تحریر: شاھین عمر منظور
طالب علم ۔ کشمیر یونیورسٹی
8493055737
اللہ جل و علی قرآن کریم میں ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب رضی اللہ تعالی عنھم اجمعین کا ایک اہم وصف یوں بیان فرماتے ہیں کہ”وہ کافروں پر سخت اور آپس میں رحمدل ہیں”۔ اگر اس آیت کریمہ پر غور و تعمق کیا جائے تو اس امر کی بخوبی عکاسی ملتی ہے کہ دین و ایمان کے معاملے میں مسلمان کفار پر شدید اور پتھر کے مانند سخت ہوتے ہیں اور آپس میں شفیق و رحمدل۔ ان کی حیثیت ایک سیسہ پلائی ہوئی عمارت جیسی ہوتی ہے۔ وہ آپس میں خیر خواہ اور قلب واحد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مگر دوسری طرف جب حق و باطل، ایمان و کفر، توحید و شرک کا آپس میں معرکہ و تصادم پیش آتا ہے، تو انکے (غیر مسلموں) مقابلے میں یہ صورت فولاد کی حیثیت رکھتے ہیں، بقول علامہ اقبالؒ
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
مگر دور حاضر میں امتِ مسلمہ کا شیرازہ بکھر چکا ہے۔ متعدد مسلم ممالک ہونے کے باوجود بھی مسلمان ہی ہر جگہ مظلوم و محکوم نظر آ رہے ہیں۔ اسلامی مراکز دن بہ دن غیر اسلامی قوتوں کے تسلط میں مقید ہوتے جا رہے ہیں اور غلامی کی نیند میں سوئے ہوئے مسلمان ابھی بھی ٹھس سے مس نہیں ہوتے ہیں۔ ان کا غیر مسلم قوتوں کے خلاف جو رول و احتجاج ہونا چاہیے تھا، وہ مفقود و عدم ہونے کے مترادف ہے۔ مسلمانوں کی حالت اتنی ابتر ہو چکی ہیں کہ وہ اپنے حقیقی دینی دشمن کو چھوڑ کر آپس میں ہی طنز و ملامت کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو مشکوک نظر سے دیکھ کر اس پر کفر جیسا فتوی صادر کرتا ہے اور بہت سارے معیوب القاب تفویض کر کے اس کے اسلام و ایمان کو مشکوک بنا دیتا ہے، مگر افسوس! اسے یہ بات کون ذہن نشین کرائے :
منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی، دین بھی،ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی ، اللہ بھی ، قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
جب ہم اسلامی تاریخ کا غور و انہماک سے مطالعہ کرتے ہیں تو ہمارے سامنے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ اسلام اور اہل اسلام کو کمزور و مظلوم بنانے کے لئے دشمنان اسلام جو سب سے خطرناک حربہ استعمال کرتے آئے ہیں وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو منتشر و غیر منظم کیا جائے اور ان کی مرکزيت(Centralisation) کو پامال و ختم کیا جائے۔ ان کو ایک دوسرے سے اتنا متنفر کیا جائے کہ ان کا ایک مرکز(Centre) پر مجتمع ہونا محال مطلق بن جائے۔ دور حاضر میں بھی امت مسلمہ پر اس قسم کے حربے کیے جارہے ہیں اور اس میں غیر مسلم اقوام بہت حد تک کامیاب بھی ہوتے جا رہے ہیں۔ ہم غیر مسلم اقوام کے ان شکنجوں میں بہت آسانی سے پھنس جاتے ہیں مگر جو ہمارے اسلاف تھیں وہ ان مکارانہ فریبوں سے آشنا و واقف تھے۔ وہ آپس میں حلیم و شفیق تھے اور ان کے اندر محبت و اخلاص کا جذبہ پنہاں تھا، تب جاکے انھوں نے بہت سارے فتوحات سے اسلام کو مالامال کیا ہے، بقول علامہ اقبالؒ
دشت تو دشت ہیں دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحر ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے
اسی تناظر میں علامہ محمد اقبالؒ مسلمان نوجوانوں سے مخاطب ہو کر اپنے پاک صفات کے حامل اسلاف کا تذکرہ ان الفاظ میں کرتے ہیں :
کبھی اے نوجواں مسلم! تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوش محبت میں
کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاج سر دارا
گدائی میں بھی وہ اللہ والے تھے غیور اتنے
کہ منعم کو گدا کے ڈر سے بخشش کا نہ تھا یارا
تجھے آباء سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی
کہ تو گفتار وہ کردار، تو ثابت وہ سیارا
گنوادی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ امت مسلمہ کو ایک مرکز پر مجتمع ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں اسلاف کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے، نیز مسلمانوں کے قلوب کو آپسی محبت و الفت سے بھر دے۔۔۔۔۔آمین یا رب العلمین
انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات