے صوفیہ کو اپنی طرف کھینچا اور سینے سے لگا لیا۔ ”او صوفیہ! آئی ریلی لو یو“۔تبھی بادل زور سے گرجنے لگا اور لائٹ گل ہوتے ہی کمرے میں سناٹا چھا گیا۔ صبح طوفان تھم چکا تھا۔
صبح ساحل کی جب آنکھ کھلی تو دیکھا صوفیہ ہاتھ میں چائے کی ٹرے لئے کھڑی مسکرا رہی ہے۔
ساحل نے صوفیہ کو اشارے سے اپنے پاس بیٹھنے کے لئے کہا۔ صوفیہ نے چائے کا کپ ساحل کو دیتے ہوئے کہا
”ساحل! اللہ کی دعا سے آپ اب ٹھیک ہو گئے ہیں۔ اور آپ کی پڑھائی بھی مکمل ہونے والی ہے۔ تو میرا خیال ہے کہ اب ہمیں شادی کرلینی چاہئے۔ آپ کا کیا خیال ہے؟ ساحل“
”صوفیہ کو گلے لگاتے ہوئے ساحل نے کہا”ہاں صوفیہ! میں ایسا کرتا ہوں کہ کل ہی گھر جاکر گھر والوں سے شادی کی بات کرتا ہوں۔ اوکے“۔ اگلے روز ساحل گھر کے لئے روانہ ہوگیا۔
گھر پہنچنے کے بعد جب ساحل کا فون نہیں آیا تو صوفیہ گھبرائی اور ساحل کو کال کرنے لگی۔ لیکن ساحل کا کال ہمیشہ یا تو بیذی رہتا یا انگیج۔
فون کی گھنٹی بجنے لگی تو صوفیہ فون کی طرف دوڑی کہ شاید ساحل کا فون ہو۔ اور اس نے جلدی سے فون اٹھایا اور ہڑبڑا کر بولی ”ہیلو! ساحل“
”ارے میں ساحل نہیں ہوں، میں شاہد ہوں، کیا ہوا؟ بولو؟ ساحل ٹھیک تو ہے؟ اور صوفیہ نے روتے ہوئے شاہد کو حالات سے آگاہ کر دیا۔
”اچھا، تم پریشان مت ہو میں آتا ہوں“۔ اور کچھ دیر کے بعد شاہد صوفیہ کے روم میں پہنچ گیا۔
”لو میرا فون اور ساحل کو فون کرو“۔ صوفیہ نے جلدی سے شاہد کے فون سے ساحل کو کال کر ڈالی۔ شاہد نے فورا صوفیہ کی کال ریسؤ کی۔
”ہیلو! ہیلو! ساحل! پلیز ساحل کال کٹ مت کرنا، آپ بات کیوں نہیں کرتے، آخر آپ کو کیا ہوا؟ آپ ٹھیک تو ہیں نا؟ بولو“۔ صوفیہ بولے جا رہی تھی۔
”ہاں میں ٹھیک ہوں۔ گھر والے ہماری شادی کے لئے راضی نہیں ہیں۔ انھوں نے رشتے کی کسی کزن سے میرا زبردستی میرا نکاح کروا دیا۔ میں مجبور تھا۔ مجھے معاف کردینا۔ اور مجھے بھول جانا“۔
”ساحل! آپ میرے ساتھ ایسا نہیں کر سکتے۔ آپ نے قیامت تک ساتھ نبھانے کی قسم کھائی تھی۔ ساحل! میں آپ کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی۔ مجھے چھوڑ کر مت جاؤ۔ آپ میری دنیا ہیں۔ ساحل!“ صوفیہ مسلسل چیخ چیخ کر رو رہی تھی۔ کہ اچانک ساحل نے فون کٹ کر دیا۔
اور صوفیہ بے ہوش ہو کر زمین پر گر گئی۔ اور جب ہوش آیا تو اس نے خود کو ہاسپٹل میں پایا۔ اور دیکھا کہ بیڈ کے سائڈ والی کرسی پر شاہد سر پکڑے بیٹھا ہے۔
”میں! یہاں کیسے“؟
شاہد فورا کرسی سے اٹھا اور صوفیہ کے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے بولا۔”تمہارا مس کیریج ہو گیا“۔ یہ سنتے ہی صوفیہ کی آنکھوں سے آنسؤں بہنے لگے۔ ”لیکن تم اب ٹھیک ہو۔ڈاکٹر نے گھر جانے کی پرمیشن دے دی ہے۔ اور شاہد نے صوفیہ کو اس کے روم تک چھوڑ کر واپس اپنے ہاسٹل آگیا۔
صوفیہ کے دروازے پر دستک ہوئی۔ ٹھک! ٹھک
صوفیہ نے دروازہ کھولا تو شاہد سامنے کھڑا تھا۔ شاہد کو اندر آنے کے لئے دروازہ کھلا چھوڑ کر صوفیہ روم میں آگئی۔ اور غصے سے بولی:
”آخر آپ مجھے مجھے بار بار پریشان کرنے کیوں چلے آتے ہیں؟ چاہتے کیا ہیں آپ؟ بولو؟ یہاں اب کبھی مت آنا“۔
”صوفیہ! مجھے تم سے کچھ کہنا ہے“
”بولو جلدی“ اور جاؤ
”صوفیہ! میں تمہیں چاہتا ہوں۔مجھے تم سے بہت محبت ہے“
صوفیہ نے شاہد کو غصے سے گھور کر دیکھا اور بولی:”اچھا!!!!! اب آپ آئے ہیں مجھ سے محبت جتنانے!! اب آپ کو مجھ سے اچانک محبت ہو گئی، بہت خوب شاہد صاحب! کیوں! دنیا میں آپ کو کوئی اور لڑکی نہیں ملی محبت کے لئے“؟ آنکھوں میں آنسؤں لئے ہوئے چیختے ہوئے پھر بولی”مجھے محبت نام سے سخت نفرت ہے۔ آپ کو مجھ سے کیا چاہئیے؟ بولو! میرے پاس آپ کو دینے کے لئے کچھ نہیں ہے آپ سب جانتے ہیں شاہد“۔
”لیکن اللہ کی قسم مجھے تم سے سچی محبت ہے“
چپ رہو! اپنی جھوٹی قسم میں اللہ کو بیچ میں مت لاؤ۔ میں کچھ سننانہیں چاہتی۔ مجھے مردوں سے سخت نفرت ہے۔ آخر آپ نے مجھے سمجھا کیا ہے! بے وقوف۔ شاہد صاحب! دنیا میں کوئی بے وقوف نہیں ہوتا بس محبت ہوتی ہے جس کو آپ لوگ بے وقوفی سمجھتے ہیں“
”صوفیہ! تم دوسرے کا گناہ میرے سر کیوں ڈال رہی ہو“؟
”کیونکہ تم سب مرد ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ خود غرض، مطلبی، اور احسان فراموش“
”ہاتھ کی ساری انگلیاں برابر نہیں ہوتیں۔ دیکھو! دیکھو! ذرا“ شاہد نے ہاتھ کی انگلیاں دیکھاتے ہوئے کہا۔ اچھا! ٹھیک ہے! جیسے تمہاری مرضی۔ لیکن میں تمہیں ہمیشہ محبت کرتا رہوں گا۔ اور میری ہمیشہ یہی دعا رہے گی کہ تم ہمیشہ خوش رہو، چاہے میرے بغیر ہی۔ میں تمہاری زندگی اور تمہاری دنیا سے ہمیشہ کے لئے جا رہاہوں۔ اب کبھی لوٹ کر تمہیں پریشان کرنے نہیں آؤں گا“۔ یہ سنتے ہی صوفیہ کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ اس کی کالی خوب صورت آنسؤں سے بھری آنکھوں کی چمک صاف بتا رہی تھی کہ کہیں نہ کہیں اس کے دل میں شاہد کے لئے سوفٹ کورنر ہے۔شاہد نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا”میں کل اسلامہ آباد جا رہاہوں۔ میری وہاں جاب لگ گئی ہے اب میں وہیں رہوں گا۔ تم اپنا خیال رکھنا۔ میری دعا ہے تم ہمیشہ خوش رہو آباد رہو۔ یہ ایک چھوٹا سا تحفہ تمہارے لئے لایا تھاوہی پنک ڈریس، جس میں، میں تمہیں دیکھنا چاہتا تھا“۔ بولتے ہوئے شاہد نے تحفہ بیڈ پر رکھ دیا۔اورواپس جانے کے لئے دروازہ کھولا اور پھر رک کر بولا”صوفیہ! زندگی میں تمہیں کبھی بھی میری ضرورت محسوس ہو تو ضرور یاد کرنااور میں تمہیں ہمیشہ وہیں کھڑا ملوں گا۔ اور یہ کہتے ہی دروازہ کھول کر جلدی سے باہر نکل گیا۔
شاہد کے جاتے ہی صوفیہ کی آنکھوں سے موسلا دھار بارش ہونے لگی۔ اور اپنی پھٹی ہوئی آنکھوں سے روم کا دروازہ جو دھیرے دھیرے بند ہو رہا تھا دیکھ رہی تھی۔اس کی آنکھوں کے سامنے شاہد کا پیارا سا چہرا بار بار آ رہا تھا۔ اور اس کے وہ سارے احسانات، اپنائیت، اور اس کی ہمدردی جو خالص محبت تھی صوفیہ کے دل کو اپنی طرف کھینچ رہی تھی۔
اگلے روز صوفیہ کے بار بار کال کرنے پر بھی شاہد نے رپلائی نہیں کیا تو صوفیہ خود کو روک نہیں پائی اور وہ سیدھے بس اسٹینڈ کی طرف دوڑتی بھاگتی پہنچی تو دیکھا بس اس کی آنکھوں کے سامنے سے گذر رہی تھی۔ صوفیہ کو آج سچی محبت کو ہمیشہ کے لئے کھونے کا احساس ہو رہا تھا۔ آنکھوں میں آنسؤں لئے صوفیہ واپس گھر کر طرف جانے کے لئے پلٹی تو دیکھا شاہد ہاتھ میں سامان لئے اس کے پیچھے کھڑا ہے۔
”تم اس پنک ڈریس میں بہت خوب صورت لگ رہی ہو۔ لیکن تم یہاں کیسے“؟
”آپ ایکچولی اپنا قیمتی سامان میرے روم میں بھول گئے تھے“
”میں تو اپنا سارا سامان ساتھ ہی لایا ہوں“۔ شاہد نے سامان کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا
تبھی صوفیہ شاہد کے سینے سے لگ گئی اور بولی”میں“