فکریات: الطاف جمیل ندوی
اجتماعی طور پر تو ہمارا جنازہ کب کا نکل چکا ہے۔ ہمارا مزاج کا جزو لاینفک بن گیا ہے کہ اپنے اسلاف کی چھوٹی چھوٹی باتوں کو لے کر تنقید برائے تحقیر کرتے رہیں۔ جب معیار علم یہی بن جائے کسی قوم کا تو اسے ذلت و رسوائی سے بچانا ایسا ہی ہے کہ کوئی آدمی آگ میں بیٹھ جائے اور سمجھے کہ اب مجھے کسی قسم کی گرمی کا احساس نہیں ہوگا یہ ایک المیہ ہے کہ ہم نے اصحاب نبوی علیہ السلام سے لے کر آئمہ کرام علماء حدیث فقہ کو بھی اپنی لاعلمی کے ترازو میں رکھ کر ان کی کوتاہیاں بیان کرنے میں فخر محسوس کیا ان کی نیکی اور ان کی محنت شاقہ جو انہوں نے اسلامی تعلیمات کی آبیاری کے لئے کی اب وہ سب اس ستم ظریفی کے سبب پردہ میں چلا گیا ہے اور نتیجہ ہمارے سامنے ہے ہم بحیثیت مسلم ملت کے اتنے بکھر گئے ہیں کہ اجتماعیت اب خواب سی لگتی ہے۔
جب کہ اسلاف امت ہمارے لئے ایک بہترین تاریخ چھوڑ کر گئے ہیں جس تاریخ کی ہم دہائی دیتے ہیں جس تابناک ماضی کو ہم بطور امتیاز بیان کرتے ہوئے خوشی و مسرت کا اظہار کرتے ہیں. پر کیا وجہ ہے اس ماضی تابناک کو ہم نے اندھیرے میں دھکیلنے کی قسم کھا رکھی ہے.
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ہوں کہ امام مالک امام شافعی ہوں یا امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ ان کی پاکیزہ زندگی ان کی علمی کاوشوں کو یکسر مسترد کرتے ہوئے بڑے فخر سے ہم خود کو بحر العلوم سمجھتے ہیں اب ماضی قریب میں علماء کرام کی خدمات کا اعتراف کرنے کے بجائے ہم مسلسل ان کی کردار کشی کرنے پر تلے ہوئے ہیں .
بھائی ذرا سوچئے نا ہم کہاں جارہے ہیں۔
بھائی غور کرے ہم علم و ادب کا جنازہ نکال رہے ہیں میں کسی خاص کی بات کرنا فضول سمجھتا ہوں بحیثیت مجموعی ہم نے اپنے اسلاف کی زندگیوں کو داغدار بنانے کا حلف لے رکھا ہے تو کیا ہم امت مسلمہ کی بات کرسکتے ہیں.
کیا واعتصمو بحبلل اللہ کا ورد کرسکتے ہیں نہیں کیسے کریں کیونکہ ہم نے اس در کو خود ہی بند کرنے کی ٹھان جو لی ہے مجھے کسی سے کسی قسم کی شکایت ہے ہی نہیں جن پر ہم تنقید کر رہے ہیں وہ رب الکریم کے پاس چلے گئے ہیں وہ اپنے زمانے کے آفتاب بن کر چمکتے رہے۔
پر ہماری حالت تو نالی میں پڑے غلیظ کیڑے سے بھی بدتر ہوگئی ہے مائیک پر چلانا کس کو نہیں آتا اپنی اپنی انفرادی زندگی پر نظر دوڑائیں تو بدبو کے ایسے پھوارے برستے محسوس ہوں گئے کہ شرمندگی ہوگئی اسے ظاہر کرتے ہوئے کیا ہم نے کوئی رتی برابر ایسا کارنامہ انجام دیا ہے جس پر آنے والے مستقبل میں کوئی امت کا فرد ہم پر فخر کرے، ہماری مثال دے یہ تو انفرادی زندگی ہوئی۔
اجتماعیت میں تو کب کا ہمارا جنازہ نکل چکا ہے ہم نے تو اجتماعیت کے کس بل نکال دئے ہیں اس کا پنپنا تو جیسے ہمارے لئے زہر ہے۔