تحریر: الطاف جمیل ندوی
کر لیتے ہیں تخلیق کوئی وجہِ اذیت
بھاتا نہیں خود ہم کو بھی آرام ہمارا
ابھی خوشیوں اور غموں سے بے نیاز ہی تھا ابھی تو چلنا بھی نہ سیکھئے تھے ابھی تو کوئی خواہش بھی نہ تھی ابھی تو درد و کرب کا احساس بھی نہیں ہوتا تھا بس بچپن نے انگڑائی لی ہوئی تھی اور میرے لئے سب سے بڑی تمنا کھیل کود کے سوا کچھ نہ تھا کہ اچانک کھیلتے ہی کھیلتے میرے کانوں میں کسی نے آواز دی تیرے بابا چلے گئے تو یتیم ہوگیا تیرے سر سے سایہ ہی اٹھ گیا میرے بچپن کا حال تھا کہ میں نے یہ سب سنا پر کھیلنے سے نہ رکا بلکہ کھیلتا ہی رہا مجھے اس آواز کی خوفناکی کا کوئی احساس ہی نہ تھا پر جب بھوک لگئی گھر آیا یہاں سب کو روتے ہوئے دیکھ کر بابا کو ایک بستر پر پڑے ہوئے دیکھ کر ہائے میری تو چیخیں نکل گئی کیوں کہ میری امی جو رو رہی تھی بابا کو غسل دے کر کفن پہنایا گیا میں سمجھا بابا جھوٹ موت موٹ سوئے ہوئے ہیں مجھ سے کھیل رہے ہیں پر پھر لوگوں نے اسے کاندھوں پر اٹھایا اور قبر میں رکھ کر مٹی ڈالنے لگئے میں حیرت سے تک رہا تھا کہ یہ کیوں بابا کو ایسے زمین میں بند کررہے ہیں جب تک یہ سب سمجھ آیا تب تک میرے ارمانوں کے جنازے اٹھ چکے تھے میری خواہشیں برباد ہوگئیں تھیں میرا اپنا لٹ گیا تھا کیونکہ دیر ہوگئی تھی مجھے احساس ہی نہ تھا کہ میری مصیبت کے ایام شروع ہوگئے ہیں اور پھر
میرا سفر غربت سے شروع ہوا والد کی وفات کے بعد چھوٹی چھوٹی خواہشیں بھی دم توڑنے لگیں یتیمی کے زمانے میں کبھی من پسند کپڑے نہ ملے کوئی اچھی چیز نہ ملی کھانے کے لالے پڑھ گئے عمر بھی بہت کم تھی دوسروں کے بچوں کو دیکھ کر اکثر آنکھیں بھیگ جاتی تھیں
وقت گزرتا رہا کبھی مزدوری کی تو کبھی بھوکا ہی چل پڑا بلا ہو مولانا حبیب اللہ شاہ مرحوم کا انہوں نے راستہ دیکھایا ایک بے سہارا یتیم کو دارلعلوم میں داخلہ دلایا ہلکی پھلکی ضروریات پوری کرتے رہے عربی سوم کی تکمیل ہوئی پر حالات بہتر نہ ہوئے وہی چھٹیوں میں مزدوری اور چھوٹی سی عمر میں بڑے بڑے کام بسا اوقات جی چاہتا موت ہی آتی تو شاید سکون سا ملتا بابا کی یاد نے میرے دل کے جذبات کو مجروح کردیا میرا سہارا چھن گیا تھا ان کی مسکان ان کا چلنا ان کی باتیں رہ رہ کر اکثر رلایا کرتی تھیں مدرسہ میں صرف درجہ سوم تک ہی پڑھایا جاتا تھا اس لئے مولانا کے مشورے ہی سے مظاہر العلوم سہارنپور کے لئے رخصت سفر باندھ لیا
مظاہر العلوم سہارنپور میں جاکر دل نہ لگا خود ہی مولانا ابرار الحق رحمہ اللہ کے پاس پہنچ گیا روتا رہا ان کے بارے میں بہت سنا تھا دل بھر آیا ان کے پاس پہنچ کر آنسو تھے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے مولانا نے انتہائی شفقت و محبت سے بات کی نصیحت کی اور اپنے ہی ساتھ ہردوئی میں ٹھرایا کچھ دن بعد ندوہ گیا مجھے اچھا لگا یہاں پہنچ کر اس لئے پھر یہیں کا ہوکے رہ گیا
فارغ ہوکر واپسی ہوئی تو وہی میرے اپنے پرائے ہونے لگئے جن کی اسلام پسندی پر مجھے ناز ہوا کرتا تھا جنہیں دیکھ دیکھ کر قدم قدم چلنے کا ارادہ مصمم کیا تھا گھر کے بڑوں نے پولیس میں بھرتی ہونے کو کہا گرچہ میں ان کے لئے گیا بھی پر لب پر دعا تھی کہ میرے مولا میری بھی لاج رکھ مجھے کسی محکمہ میں جگہ نہ دینا میں اس دین مبین کی خدمت کروں گا جس نے مجھے غربت اور بے بسی و لاچارگئی میں سہارا دیا دین کی خدمت کو فرض سمجھ کر اسی کام کو منتخب کرکے مختلف اداروں میں کام کرتا رہا مساجد و مدارس میں اپنے کام میں مصروف رہا یہی سوچ کر کہ کم میں مولا برکت دے گا اب وہ کرب شروع ہوا جس کا گمان بھی نہ تھا جو سوچا بھی نہ تھا کبھی کسی نے اپنے من کو راضی کرنے کے لئے سلفی کہا سلفی نے تبلیغی کہا تبلیغی نے تحریکی کہا تحریکی نے بدعتی جماعت کا کارکن کہا میرے کرب کو نہ سمجھا بس مجھے نام ملتے رہے کسی نے یہ نہ کہا کہ یہ صاحب مسلم ہے
کچھ یادیں
پہلی مہربانی یہ ہوئی کہ ہمارے ہاں کے اخوانیوں کو میرا حلیہ شبیہہ پسند نہ آئی اس لئے پٹائی کرنے کی مشق کرنے کے لئے مجھے اپنے ساتھ لے کر چل پڑے ان سے جتنا ہوسکا اتنی خدمت انجام دے کر مجھے واپس چھوڑ دیا پر ان کی کسی بھی خدمت کا مجھے آج تک کوئی دکھ ہی نہیں کیونکہ مجھے یقین ہے رب اس کا بدلہ عطا فرمائے گا
ایک ادارے کے منتظم نے برف باری میں بھی ادارے میں کام میں مشغول دیکھا تو بڑی حوصلہ افزائی کی اور انعام بھی دیا پر کچھ ہی مدت کے بعد مجھے ادارے سے فارغ کیا اور میری تنخواہ تک ہضم کرلی کچھ بھی نہیں دیا مایوسی سے نکل پڑا
ایک صاحب اسلام پسندی کے جذبہ سے سرشار ہوکر میرے خلاف اس قدر ہوئے کہ پندرہ ماہ تک بیکسی کی سزا اٹھانی پڑی میری آنکھوں سے آنسو بہاتا تنہائی میں اپنی بیکسی کی فریاد کرتا رب سے
مساجد میں جس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے نعرے لگائے جاتے تھے وہیں باہر نکل کر اسی کی سنت کے باغی ہمیں سمجھاتے کہ بس میھٹا کہا کرو نہیں تو نکل جاو
بستی میں کچھ نوجوان بری عادات میں مصروف تھے ان سے محبت کا تعلق استوار کرکے انہیں مسجد میں لاکر دین داری اختیار کرنے کے فوائد بتاتا رہا پر جوں ہی یہ نوجوان اپنی وضع قطع تبدیل کرنے لگئے نماز روزہ کے پابند ہوگئے اور اچھائی کی راہ اختیار کی تبہی مجھ سے وہ لوگ خفا ہو گئے جو میری محبت کا دم بھرنے میں بخل نہ کرتے تھے کبھی کیوں کہ ان نوجوانوں نے بدعات کے خلاف بات کی قرآن و سنت سے تعلق کی بات کی نبی کریم صلی اللہ علیہ کی بات کی ذلت و رسوائی سے بچنے کی بات کی بس نزلہ اس قدر گرا مجھے نماز اس مسجد میں نہ پڑھنے کا کہا گیا اور مجھے خاموشی سے اپنی بات کو نہ رکھنے کے لئے وہ وہ حربے ہوئے کہ میں کہتے ہوئے بھی تڑپتا ہوں
امامت کے فرائض انجام دیتے ہوئے جاہل بھی رعب جمائے بیٹھ جاتا ہے آدمی خون کے آنسو روتا ہے جب ایک عام آدمی بھی سنن نبوی پر سوالات کی بوچھاڑ کردیتا ہے اور مخالفت کرنا فرض سمجھتا ہے
جنازے پر جائے تو جلدی کرنے کا حکم ملتا ہے نماز پڑھائے تو لوگوں کا خیال رکھے ایسا فرمان ملتا ہے ہر بار صدر صاحب کو سلام نہ کرو تو تذلیل و تحقیر سہنی پڑتی ہے
عرصہ پانچ چھ سال قبل مجبوری میں آپالو اسپتال دہلی جانا پڑا بس ہزاروں طعن و تشنیع سنے ہزاروں باتیں سننی پڑیں اتنی رقم لائی کہاں سے علاج وہ بھی اتنا مہنگا کیسے ہوا اف کوئی دو نمبر کا کام کرتا ہے دراصل وہاں چندہ جمع کرنے کو گیا ہے ہمیں جھوٹ بولا بیماری کا کسی نے کبھی زحمت نہ کی کہ پوچھ لیتا مسئلہ کیا ہے یہ تو بلا ہو ان دوستوں کا جنہوں نے اس مصیبت میں میرا ساتھ دیا اور اپنی جیب کو خالی کرنے میں بخل نہ کیا بلکہ میری مدد کی ورنہ مجھ جیسا غریب تو رب جانے کس حال میں ہوتا
جب جس کی مرضی ہوگئی وہ ناراض ہوکر تذلیل و تحقیر کا تحفہ لازمی دے گیا تھوڑا نیا لباس لگائے تو ہزاروں باتیں راہ پر چلتے ہوئے ٹوپی کیا گری کہ طوفان آٹھ کھڑا ہو جائے مسجد میں دو منٹ کی دیر کیا ہوئی کہ عزت و احترام کے ساتھ باتیں سننی پڑتی ہیں
بس لوگوں کی خوشی میں خوش رہنا پڑتا ہے ان کے ناراضی سے بچنے کے لئے صرف ہاں جی ٹھیک ہے کہنا پڑتا ہے
اب بھی یہی سب ہوا جس کا گمان بھی نہ تھا کیونکہ اب تو میں شریر بھی نہ تھا نہ وہ جوانی کی ضد اب تو بڑھاپے کی اور رواں تھا اسلام پسندوں کے ساتھ جی لگا کر کام میں مگن تھا پر میرا وجود ہی کتنا ناپسندیدہ ہے کہ مجھے ان کے ساتھ میں قرار نہ ملا انتہائی مایوس کردیا انہوں نے جنہیں دیکھ کر جی چاہا تھا کہ اب جی لوں ان کے ہی سنگ پر قسمت الٹی ہوگئی پھر سے ایک بار
پر اب وہ قوت و طاقت نہ رہی دل انتہائی افسردہ ہے دماغ نہیں مانتا ایسے جینے کے لئے مجھ میں اب قوت برداشت کا یارا نہ رہا کہ چھوٹی چھوٹی باتوں کو لے کر لوگ آنسو بہانے پر مجبور کریں درد و کرب کا اظہار کرنے سے شرماتے ہوئے اپنا کرب چھپانے کو بھی جگہ نہ ملے
اک نئی افتاد کہ ترنم سے واعظ کرنا ہی ہمارے ہاں علم کی معراج ہے ان کی قدر و قیمت کو بھی نہیں جانا جاسکتا لوگوں کی خواہشات پر واعظ کرنا ہی علم کہلاتا ہے انپڑ لوگوں نے علماء کا لباس اوڑھ کر علماء کرام کا جینا حرام کر دیا ہے کب کون کافر مرتد بنا دے معلوم ہی نہیں ہوتا
اب تھکان نے کچھ بھی نہیں رہنے دیا میں تھک سا گیا ہوں یارب کیوں کہ میں عام انسان کی ہوں مجھ میں اب قوت برداشت کا یارا نہ رہا کہ چلتا ہی رہوں تھک کر افسردگی کے عالم میں مجبور ہوں آنسوؤں کے سوا اب کچھ نہیں بچا یہاں اس دین پسندی سے واسطہ پڑا کہ میں اصل کو اپنانے سے خوف کھانے لگا
پر کیا کروں
میں یہ سب ہرگز بھی نہیں لکھتا پر کیا کروں کیونکہ شاید کچھ لوگوں نے امیدیں وابستہ کر لی ہوں مجھ سے میرے نام سے یہ جانے بغیر کہ میں اس نام کی لاج رکھتے ہوئے کس کرب میں مبتلاء ہوتا رہا ہوں میرے وہ جگر کے ٹکڑے سمجھ لیں میری خواہشات نہیں میری ضروریات نے مجھے مجبور کردیا کہ ایک نئی امید کے ساتھ ایک نئی کوشش کے ساتھ مشغول ہوجاؤں کسی کام میں جہاں عزت نفس مجروح نہ ہو جہاں ہر بار صدر صاحب کو جاکر سلام نہ کہنی پڑے جہاں دوسروں کی خواہشات پر نہ جینا پڑے جہاں کسی کے غیض و غضب کا شکار ہونے کا خوف مسلط نہ ہو اسی لئے اب اپنے مولا سے امید باندھ کر ایک نئے جوش و خروش سے جینے کی خواہش رکھتا ہوں آپ یہ نہ کہنا میں ڈر محسوس کرتا ہوں نہیں پر بے بس و لاچار بن کر نہیں جینا چاہتا
بس
مولا جانے اب کیا ہو پر امید کرتا ہوں کہ آپ کسی دوسرے کو اس مقام تک نہ آنے دیں گئے جہاں آدمی انتہائی تکلیف دہ احساس سے روشناس ہوکر ظلمت کے اندھیرے کنویں میں گر جاتا ہو
دلی کرب ہے کہ میں اپنا علمی اثاثہ ایک فلاحی ادارے کو دے رہا ہوں جو میری کمائی تھی پر کیا کروں اس کے سوا کوئی راہ نہ سجھائی دی
دعاؤں میں یاد رکھنا شاید میں اچانک اس دوستی و محبت کے پلیٹ فارم سے بھی چلا جاؤں اور آپ کو مل نہ سکوں
کس کی تلاش ہے ہمیں۔۔کس کے اثر میں ہیں
جب سے چلے ہیں گھر سے ۔۔۔مسلسل سفر میں ہیں