تحریر: الطاف جمیل ندوی
اسلامی علوم ہم سب کا حصار ہے جب تک ہم اس حصار کو محفوظ رکھیں گئے تب تک ہماری بربادیوں کے اسباب بھی پیدا نہ ہوں گئے پر جب ہم اس حصار کو زنگ آلود کریں گئے تب ہماری بربادیوں کے چرچے ہر سو گونجیں گئے کل سے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو گردش میں ہے جس کے بارے میں معلومات مل رہیں پین کہ یہ ایک معصوم بچی ہے جو زیادتی کا شکار ہوئی ہے.
کل جو اس فرشتہ صفت بیٹی کی درد و کرب میں ڈوبی چیخیں جو دیکھیں تو یقین کریں میں سو بھی نہ سکا اس کے کرب کو دیکھ کر یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے اس سے پہلے ایسے ہی کچھ واقعات پہلے بھی ہوئے جب معصوم کلیوں کو ان درندہ صفت نوجوانوں نے اپنی ہوس کا شکار بنایا اور ہم نے صرف احتجاج کیا اور پھر بات آئی گئی نہ ہی کسی کو قرار واقعی سزا ملی. اور نہ ہی ایسی ہیبتناک واقعات کم پڑے .
یہ اصل میں ہمارے معاشرے میں پل رہی درندگئی کا شاخسانہ ہے جو ہم نے اپنے ہاتھوں سے تیار کیا ہے اس پر کسی فرد کو مورد الزام ٹھہرانا بھی عقل مندی نہیں بلکہ اجتماعی طور پر اپنا محاسبہ کرنا لازمی بن گیا ہے کہ کیوں ہماری بیٹی محفوظ نہیں ہیں کیوں آئے روز ہم ایسے دل دہلانے والے المیوں کو روکنے میں مسلسل مات کھا رہے ہیں کیا یہ صرف علماء کرام کی خطا ہے کہ وہ بروقت عوام الناس کو ایسی ضلالت کے بارے میں آگاہ نہیں کرتے.
میں نہیں مانتا علماء تو مسلسل اس کوشش میں مصروف العمل ہیں کہ ایک نیک اور پاکیزہ معاشرہ تعمیر ہوسکے نہ ہی یہ لیڈران کرام کی خطا ہے کہ وہ اس سلسلے میں کارگر اقدام نہیں اٹھاتے وہ بھی تو آئے روز اس بارے میں کہتے ہی رہتے ہیں. خرابی ہماری اپنی ایجاد کردہ ہے جس کا ملبہ ہم بڑی ڈھٹائی سے دوسروں کے سر تھوپنے میں مہارت رکھتے ہیں کیونکہ ہمیں دوسروں کے دل میں ابلیسی کام تو نظر آتے ہیں پر اپنے اندر چھپی ابلیسیت نظر آتی نہیں.
بس ہمیں اپنے آپ کا علاج و معالجہ کرنے کی سخت ضرورت ہے معاشرہ خود بہ خود بدل جائے گا جب تک ہم خود احتسابی کے عمل سے خود کو گزارنے پر آمادہ نہ ہوں گئے تب تک ہمارے دل جلتے رہیں گئے کلیان مسلتی رہیں گئیں اور قوم مجموعی طور ذلت و رسوائی کے عذاب میں پستی رہے گئی آئے خود کو بدلیں معاشرے خود بخود بدلیں گئے ہمارے لئے اس سے زیادہ شرمندگی کا کیا مقام ہوگا کہ ایک معصوم بچی رمضان المبارک کے مقدس ایام میں بھی ہماری درندگئی سے محفوظ نہیں رہ پاتی اور معاشرے بھی یہ کوئی اکیلا درندہ صفت نوجوان نہیں بلکہ بغور دیکھئے تو ہر گلی کے نکڑ پر ایسے درندے دندناتے دیکھنے کو ملیں گئے انہیں ہمارا احتجاج یا ہماری نعرے بازی باز رکھ نہیں سکتی اس کے لئے ہمیں بحیثیت مسلم ملت کے ایک ایسا لائحہ عمل ترتیب دینا ہوگا کہ ان وحشیوں کا جینا محال ہوجائے آو اپنی مدد آپ کریں معاشرہ بنائیں اور ایسے المناک باب کو بند کرنے کی تگ و دو کرنے میں اجتماعی سطح پر کام کریں
کچھ چھبتے سوالات
۱کیا ہم بحیثیت امت زندہ ہیں یا ہمارا جنازہ نکل چکا ہے
۲کیا ہم اب انسان کی قبیل سے خود کو وابستہ بتا سکتے ہیں
۳ کیا ہم جذباتیت کی جگہ تدبر کو نہیں دے سکتے کہ مسائل کا حل تلاش کیا جاسکے
۴ کیا مسائل صرف ضد ہٹ دھرمی سے حل کرنے کی ہماری انانیت مٹانا ممکن ہے
۵ کیا خود ہی خود کی خوشنودی پانے کے لئے ہم خود کو بدلنے پر آمادہ نہیں ہوسکتے
۶ کیا ہم جس نفاذ اسلام کی بات کرتے ہیں وہ انفرادی زندگی میں کہیں موجود ہے
۷ جس دین کا ہم رونا روتے ہیں اس کی حیثیت کیا ہے ہماری زندگی میں
۸ کیا معاشرت صرف دوسروں کو بدلنے سےبدلتے ہیں یا خود کو بدلنے کی کوشش کرنے سے
۹ کیا ہمارا دین سے فرار غیروں کی کارستانی ہے کہ ہماری اپنی تمنا اور کاوش کا شاخسانہ ہے
نہیں معلوم میرے رفیق کیا کہیں گئے میری ان گزارشات پر مگر میں نے جہاں تک علوم اسلامیہ کو سمجھا ہے وہ جذباتی پن سے زیادہ تدبر و تفکر کرنے کو کہتا ہے