تحریر:حافظ میر ابراھیم سلفی
مدرس :سلفیہ مسلم انسٹچوٹ پرے پورہ
رابطہ نمبر :6005465614
زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہے جس میں
ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں
موت کا بازار گرم ہے۔ ملک ہند سراپا ماتم میں ڈوبا ہوا ہے۔ جس طرف بھی دیکھو، موت کے فرشتے نے اپنا جھال پھیلا رکھا ہے۔ زندگی اور موت کی کشمکش میں اہل وطن تڑپ تڑپ کر آہیں بھر رہے ہیں۔ کورونا وائرس (covid-19) کے وبائی قہر نے ملک کے ظالم و جابر امراء کو زمین پر لاکر کھڑا کردیا۔ غریب عوام oxygen cylinder کا خرچہ اٹھانے سے بھی قاصر ہے۔جس سے پتا چلتا ہے کہ ارباب اقتدار نے اپنے دور اقتدار میں فقط غریبوں اور بے کسوں کا استحصال کرنا حاصل کیا ہے۔جس طرف دیکھو جنازے اٹھ رہے ہیں، میتوں کو جلایا جارہا ہے لیکن سامراجی طاقت حسب معمول فخر و تکبر کی شکار ہے۔اس وبائی قہر میں بھی election rallies پر کوئی روک تھام نہیں جس سے اہل اقتدار کی کم ظرفی کا برملا اظہار ہوتا ہے۔ملک کے بیشتر طبی مراکز کاروباری مراکز بنے ہوئے ہیں۔ 3000 کا oxygen cylinder غریب عوام کو 20000میں فروخت کیا جارہا ہے۔اوپر والے کا خوف کسی کے دل میں نہیں۔ملک ہند کی اقتصادی حالت بھی قابل تشویش ہے۔عصری حکومت نے ملک کی تباہی میں کوئی قصر باقی نہ چھوڑی۔
اب تو خوشی کا غم ہے نہ غم کی خوشی مجھے
بے حس بنا چکی ہے بہت زندگی مجھے
اس وبائی قہر کے دوران اہل زمین پر مختلف حقیقتیں کھل گئی۔اولاً یہ کہ طاغوتی طاقت کتنی ہی زورآور کیوں نہ ہو، الہی نظام کے آگے کچھ حیثیت نہیں رکھتی۔کہیں نہ کہیں اس وبائی قہر کی صورت میں عذاب کی جھلک نظر آرہی ہے۔ کیونکہ طاغوتی اقتدار نے روز اول سے ہی مظلوم طبقہ پر اپنا حملہ بول دیا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عذاب اگر ظالموں کے لئے ہے تو مظلوم بھی اس کے شکار کیوں؟ تو مختصر جواب یہ دیا جاسکتا ہے کہ مظلوم کی موت اسکے لئے باعث رحمت ہے اور ظالم کی موت باعث عذاب، کیونکہ فریقین سفر آخرت پر روانہ ہو رہے ہیں اور عدل و انصاف کی میزان وہیں قائم کی جاۓ گی۔(واللہ اعلم) جذبات کو یک طرفہ رکھ کر دیکھا جائے تو اللہ کی نعمتوں کا استحصال روۓ پر زندگی بسر کرنے والا ہر شخص کررہا تھا،اللہ نے ہمیں وہ نعمتیں بھی عطا کی ہیں جن کا سوال بھی ہم نے کبھی نہ کیا۔اور اب وہ نعمتیں ہم سے چھینی جا رہی ہے۔اطمینان کی دولت ہم سے پرواز کررہی ہے۔سکون کی دولت لٹ رہی ہے، چین و قرار کی فضا کروٹ بدل رہی ہے، مسرت و شاد مانی کا ماحول ویران ہورہا ہے،ہر طرف سے خوف و دہشت کا ماحول ہے۔لیکن ابھی بھی دھرتی پر حیات نوش کرنے والوں کے دل رقیق نہیں ہورہے۔ شاید کہ کسی درد ناک عذاب کی منتظر ہے انسانیت۔
اب یہ بھی نہیں ٹھیک کہ ہر درد مٹا دیں
کچھ درد کلیجے سے لگانے کے لیے ہیں
راقم کی نظر اس طرف گئی ہے کہ سابقہ دس سالوں سے حالات Global level پر تبدیل ہورہے ہیں۔ دھیرے دھیرے زمین پر جبر و قہر کے سلطان مسلط ہورہے ہیں۔ زمینی، فضائی، طبی، سیاسی، ماحولیاتی سطح پر عجیب و غریب تغیرات ہورہے ہیں۔ گویا لگ رہا ہے کہ زمین کسی بڑے حادثے کی منتظر ہے۔وقت کی برکت مٹ چکی ہے، دین و دنیا ایک کاروباری تجارت گاہ بن گیا ہے۔ ہر کوئی دینار و درھم سمیٹنے میں مصروف عمل ہے۔ اس نازک صورتحال میں بھی زمینی داؤ پیج جاننے والا معصوم عوام کے خون کو چوسنے میں لگا ہوا ہے۔ کچھ سال قبل دوران مطالعہ راقم کی نظروں سے یہ روایت گئی تھی کہ سیدنا عابس نے دیکھا کہ لوگ شہر سے کوچ کر رہے ہیں ، انہوں نے پوچھا یہ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے ؟ (کہ شہر چھوڑ کر جا رہے ہیں ) تو انہیں بتایا گیا کہ یہ لوگ طاعون سے بچنے کیلئے شہر سے بھاگ رہے ہیں؟ تو وہ کہنے لگے اے طاعون! مجھے اپنی گرفت میں لے لے۔ یہ سن کر ان کے چچازاد، جو صحابی تھے، نے انہیں (تعجب سے ) کہا: آپ موت کی تمنا کرتے ہیں ؟ (جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موت کی تمنا کرنے سے منع فرمایا ہے ) تو سیدنا عابس نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ: ”ان چھ فتنوں(سے بچنے کیلئے ) موت کی تمنا کرو !: بیوقوفوں کی حکومت، پولیس کی کثرت، قطع رحمی، عہدوں اور فیصلوں کی خرید و فروخت، انسانی خون کی ارزانی، ایسے نوجوانوں کے فتنہ سے جو قرآن مجید کو بانسری بنالیں گے (یعنی سر یلی آواز میں پڑھنے کا اہتمام کریں گے) وہ ایسے آدمی کو (امامت و خطابت کیلئے ) آگے کریں گے جو فقیہ ہو گا نہ عالم، صرف وجہ یہ ہو گی کہ وہ انہیں قرآن مجید گاگا کر سنائے گا۔“(المعجم الكبير الطبراني ،حديث رقم 14003- باب العين – 18/37) یہ اثر گویا عصری حالات کی عمدہ عکاسی کررہا ہے۔
چہرے سجے سجے ہیں تو دل ہیں بجھے بجھے
ہر شخص میں تضاد ہے دن رات کی طرح
اب وقت آچکا ہے کہ رب ذوالجلال کو راضی کر لیں۔ جب تک اللہ ناراض ہے تب تک ہماری عبادات کسی کام آنے والی نہیں۔ روٹھے ہوئے رب کو منانا ہے۔ پہلے ہی بہت دیر ہوچکی ہے۔سلف صالحین کی حالات زندگی پر غور کریں تو ان کے وقت بھی یہ وبائیں پھیلیں لیکن انہوں نے بلا تاخیر اللہ کی جانب رجوع کیا۔ لیکن قابل افسوس ہے ہماری حالت کی سابقہ دو سالوں سے ہم اس وبا میں مبتلا ہے لیکن پھر بھی ہم غفلت سے باز نہیں آتے۔جہاں احتیاطی تدابیر (precautionary measures) اپنا ضروری ہے وہیں اس وبا کا حقیقی علاج فقط رجوع الی اللہ میں ہے۔رب کا قرب پانے کے لئے ہمیں اپنے قلوب کی تطہیر کرنی ہوگی۔ ہمارے دل "سنگدل” بن چکے ہیں۔ ہمدردی اور سخاوت کا جذبہ خود میں پیدا کرنا ہوگا۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ اس وبائی بیماری میں بھی بعض بے تربیت اشخاص نے اپنی دولت میں اضافہ کرنے کی خاطر کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا۔مزدور طبقہ بھوک سے مررہا ہے، ہم کس طرح اطمینان سے سکون کی نیند کرسکتے ہیں۔ہمیں آگے آنا ہوگا، کب تک ہم فلاحی اداروں پر منحصر رہیں، اب حالات تقاضا کر رہے ہیں کہ خود ہی غریبوں کی خدمت میں لگ جائیں۔ کیونکہ کہیں نہ کہیں مظلوم، بے کس، مجبور افراد کی آہ عرش کو چھوچکی ہے۔
دل کے آئینے پہ نہ لکھو راز کی باتیں
آنکھ کی کھڑکی کھلی ہے عکس باہر آئے گا
تکبر و غرور کو لات مار کر اللہ کے دربار میں سجدہ ریز ہوجائیں۔اپنی انا کو سپردخاک کردیں۔اپنی دنیا سنوارنے کے لئے ہم نے کافی لوگوں کے جذبات و احساسات کو اپنے پیروی تلے روندا ہے، ان سے بلا تاخیر معافی مانگیں۔ دولت کے نشے میں جو طغیانی اور سرکشی برپا کی ہے اسے توبہ کرکے تائب ہوکر اپنے گناہوں پر روئیں۔ عریانی اور فحاشی کے مراکز پر تالا لگانے کا وقت آچکا ہے۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ اپنے بندے کی توبہ سے تم میں سے اس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جسے اس کا وہ اونٹ اچانک مل جائے جسے وہ بےآب و گیاہ چٹیل میدان میں گم کربیٹھا ہو‘‘۔ ایک اور روایت میں ہے کہ ’’ الله اپنے بندے کی توبہ کی وجہ سے تم میں سے اس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جو کسی بے آب وگیاہ چٹیل میدان میں اپنی سواری پر سفر کر رہا ہو کہ اس کی سواری اس سے گم ہو جائے اور اس کے کھانے پینے کا سامان بھی اسی پر ہو۔ وہ اس کے ملنے سے مایوس ہو کر ایک درخت کے نیچے آکر اس کے سائے میں لیٹ جائے اور اسے اپنی سواری کے مل جانے کی کوئی امید نہ رہے۔ ایسے میں اچانک اس کی سواری اس کے سامنے آ کھڑی ہو۔ اور وہ اس کی نکیل پکڑ کر فرط مسرت سے یوں کہہ بیٹھے کہ اے اللہ! تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا رب! یعنی خوشی کی شدت کی وجہ سے وہ غلطی سے ایسا کہہ دے‘‘۔ (متفق علیہ)
بےدم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے
تم اچھے مسیحا ہو شفا کیوں نہیں دیتے
بربادیِ دل جبر نہیں فیض کسی کا
وہ دشمنِ جاں ہے تو بھلا کیوں نہیں دیتے
یقین جانیں،آج بہت سارے لوگ ایسے بھی ہیں جو اپنی مجبوری کسی کے سامنے ظاہر نہیں کرپاتے۔بہت سارے لوگ ایسے بھی ہیں جو اپنے آنسو دنیا کے سامنے نہیں بہا پاتے۔دل رو رہے ہیں، اور رلانے والے بھی ہم ہی ہیں۔ہمارے پاس دنیاوی سرمایہ آتے ہی خدائی کا تصور نفوس پر غالب آجاتا ہے جس سے خود کو آزاد کرانے کی ضرورت ہے۔ یہاں طبیب علماء پر تنقید کر رہے ہیں اور علماء ایک دوسرے پر کفر کے فتوی صادر کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ صحافت کے ماہرین حکومت کو نشانہ بنا رہے ہیں اور حکومت عوام پر نالاں ہے۔ ان چیزوں سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں۔ہماری باطنی دنیا تباہ ہو چکی ہے اور ہم ظاہر سجانے میں مشغول و مصروف ہیں۔ اب ہمیں اپنی حالت پر ترس کھا کر باز آنا چاہیے۔ہم خود فریبی میں مبتلا ہے۔ اب لوٹ آئیے اللہ کی طرف۔ چھوڑ دیجئے اپنی انا۔ اللہ سے تعلق مضبوط کرلیں۔ اللہ کے بندوں پر ظلم کرنے سے رک جائے۔
People fear death even more than pain. It’s strange that they fear death. Life hurts a lot more than death. At the point of death, the pain is over.
اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ ہمیں اس وبائی قہر سے نجات عطا کر کے پھر سے خوشحالی کی فضا قائم کرے۔۔۔۔۔ آمین یا رب العالمین۔