تخیلات: الطاف جمیل ندوی
بچپن کے دن رہ رہ کر آج یاد آئے جب رمضان المبارک کی آمد ہوتی تو ہم بچے بڑی ہی خوشی محسوس کرتے
دوڑ لگاتے ایک دوسری کو آواز دیتے
(ولا ہو نماز ہا گژھو ) آجاو نماز پڑھنے جائیں
مسجد میں جاکر کبھی ایک جانب تو کبھی دوسری
جانب دیکھتے
کہ کیا لوگ ہمیں دیکھ رہے ہیں نا کہ ہم نماز پڑھنے آئے ہیں
صبح سحری کے وقت
اپنے برآمدے پر پکارتے ووقتے سحر چلاتے
امان پکارتی آجاو بچو سحری کا ٹائم ختم ہورہا ہے
بس ہم کھاتے وہ سب جو امی دیتی
اب پورے دن افطار کے لئے انتظار کرتے
کبھی کبھی چوری چھپی کچھ کھا بھی لیتے
امی کہتی کھا لو بچو
چھوٹے بچوں کو آدھے دن میں پورا ثواب ملتا ہے
ہم ضد کرتے
امی کہنا کسی سے بھی نہیں
افطاری پر چینختے چلاتے افطار افطار افطار
کیا رونق ہوتی تھی
اب بڑے ہوئے تو یہ سب دیکھتے کہ
وہی سب آج کے بچے کر رہے ہیں
پر اس رمضان میں تو جیسے رونقیں ہی
روٹھ گئی ہیں
آج جب بچوں کو دیکھا
وہ خوشیاں نہیں منا رہے تھے
وہ مسجد کی طرف جانے سے ڈر رہے ہیں
انہیں تراویح کا انتظار ہی نہیں
آج مسجد کو اکیلا ہی دیکھا
دو تین لوگوں کے ساتھ
اور کوئی نہیں
کوئی چھک پہل نہیں ہو کا عالم ہے
نماز پڑھنے والے کہہ رہے ہیں اب نماز گھروں میں
ہی پڑھیں گئے
اب نہ نماز پڑھنے والوں کی آہون سے مسجد
گونجے گی نہ ہی لوگ اپنے چہرے پر
پانی کے قطرے بہاتے ہوئے مسجد آئیں گئے
اور نہ ہی تراویح پر جھگڑے ہوں گئے
نہ ہی مسجد میں کوئی شور ہوگا معصوم بچوں کا
اب تو خاموشی ہی خاموشی ہے
اب وہ ہچکیاں بھی سننے کو نہیں ملیں گیں نمازوں میں اب نہ وہ آہین سنیں گئے اب نہ بچوں کو ڈھانٹ پلائی جائے گئی اب نہ کسی کو جلدی ہوگی نہ کوئی آہستہ پڑھنے کی ضد کرے گا
تو بے تحاشہ آنسو نکل پڑے
کہ کیا بحیثیت اللہ کے بندے ہم مر گئے ہیں
کیا ہمارا رب اب ہم سے اس قدر خفا ہے کہ اس
رمضان میں ہماری عبادتیں بھی مسجد سے خالی ہیں
کیا اب اللہ ہمیں مسجد کے سجدے کی لذت سے
دور فرما گیا اکیس اب ہماری دعا مسجد میں نہ ہوگی
ہائے میری پیشیمانی ہائے میری بیکسی و بے بسی
میں کیوں نہ ہوجاؤں دل آزردہ
میں کیوں کر سکون سے پڑا رہوں
میرا تو مسکن سکون ہی مجھ سے چھن گیا
ہائے میرےرب گر تو نے دھتکارا تو کدھر جائیں گئے
آئے رب ہمارا کون ہے تیرے سوا کسے ہم پکاریں گئے
یاربی کعبہ کے لئے بھی مسجد نبوی کے لئے بھی
ہم ترس رہے ہیں
مولا تیرے بندے ہیں کہاں جائیں کس کو پکاریں
اب تو معاف فرما ہمیں مسجد تک جانے دے یارب