عزرہ زمرود
کجر کلگام
ضرورت مند،مصیبت زدہ،تنگ دست وبے سہارا اور نادار افراد کی جانب دست تعاون دراز کرنا ہمارا انسانی اور اخلاقی فریضہ ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
مَّثَلُ ٱلَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَٰلَهُمْ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِى كُلِّ سُنۢبُلَةٍۢ مِّاْئَةُ حَبَّةٍۢ ۗ وَٱللَّهُ يُضَٰعِفُ لِمَن يَشَآءُ ۗ وَٱللَّهُ وَٰسِعٌ عَلِيمٌ.(سورہ بقرہ :261)
ترجمہ..
جو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روا یت ہے انھوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : اے لو گو !اللہ تعا لیٰ پا ک ہے اور پا ک ( مال ) کے سوا ( کو ئی ما ل ) قبو ل نہیں کرتا اپنے مال اللہ کی راہ میں صرف کرتے ہیں ، ان کے خرچ کی مثال ایسی ہے، جیسے ایک دانا بویا جائے اور اس کے سات بالیں نکلیں اور ہر بال میں سو دانے ہوں۔ اسی طرح اللہ جس کے عمل کو چاہتا ہے، افزونی عطا فرماتا ہے۔ وہ فراخ دست بھی ہے اور علیم بھی۔
یعنی اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے اپنا مال خرچ کرنے کے لیے دین میں کئی اصطلاحات ہیں سب سے پہلی اطعام،الطعام کھانا کھلاتا ہے۔
وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِيناً وَيَتِيماً وَأَسِيراً.(سورہ الانسان: 8 )
ترجمہ:
اور اللہ کی محبت میں مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں.
دوسری اصطلاح ایتاء مال ہے۔۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
وَآتَى الْمَالَ عَلَىٰ حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّائِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا ۖ وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ ۗ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ۔(سورہ :بقرہ:177)
ترجمہ:
اور اللہ کی محبت میں اپنا دل پسند مال رشتے داروں اور یتیموں پر ، مسکینوں اور مسا فروں پر، مدد کے لیے ہاتھ پھیلانے والوں پر اور غلاموں کی رہائی پر خرچ کرے، نماز قائم کرے اور زکوٰة دے۔ اور نیک وہ لوگ ہیں کہ جب عہد کریں تو اسے وفا کریں، اور تنگدستی و مصیبت کے وقت میں اور حق و باطل کی جنگ میں صبر کریں۔ یہ ہیں راستباز لوگ اور یہی لوگ متقی ہیں۔
پھر اس کے بعد آگے صدقہ،زکوۃ،انفاق اور قرض حسنہ جیسی اصطلاحات آتی ہیں۔
در اصل یہ پانچ چھ اصطلاحات ہیں لیکن ان کے اندر ایک تقسیم ذہن میں رکھے۔اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے مال خرچ کرنے کی دو بڑی بڑی مدیں ہیں۔
ایک مدا بنائے نوع پر خرچ کرنے کی ہے یعنی قرابت دار،غرباء، یتامیٰ،مساکین،محتاج اور بیواؤں پر خرچ کرنا۔یہ ہمارے معاشرے کے اجزاء ہیں،اسی طرح ہمارے معاشرے میں بہت سارے لوگ جیل میں بند ہیں،ان کے لیے خرچ کرنا بھی گویا اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے اور اس کا اجر ملے گا۔
دوسری مدہے عین اللہ کے دین کے لیے خرچ کرنا۔۔۔۔۔قران حکیم میں انفاق اور قرض حسنہ کی اصطلاحیں اس دوسری مد کے لیے آتی ہیں اور پہلی مد کے لیے اطعام الطعام،ایتائے مال،صدقہ و خیرات اور زکوٰۃ کی اصطلاحات ہیں۔
اس آیت مبارکہ میں ارشاد ہوا ہیں کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں یعنی حج میں یا جہاد میں یا فقراء و مساکین اور بیواؤں اور یتیموں پر یا بہ نیت امداد اپنے عزیزوں دوستوں پر اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص ایک دانہ گیہوں کا عمدہ زمین میں بوئے اس دانہ سے گیہوں کا ایک پودا نکلے جس میں سات خوشے گیہوں کے پیدا ہوں اور ہر خوشے میں سو دانے ہوں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک دانہ سے سات سو دانے حاصل ہوگے، مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے والے کا اجر وثواب ایک سے لے کر سات سو تک پہنچتا ہے ایک پیسہ خرچ کرے تو سات سو پیسوں کا ثواب حاصل ہو سکتا ہے۔
العزض اس آیت نے بتلایا کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں ایک روپیہ خرچ کرنے والے کا ثواب سات سو روپے کے خرچ کے برابر ملتا ہے۔
لیکن قرآن مجید نے اس مضمون کو بجائے مختصر اور صاف لفظوں میں بیان کرنے کے دانہ گندم کی مثال کی صورت میں بیان فرمایا جس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جس طرح کاشتکار ایک دانہ گندم سے سات سو دانے اسی وقت حاصل کر سکتا ہے جب کہ یہ دانہ عمدہ ہو خراب نہ ہو اور دانہ ڈالنے والا کاشتکار بھی کاشتکاری کے فن سے پورا واقف ہو اور جس زمین میں ڈالے وہ عمدہ زمین ہو کیونکہ ان میں سے اگر ایک چیز بھی کم ہوگئی تو یا یہ دانہ ضائع ہو جائے گا ، ایک دانہ بھی نہ نکلے گا اور یا پھر ایسا بارآوار نہ ہوگا کہ ایک دانہ سے سات سو دانے بن جائیں ۔ اسی طرح تمام صالحہ اور خصوصاً انفاق فی سبیل اللہ کی مقبولیت اور زیادتی اجر کے لیے بھی یہی تین شرطیں ہیں کہ جو مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرے وہ پاک اور حلال ہو کیونکہ حدیث میں اس کی مثال دی کی ہے۔
” حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روا یت ہے انھوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : اے لو گو !اللہ تعا لیٰ پا ک ہے اور پا ک ( مال ) کے سوا ( کو ئی ما ل ) قبو ل نہیں کرتا ”
دوسرے خرچ کرنے والا بھی نیک نیت اور صالح ہو بد نیتی یا نام و نمود کے لئے خرچ کرنے والا۔اس ناواقف کاشتکار کی طرح ہے جو دانہ کو کسی اسی جگہ ڈال دے کہ وہ ضائع ہو جائے۔تیسرے جس پر خرچ کرے وہ بھی صدقہ کا مستحق ہو کسی نا اہل پر خرچ کرکے ضائع نہ کرے اس طرح اس مثال سے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کی بہت بڑی فضیلت بھی معلوم ہوگی اور ساتھ ہی اس کی تین شرطیں بھی کہ مال حلال سے خرچ کرے اور خرچ کرنے کا طریقہ بھی سنت کے مطابق ہو اور محقیقین کو تلاش کرکے ان پر خرچ کرنے محض جیب سے نکال ڈالنے سے یہ فضیلت حاصل نہیں ہوتی، یعنی جس قدر خلوصِ اور جتنے گہرے جذبے کے ساتھ انسان اللہ تعالیٰ کی راہ میں مال خرچ کرے گا،اتنا ہی اللہ تعالیٰ کی طرف طرف سے اس کا اجر وثواب زیادہ ہوگا،اگر چہ مال کا خرچ خواہ اپنی ضروریات کی تکمیل میں ہو، یا اپنے بال بچوں کا پیٹ پالنے میں ، یا اپنے عزواقربا کی خبر گیری میں ،یا محتاجوں کی اعانت میں، یا رفاہ عام کے کاموں میں، یا اشاعت دین اور جہاد کے مقاصد میں، بہرحال اگر وہ قانون آلہی کے مطابق ہو اور خالص خدا کی رضا کے لیے ہو تو اس کا شمار اللہ ہی کی راہ میں ہوگا۔
اب جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ہم اللہ کے راستے میں اس طرح خرچ کریں کہ ہمیں اس زیادہ اجر وثواب ملے تو وہ ان لوگوں کا نمونہ سامنے رکھیں جنکی اللہ نے تعریف فرمائی ہے اور جن کے لیے ایسے اجر وثواب کی امید دلائی گئی ہے جسکی مثال دنیا میں کہیں ممکن نہیں۔ ان میں پہلی بات یہ ہے کہ وہ اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں۔یعنی وہ یہ سمجھتے ہیں کہ مال اللہ کی ملکیت ہے جو ہمارے پاس امانت ہے۔مال کا مالک قیامت کے دن ہم سے باز پرس کرے گا کہ تم نے اس مال کو کہاں کہاں خرچ کیا تھا۔اگر تو ہم نے ایسی جگہ خرچ کیا جہاں اس نے اجازت نہیں دی مثلا ہم نے اسکو بے ضرورت یا کسی گناہ کے کام میں یا اپنے سفلی جذبات کی تسکین کے لیے خرچ کیا یا ایسے لوگوں کو دیا جو لوگوں میں بے حیائی پھیلائے یا اللہ کے دین کو نقصان پہنچاتے ہیں۔یہ وہ خرچ کرنے سے پروردگار نے منع فرمایا ہے۔اور دوسری بات یہ ارشاد فرمائی کہ نمونے کے لوگ وہ ہیں کہ جب وہ صحیح مال صحیح جذبے سے صحیح جگہ خرچ کرتے ہیں تو پھر اس کے پیچھے دو حرکتیں نہیں کرتے۔وہ دو حرکتیں یہ ہیں کہ جس پر وہ خرچ کرتے ہیں کبھی اس پر احسان نہیں جتلاتے، کبھی بھول کر بھی اس کے سامنے اپنی نیکی کا ذکر نہیں کرتے ،برسوں بعد بھی اس کا تذکرہ گناہ سمجھتے ہیں اور نہ وہ یہ حرکت کرتے ہیں کہ اگر وہ اس شخص کے بارے میں محسوس کریں کہ اب چونکہ اس کے مالی حالات اچھے ہو گئے ہیں اس لیے ہمارے پاس آنا جانا اس نے کم کر دیا ہے ۔تو جب بھی اس سے سامنا ہو تو اپنی نیکی کا تذکرہ کرنے کے بعد اس کی عزت نفس مجروح کریں اور لوگوں کے سامنے ایسے طعنہ دیں کہ تم ہی ہونا جو ہمارے پاس فلاں فلاں ضروریات کے لیے آئے تھے ۔اگر ہم تمہاری مدد نہ کرتے تو تم جانتے ہو تمہارا کیا انجام ہوتا ۔کمینے لوگوں کی یہ خصلت ہوتی ہے کہ جب وہ کسی پر احسان کرتے ہیں تو چاہتے ہیں کہ وہ شخص اب ان کا بندہ بے دام بن کر رہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
وَأَنفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً يَرْجُونَ تِجَارَةً لَّن تَبُورَ (سورہ فاطر: 29)
ترجمہ
اور جو کچھ ہم نے ان کو رزق دیا ہے اس میں سے پوشیدہ اور علانیہ خرچ کرتے ہیں، یقینا وہ ایک ایسی تجارت کے امیدوار ہیں جو کبھی خسارے کا شکار نہیں ہوگی۔اس آیت مبارکہ میں بھی انفاق فی سبیل اللہ کا ذکر آیا ہے۔ در اصل جب کوئی قوم زوال کا شکار ہوتی ہے تو اس میں جو بڑے بڑے عیوب پیدا ہوتے ہیں ان میں بخالت اور زرپرستی کی بیماری پیش پیش ہوتی ہے۔ یہود بھی اپنے دورزوال میں اسی کا شکار ہوئے۔ اور پھر یہ بیماری ان کی قومی علامت بن کر رہ گئی۔ لیکن خشیت الٰہی سے بہرہ ور علماء اور ان کے راستے پر چلنے والے لوگ تلاوتِ کتاب، اہتمامِ صلوٰۃ کے ساتھ ساتھ اپنے مال و دولت کو کھلے اور چھپے اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں۔ وہ دولت کو اللہ تعالیٰ کی امانت سمجھ کر استعمال کرتے ہیں اور اس کے حوالے سے عائد ہونے والے حقوق کو ادا کرتے ہیں۔ وہ دولت کو ایک ضرورت سمجھتے ہیں اور دین کو مقصد زندگی گردانتے ہیں۔ اس لیے اس مقصد کو ضرورت پر قربان کرنے کی بجائے وہ ہمیشہ ضرورت کو مقصد کے فروغ کا ذریعہ بناتے ہیں۔ وہ اسے ایک ایسی تجارت سمجھتے ہیں جس کے نتیجے میں اجروثواب، لوگوں کی بھلائی اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہوتی ہے۔ انھیں اس بات کا گہرا شعور ہے کہ زندگی کی ضروریات کی فراہمی کے لیے لوگ تجارت کرتے ہیں لیکن وہ تجارت اگرچہ فائدے کی نیت سے کی جاتی ہے لیکن کبھی کبھی اس میں نقصان بھی ہوجاتا ہے۔ لیکن جو تجارت ہم کرتے ہیں اس میں کبھی خسارہ نہیں ہوتا۔ دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ انفاق کو برکت دیتا ہے اور آخرت میں انھیں اس بات کا یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ نہ صرف اس تجارت کا زیادہ سے زیادہ اجر عطا فرمائے گا بلکہ اپنے فضل و کرم سے اس میں اضافہ بھی فرمائے گا۔ اس اضافے کا اس آیت کریمہ میں جس طرح ذکر فرمایا گیا ہے اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ ایک وعدہ بھی ہے جسے وہ اپنے معمول کے مطابق پورا کرے گا۔ بشرطیکہ خرچ کرنے والا ریا اور نمائش کے لیے خرچ نہ کرے۔ نہ کسی پر احسان جتلائے نہ معاوضہ چاہے۔ پیش نظر صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا حصول رہے۔ چناچہ خرچ کرنے والے قیامت کے دن دیکھیں گے کہ ان کا خرچ کیا ہوا ایک ایک دانہ کوہ احد کے برابر ہوچکا ہے۔ اور ان کی عزت افزائی کے لیے اللہ تعالیٰ انھیں قیامت کے دن کی ہولناکی میں اس وقت عرش الٰہی کے سائے میں جگہ دے گا جب اس کے سوا اور کوئی سایہ نہیں ہوگا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تین آدمی ہیں جن
سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ کلام کرے گا نہ ان کی طرف نظر رحمت کرے گا اور نہ ہی ان کو پاک کرے گا۔ ایک منان (احسان جتلانے والا) دوسرا تہبند نیچے لٹکانے والا اور تیسرا جھوٹی قسم کھا کر اپنا مال فروخت کرنے والا۔ (مسلم : 293) اور فقہاء نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ جن افعال و اعمال کے متعلق اللہ تعالیٰ یہ فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان سے کلام نہیں کرے گا یا نظر رحمت سے نہیں دیکھے گا، یا پاک نہیں کرے گا۔ تو ایسے افعال کبیرہ گناہ ہوتے ہیں۔ گویا صدقہ کرنے کے بعد احسان جتلانے والے کا صرف صدقہ ہی ضائع نہیں ہوتا بلکہ وہ ایک کبیرہ گناہ کا بوجھ بھی اپنے سر پر لاد لیتا ہے۔