ہے مبتلا یہ دل مرا کب سے عزاب میں
جینا محال ہوگیا ہے اضطراب میں
شوقِ جنوں کی راہ بھی کتنی عجیب ہے
چلتا ہی جا رہا ہوں مسلسل سراب میں
پوچھا تھا اک فقیر سے مفہوم عشق کا
خونِ جگر نکال کے رکھّا جواب میں
دیکھا ہے جب سے تیرے رخِ پر جمال کو
امید جاگ اٹھی دلِ خانہ خراب میں
خوشبو کسی گلاب کی تھی پیرہن مرے
کل شب کسی گلاب کو دیکھا جو خواب میں
کس کس گناہ کا میں خدایا حساب دوں
دفتر بڑھا گیا ہوں میں عہدِ شباب میں
ٹوٹا کبھی نہیں یہ اذیت کا سلسلہ
کچھ تو قصور تھا مرے ہی انتخاب میں
محسن کشمیری