از قلم: فاضل ظہور
چمار نورآباد
[email protected]
جمہوریت کا لفظ در حقیقت انگریزی لفظ “democracy”کا ترجمہ ہے ، انگریزی میں یہ لفظ یونانی زبان سے منتقل ہوکر آیا ہے۔یونانی زبان میں “demo”عوام کو،اور “cracy” حاکمیت کو کہتے ہیں۔عربی میں اس کا ترجمہ دیمقراطیہ کیا گیا ہے۔جمہوریت کی اصطلاحی تعریف (آزاد دائرۃ المعارف ،ویکی پیڈیا)کے مطابق :’’حکومت کی ایک ایسی حالت جس میں لوگ یا لوگوں کا منتخب شدہ نمائندہ حکومت چلانے کا اہل ہوتا ہے‘‘سے کی گئی ہے۔یونانی مفکر ہیروڈوٹس “hearodotus”نے جمہوریت کا مفہوم اس طرح بیان کیا ہے کہ:’’جمہوریت ایک ایسی حکومت ہوتی ہے ،جس میں ریاست کے حاکمانہ اختیارات قانونی طور پر پورے معاشرے کو حاصل ہوتے ہیں‘‘۔
سابق امریکی صدر ابراہم لنکن کا قول ہے: ”goverment of the people,by the people,for the people”یعنی ’’عوام کی حاکمیت ،عوام کے ذریعہ،عوام پر‘‘۔
جمہوریت کی جامع ومانع تعریف میں خود علماء سیاست کا بڑا اختلاف ہے،لیکن بحیثیت مجموعی اس سے ایسا نظام حکومت مراد ہے جس میں عوام کی رائے کو کسی نا کسی شکل میں حکومت کی پالیسیاں طے کرنے کے لیے بنیاد بنایا گیا ہو۔
جمہوریت کا سراغ سب سے پہلے ہندوستان میں ملتا ہے،سو سال قبل مسیح اور بدھا کی پیدائش سے قبل ہند میں جمہوری ریاستیں موجود تھیں اور ان کو جاناپداس “janapadas”کہا جاتا تھا۔یونان میں بھی جمہوریت موجود رہی ہے ،لیکن وہاں جمہوریت کا تصور سادہ اور محدود تھا۔سادہ اس معنی کر کہ یونان میں جو ریاستیں تھیں ،وہ شہر ی ریاست کہلاتی تھی۔یہ چھوٹی چھوٹی ریاستیں تھیں،چھوٹے چھوٹے شہروں پر مشتمل ،ایک شہر ایک مستقل حکومت ہوا کرتا تھا،دوسرا شہر دوسری حکومت اور تیسرا شہر تیسری حکومت۔شہر بھی بڑے نہیں ہوتے تھے یونان کا سب سے بڑا شہر ایتھنز (Athens)تھا،اور اس کی آبادی زیادہ سے زیادہ دس ہزار افراد پر مشتمل تھی،چھوٹی سی حکومت،چھوٹا سا ملک تھوڑی سی آبادی،لہذا وہاں جمہوریت کا تصور یہ تھاکہ بادشاہ خاص خاص اور بڑے فیصلوں میں عوام کی رائے معلوم کرنے کے لیے ساری آبادی کو اکٹھا کرلیتا تھا ،اوریہ اسی جگہ ممکن ہے جہاں چھوٹا سا ملک اور مختصر سی آبادی ہو،چنانچہ جو بڑے بڑے ملک قائم ہوئے جیسے روم کی سلطنت تو وہاں یہ صورت ممکن نہیں تھی،لہذا وہاں جمہوریت کا تصور اس حد تک محدود ہوگیا کہ بادشاہ اپنے مشورے کے لیے کوئی کونسل یا مجلس شوری بنالیتا تھا،اس کا نتیجہ رفتہ رفتہ یہ نکلا جمہوریت کا حقیقی تصور( عوام کو پالیسیوں میں حصہ دار بنایا جائے)عملا مفقود ہوتا گیا،اور اس کی جگہ مطلق العنان بادشاہت وغیرہ نے لے لی،اورچھوٹی چھوٹی بادشاہت کے قیام کے بعد جمہوریت کا تصور ختم ہوگیا ۔
جمہوریت کی نشأۃ ثانیہ
دوبارہ اس تصور کا احیاء ۱۸ ویں صدی کے آغاز میں ہوا، اس وقت جمہوریت نے ایک منضبط شکل اختیار کی اوروہ جمہوریت وجود میں آئی جو آج روبعمل ہے۔جس کا نام لبرل ڈیموکریسی”liberal democracy” ہے ۔اردومیں اس کو ’’آزاد خیال جمہوریت‘‘ سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ جمہوریت کی صورت گری جن مفکرین نے کی اور جن کو آزاد خیال جمہوریت کا بانی سمجھاجاتا ہیں ،۔ایک وولٹائر”voltire”دوسرا ’’مونٹیسکو”montesquiue”اور تیسرا ’’روسو‘‘”rousseau”ہیں۔یہ تینوں فرانس کے فلسفی ہیں جن کے افکار ونظریات کے ذریعہ جمہوریت وجو پذیر ہوئی۔
جمہوری حکومت کا طریقۂ کار
چوں کہ مطلق العنان حکومت میں تمام اختیارات ایک ہی شخص کے پاس ہوتے تھے، مونٹیسکو “montesquiue”نے اس کو لوگوں کے نقصان اورظلم کا باعث قرار دیا اور یہ کہا کہ ریاست کے اختیارات تین قسم کے ہوتے ہیں لہذا تینوں اختیارات کسی ایک شخص یا ادارے میں مرتکز نہیں ہونے چاہیے،بلکہ تینوں ادارے ایک دوسرے سے آزاد اور خود مختار ہونے چاہیے۔چنانچہ قانون سازی کا اختیار رکھنے والے ادارے کو’’ مقننہ یا لیجسلیچر((legislature‘‘کہا جاتا ہے،اور جمہوریت میں یہ اختیار پارلیمنٹ یا اسمبلی کو حاصل ہوتے ہیں۔قانون کے مطابق ملک کے نظم ونسق کا اختیار جس ادارہ کو حاصل ہوتا ہے اسے’’انتظامیہ یا ایگزیکٹو(executive)‘‘کہا جاتا ہے،جس کا سربراہ صدارتی نظام میں صدر مملکت اور پارلیمانی نظام میں وزیر اعظم ہوتا ہے۔قانون کی تشریح اور تنازعات کا تصفیہ کرنے والے ادارہ کانام ’’عدلیہ یا جوڈشیری(judiciary)‘‘ ہے،جو ملک کی عدالتوں کی شکل میں وجود میں آتا ہے۔اسی وقت سے جمہوریت کا یہ نظام جاری ہے ،۹ستمبر۲۰۱۳”Borgen Magazine” کے مطابق دنیا بھر میں جمہوری ممالک کی تعداد ۱۲۳ ہے۔
جمہوریت کے فوائد
ماضی میں یہ تینوں قسم کے اختیارات ایک شخص یا ایک جہت میں مرکوز رہتے تھے ،وہی قانون بناتی تھی،وہی لاگو کرتی تھی،اور وہی تنازعات کا تصفیہ کرتی تھی۔جس کا نتیجہ یہ تھا کہ اگر انتظامیہ کوئی گڑ بڑ کرے تو اس کے خلاف فریاد بھی اسی کے پاس لے جانی پڑتی تھی۔شاعر نے اسی قسم کے نظام کے بارے میں کہاتھاکہ
وہی قاتل وہی شاہد وہی منصف ٹھہرے
اقرباء میرے کریں خون کا دعوی کس پر
مونٹیسکو”montesquiue” نے اسی کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ تجویز دی تھی کہ حکومت کے تینوں اعمال الگ الگ اداروں کے پاس ہونے چاہیے،اور ان میں سے ہر ایک کو خود مختار ہونا چاہیے،کوئی ادارہ دوسرے کے دباؤ میں نہ ہو۔مقننہ قانون بنائے،اس کو نافذ انتظامیہ کرے۔اور عدلیہ خود مختار ہونی چاہیے،تا کہ اگر کسی کو مقننہ یا انتظامیہ سے کوئی شکایت ہے تو وہ عدلیہ کے پاس جائے اور عدلیہ اس کو رفع کرنے کی پوزیشن میں ہو۔ انصاف کی بالا دستی قائم ہو اورہر شخص کو اس کا حق ملے۔
ہندوستان میں جمہوریت
ہندوستان میں ۱۹۳۵ء سے جو برطانوی ایکٹ نافذ تھا وہ ۲۶ /جنوری ۱۹۵۰ء کو منسوخ ہوگیا،اور جمہوری نظام کا قیام عمل میں آیا۔اس دستور کو وضع کرنے میں تین کروڑروپئے اور تین سال کا وقت صرف ہوا،یہ دستور کیبنٹ مشن پلان مئی ۱۹۴۶ ء کے تحت آئین ساز اسمبلی کے ذریعہ بنایا گیا،پہلے غیرمنقسم ہندوستان میں الیکشن کے ذریعہ۲۹۲ نمائندوں کا انتخاب کیا گیا،دوسو آٹھ نمائندے کانگریس کے اور تہتر نمائندے مسلم لیگ کے منتخب ہوئے،ترانوے نمائندے نوابین اور راجاؤں کی طرف سے نامزد ہوئے،اس طرح کل تین سو ترانوے نمائندوں سے اسمبلی وجود میں آئی،۹دسمبر۱۹۴۶ ء کو اس کا پہلا اجلاس ہوا،جس میں سب سے معمر رکن اسمبلی ڈاکٹر سچتانندسنہا کو اس اسمبلی کا عارضی صدر منتخب کیا گیا ،۱۱/ستمبر کو تمام اراکین نے اتفاق رائے سے ڈاکٹر راجندر پرشاد کو اسمبلی کا مستقل چیئرمین بنادیا،اسمبلی نے آئین سازی کے لیے ۱۳ کمیٹیاں بنائی،ان کمیٹیوں نے اپنے اپنے مسودات تیار کیے،بعد میں ایک سات رکنی ڈرافٹ کمیٹی نے جس کی صدارت ڈاکٹر امبیڈکر کررہے تھے ان مسودات کے گہرے مطالعہ کے بعدآئین کا نیا مسودہ تیار کیا۔۴/نومبر کو یہ مسودہ بحث ونظر ،ترمیم و تنسیخ اور حذف واضافہ کے لیے آئین ساز اسمبلی میں پیش ہوا،جنوری ۱۹۴۸ء کو یہ مسودہ عام لوگوں کے لیے شائع کردیا گیا،ترمیم و تنسیخ کے لیے دو ہزار سے زیادہ تجاویز موصول ہوئیں،۲۶ نومبر ۱۹۵۰ ء کو مسودہ آئین دستور ساز اسمبلی میں پیش ہوا،مولانا حسرت موہانی کے علاوہ تمام اراکین نے ۲۶/جنوری ۱۹۵۰ کے اجلاس میں اس کی ہندی اور انگریزی کاپیوں پر دستخط کیے،مولانا حسرت موہانی نے لکھا:’’یہ آئین برطانوی دستور کی نئی توسیع شدہ شکل ہے،اس سے آزاد ہندوستانیوں کا اور آزاد ہندوستان کا مقصد پورا نہیں ہوتا‘‘۔
بالآخر26جنوری 1950کو ہندوستان میں جمہوری قانون کا نفاذ عمل میں آیا،جس میں یہ یقین دہانی کرائی گئی کہ اس ملک میں مذہبی آزادی، تہذیبی و تعلیمی حقوق کی پاسبانی،جائداد کے حقوق اور حصول انصاف کا حق ہر ہندوستانی کو بلا تفریق مذہب وملت برابر حاصل ہوگا۔اقلیتوں کو بالخصوص یہ یقین دہانی کرائی گئی کہ ان کے دین و مذہب اور ان کے تشخص کی ہر قیمت پر حفاظت کی جائے گی۔