تحریر:حافظ میر ابراھیم سلفی
مدرس سلفیہ مسلم انسٹچوٹ پرے پورہ
بارہمولہ کشمیر
6005465614
بنا کے فقیروں کا ہم بھیس غالب
تماشائے اہلِ کرم دیکھتے ہیں
ماہ رمضان المبارک ہجری سال کا نواں مہینہ ہے۔ ماہ رمضان کے فضائل و مناکب پر متعدد آیات و کثیر احادیث صحیحہ موجود ہیں نیز سلف و صالحین کے اقوال بھی مستند کتب میں موجود ہیں۔ ماہ رمضان المبارک کی ابتداء میں ہی جنات کے ابواب کھولے جاتے ہیں اور جہنم کے ابواب بند کردئیے جاتے ہیں نیز ندا دینے والا ندا دیتا ہے کہ اے نیکیوں کے طلبگار! سبقت حاصل کرجا اور اے برائیوں کے متلاشی اب اجتناب کر۔ ماہ صیام مغفرت، برکت، نزول قرآن کا مہینہ ہے۔ یہی ہے وہ مہینہ ہے جس میں ہزار مہینوں کی عبادت کرنے سے زیادہ افضل رات شب قدر وارد ہوتی ہے۔ جہاں ماہ رمضان کے متعدد اور مختلف فضائل بیان ہوۓ ہیں وہیں اس مہینہ کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ یہ مہینہ سخاوت کا مہینہ ہے۔ رمضان المبارک میں آپ صلی الله علیہ وسلم کے معمولات میں یہ ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم تیز وتند ہوا کی طرح سخاوت ، فرمایا کرتے تھے۔ تیز وتند آندھی سے اس لئے تشبیہ دی گئی کیوں کہ اس آندھی کا نفع وفائدہ ہر ایک کو پہنچتا ہے اسی طرح آپ صلی الله علیہ وسلم کی سخاوت اور رحمت کا اثر سب کو پہنچتا ہے، اس حدیث سے امام نووی نے کچھ فوائد ذکر فرمائے ہیں: ہر وقت انسان سخاوت کرے، رمضان میں خیر کی راہوں میں خرچ کرنے میں اضافہ ہونا چاہئے، نیک لوگوں کے ا جتماع پر خرچ کرے، نیکوکاروں کی زیارت کے موقع پر خرچ کرے۔(فتح الباری 1/31)ایک حدیث میں ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے کسی سائل کو کبھی ”لا“ نہیں کہایعنی انکار نہیں فرمایا، اس کے سوال کو ٹالا نہیں، کبھی کسی بھی مانگنے والے کو واپس نہیں لوٹایا۔ (فتح الباری1/31) حافظ ابن حجر عسقلانی (متوفی 852) فرماتے ہیں: ر مضان میں چوں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم قرآن کریم کا زیادہ دور فرماتے تھے، اور قرآن کریم کے ورد سے دل میں استغناء کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اور یہی استغناء کی کیفیت انسان کو سخاوت کی راہ پر ڈالدیتی ہے، نیز رمضان میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو دیگر دنوں کے مقابلہ میں زیادہ نعمتوں سے نوازتے ہیں اسی سنت الہیہ کو اپناتے ہوئے آپ صلی الله علیہ وسلم بھی رمضان میں اپنی امت پر زیادہ خرچ کرتے تھے۔(فتح الباری1/31)اسی کا اثر تھا کہ صحابہ کرام اور بزرگانِ دین بالخصوص رمضان المبارک میں سخاوت میں اضافہ کو ترجیح دیا کرتے تھے، ابن عمر
۔ رمضان میں افطار یتیموں ، مسکینوں کے ساتھ فرماتے تھے،بیت المال ان کے لئے کثیر مقدار میں نفقہ جاری کرتا تھا پھر بھی کچھ جمع کرکے نہ رکھتے تھے، ایوب بن وائل کہتے ہیں: ایک دن ابن عمرکے پاس چار ہزار درہم اور ایک چادر آئی، دوسرے دن ایوب نے ابن عمر کو دیکھا کہ وہ بازار میں جانور کے لئے ادھار گھاس خرید رہے ہیں، جب ایوب بن وائل نے تحقیق کی تو پتہ چلا کہ ابن عمر نے وہ رقم ایک فقیر کو ہدیہ دے دی۔ (المعجم الوسیطامام شافعی فرماتے ہیں: میں لوگوں کے لئے رمضان میں سخاوت کو زیادہ پسند کرتا ہوں، اس میں لوگوں کا فائدہ زیادہ ہے کیوں کہ لوگ عبادتوں میں روزوں میں مشغول ہوتے ہیں(طبقات الشافعیہ) حماد بن ابی سلیمان رمضان کے مہینے میں پانچ سو افراد کو افطار کرواتے، انہیں عید میں ہر ایک کو سو درہم عطا کرتے، محمد بن احمد اصحاب علم وفضل میں ان کا شمار ہے، اہل علم فقراء پر ان کا احسان مشہور تھا، یہ رمضان میں فقراء کے لئے افطار کا سامان مہیا فرماتے۔(طبقات الشافعیہ1/182)امام زہری فرماتے ہیں کہ رمضان کا مہینہ تو تلاوت قرآن اور لوگوں کو کھانا کھلانے کا ہے۔مذکورہ اخبار سلف صالحین کے فہم کی عمدہ عکاسی کر رہے ہیں۔
جب چلی ٹھنڈی ہوا بچہ ٹھٹھر کر رہ گیا
ماں نے اپنے لعل کی تختی جلا دی رات کو
اغلب یہی ہے کہ سحری اور افطاری کی تیاری میں ہی ہمارے ایام گزر جاتے ہیں۔ یہ بھی ہوتا یے کہ دن کے وقت نیند کرکے ایک ایک سکینڈ گزارا جاتا ہے، بعض تو زیادہ کھانے کی وجہ سے قیام اللیل بھی نہیں کرپاتے اور اس طرح اجر عظیم سے محروم رہ جاتے ہیں۔ بعض اشخاص ایسے بھی ہیں جو سحری میں حد سے تجاوز کرکے اتنا کھاتے ہیں کہ فجر کی نماز بھی نہیں باجماعت ادا کرپاتے یقیننا یہ بڑا ہی خسارہ ہے۔ جو شخص فرائض کا اہتمام نہیں کرتا اسکے روزے قبولیت کے لحاظ سے مشکوک ہی ہیں۔ اس سب میں مشغول ہوکر ہم یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ یہ مہینہ اس احساس کو زندہ کرنے کے لئے طلوع ہوا تھا کہ امیر لوگ فقراء، مساکین کی بھوک پیاس محسوس کرسکے۔شب و روز اعلی نعمتیں تناول کرنے والے جان لیں کہ مجبوری کی پیاس، غریبی کی پیاس، مظلوم کی پیاس، یتیم کی بھوک، مفلس کی بے بسی کیا ہوتی ہے لیکن کسی حد تک ہم ابھی مقصد صوم کے حصول سے کافی دور ہیں۔ بعض بدقسمت تو اول روز سے ہی اس تڑپ میں ہوتے ہیں کہ کب ماہ رمضان اختتام کو پہنچے تاکہ وہ علانیہ سابقہ منکرات دہراۓ۔ درحقیقت ماہ رمضان کی معرفت سے ہم جان بوجھ کر غفلت کررہے ہیں۔ سیدت عمر کی سخاوت ملاحظہ کیجئےکہ ہر رات ایک نابینا بوڑھی عورت کے گھر کی صفائی ستھرائی کرتے۔سخی حضرات نہ بخل کو جانتے ہیں نہ ہی کنجوسی کو، جب کسی کو آپ کچھ دو گے تو اس سے کئی گنا زیادہ آپ کو نفع ملے گا۔ آپ کی سخاوت سے اس یتیم بچے کے چہرے پر خوشی دیکھنے کو ملے گی جس کو دالدکی شفقت نہیں ملی، جس کا دل دکھوں سے چور ہو چکا ہے، اس بیوہ کو امید کی کرن نظر آئے گی جس کے سر کا تاج اتر گیا ہے۔ اسی سخاوت سے آپ دنیا کے کسی بھی کونے میں مسلمانوں کے دلوں میں اپنی جگہ بنا سکتے ہو۔ کس طرح ایک مسلم دوسرے کو بھوکا پیاسا دیکھ کر عمدہ اور لذیذ کھانوں سے افطار و سحری کرے گا۔دوسروں کے چہرے پر خوشی کے اثرات لانے میں اگر آپ کامیاب ہوگئے تو جان لیں، آپ کائنات کے سب سے امیر شخص ہیں۔ سخاوت کا دروازہ ہر طبقہ کے لوگوں کیلئے ہر وقت کھلا ہے، سب سے آسان ترین سخاوت؛ ایک مسکراہٹ ہے، یا کسی کی خیریت دریافت کرنے کیلئے ملاقات کرنا بھی ہے۔ اچھی بات کہنا، دعا دینا، کسی کی تھوڑی بہت مدد کرنا، دوا خرید کر دینا۔ یہ سب کچھ سخاوت ہی ہے۔تو ہم اس دروازے میں داخل کیوں نہیں ہوتے؟ ہم سخاوت کے طریقے کیوں نہیں سیکھتے؟ ہم اس چشمے سے اپنے معاشرے، قوم اور ملک کی آبیاری کیوں نہیں کرتے؟
زندگی کا مزا تو یہاں آتا ہے، تعلقاتِ عامہ کا یہاں پتہ چلتا ہے، احساسات کو یہاں روحانی غذا ملتی ہے۔ جب دوسروں کو دیتے ہوئے خود تو تھک جائے لیکن ان کو سیر کردے۔ صرف اس لیےکہ اس سخاوت کا بدلہ قیامت کے دن پا لے۔۔ ۔
کہاں کہ مکتب وملا ، کہا ں کے درس و نصاب
بس اک کتاب ِمحبت رہی ہے بستے میں
اولاد پر لازم ہے کہ والدین کی سحری و افطاری کا خیال رکھیں۔ والدین کو نظر انداز کرنا معاشرے کی ایک بدترین بیماری ہے۔ والدین کی ناراضگی دور کرکے ان پر حسب استطاعت خرچ کریں جس طرح بچپن میں انہوں نے آپکی سحری و افطاری کا انتظام کیا تھا۔کاش یہ درد ہم سمجھ سکیں۔ یہاں سے ہی آپکو سخاوت کہ افتتاح کرنی ہے۔ سخاوت کے اثرات سخی اور معاشرے دونوں پر ظاہر ہوتے ہیں، دینے سے انفرادی اور اجتماعی صلاحیتیں ابھر کر سامنے آتی ہیں، ترقی کے مزید اُفق روشن ہوتے ہیں۔ معاشرے میں انفرادی اور اجتماعی اعتماد کی فضا بحال ہوتی ہے، سخی سے پورا معاشرہ محبت کرتا ہے، قوم اس کا احترام کرتی ہے، تمام لوگ اس سے خوش ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ بھی اس سے راضی ہو جاتا ہے۔ سخی کا دروازہ ہر وقت کھلا رہتا ہے، اس کی عنایت مسلسل ہوتی ہے اور جس سے بہت سے لوگوں کو فائدہ پہنچتا ہے۔جب اللہ کے لیے دینے کی عادت پڑ جائے تو جلد ہی اس کی لذت محسوس کرنے لگو گے، کیونکہ دینے کی لذت لینے کے مزے سے بہت زیادہ ہوتی ہے، نیک کاموں میں مشغول رہنا اور دوسروں کی مدد کرنا انسان کو بہت سی سخت تکالیف سے بچا دیتا ہے۔حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دو خصلتیں مومن میں جمع نہیں ہوں گی۔ کنجوسی اور بد اخلاقی۔ اس حدیث پاک کا مطلب یہ ہے کہ مومن میں کنجوسی اور بداخلاقی یہ دونوں بری خصلتیں (عادتیں ) بیک وقت جمع نہیں ہوں گی۔ مومن اگر کنجوس ہوگا تو بداخلاق نہیں ہوگا اور اگر بداخلاق ہوگا تو کنجوس نہیں ہوگا اور جس مسلمان کو دیکھو کہ کنجوس بھی ہے اور بد اخلاق بھی ہے تو اس حدیث کی روشنی میں یہ سمجھ لو کہ اس شخص کے ایمان میں کچھ نہ کچھ فتور (کمی) ضرور ہے.
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو
کتاب خواں ہے، مگر صاحب کتاب نہیں
وقت کا تقاضا ہے کہ ماہ رمضان کے اس فلسفہ کو بھی اجاگر کیا جائے۔ گزشتہ تین سالوں سے ہم قید خانے کی زندگی بسر کر رہے ہیں، سیاسی بحران کے ساتھ ساتھ وبائی بیماری نے بھی غریبوں اور مسکینوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔کچھ ماہ کے کام کاج کے بعد اب پھر سے وبائی قہر نے اپنا نیا چہرہ دنیا کو دکھا دیا تو اہل دولت کو چاہیے کہ جس گھر میں دیا نہ جل رہا ہو وہاں روشنی پھیلائیں۔ جہاں مزدور باپ اپنی آنکھوں سے بچوں کی تڑپ دیکھ رہا ہو وہاں پوشیدہ طریقہ سے جاکر ان کا سہارا بنیں۔وادی کشمیر کا بڑا حصہ مختلف کاروباری شعبوں سے وابستہ ہے جو کہ سابقہ دو سالوں سے بند پڑا ہے۔ شہر و دیہات میں اس وقت لوگ مفلسی کی وجہ سے غلط راہیں اختیار کر رہے ہیں۔یہ مسئلہ فقط سحری اور افطاری کا نہیں بلکہ بچوں کی بھوک پیاس کبھی ماں باپ کو عزت بیچنے پر بھی آمادہ کردیتی ہے۔نبوی ﷺ کردار دکھا کر اس ظلمت کو روشنی سے منور کر دیں۔فرمان باری تعالیٰ ہے کہ، ” اے ايمان والو! جو كچھ ہم نے تمہيں ديا ہے اسميں سے وہ دن آنے سے قبل اللہ كے راستے ميں خرچ كرلو جس دن نہ كوئى تجارت ہو گى، اور نہ ہى دوستى كام آئے گى، اور نہ سفارش، اور كافر ہى ظالم ہيں”.البقرۃ ( 254 ).فرمان ربانی ہے کہ، "جو لوگ اللہ تعالى كے راستے ميں خرچ كرتے ہيں ان كى مثال اس دانے كى ہے جس نے سات بالياں اگائيں، اور ہر سٹے اور بالى ميں سو دانے ہيں، اور اللہ تعالى جسے چاہتا ہے اس سے بھى زيادہ ديتا ہے، اور اللہ تعالى وسعت والا اور جاننے والا ہے، جو لوگ اللہ تعالى كے راستے ميں خرچ كرتے ہيں اور پھر جو كچھ انہوں نے خرچ كيا ہے اس ميں احسان نہيں جتلاتے اور نہ تكليف ديتے ہيں، ان كا اجر ان كے رب كے پاس ہے، نہ تو انہيں كوئى خوف ہو گا اور نہ ہى وہ غمگين ہونگے ".البقرۃ ( 261 – 262) فرمان مصطفی ﷺ ہے کہ، "جس نے پاكيزہ كمائى سے ايك كھجور كے برابر صدقہ كيا ـ اللہ تعالى پاكيزہ كے علاوہ كچھ قبول نہيں كرتا ـ اللہ تعالى اسے اپنے دائيں ہاتھ سے قبول فرماتا ہے، پھر اسے خرچ كرنے والے كے ليے اس كى ايسے پرورش كرتا ہے جس طرح تم ميں كوئى اپنے گھوڑے كے بچھيرے كى پرورش كرتا ہے، حتى كہ وہ پہاڑ كى مانند ہو جاتا ہے”(صحیح بخاری) نیز فرمایا، "ہر دن ميں صبح كے وقت دو فرشتے نازل ہوتے ہيں، ان ميں سے ايك كہتا ہے: اے اللہ خرچ كرنے والے كو نعم البدل دے، اور دوسرا كہتا ہے: اے اللہ روك كر ركھنے والے كا مال تلف كردے”.(صحیح مسلم) ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ عيد الفطر يا عيد الاضحى كے دن نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم عيدگاہ كى طرف نكلے اور پھر وہاں لوگوں كو وعظ و نصيحت فرمائى اور انہيں صدقہ و خيرات كرنے كا حكم ديتے ہوئے فرمايا،
” لوگو! صدقہ كيا كرو،
اور عورتوں كے پاس سے گزرے تو فرمايا،
اے عورتوں كى جماعت! صدقہ كيا كرو، كيونكہ ميں نے ديكھا ہے كہ تمہارى تعداد آگ ميں سب سے زيادہ ہے…
اور جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنے گھر تشريف لے گئے تو ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما كى بيوى زينب رضى اللہ تعالى عنہا اندر آنے كى اجازت مانگنے لگى: تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عرض كي گيا يہ زينب رضى اللہ تعالى عنہا آئى ہے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ نے دريافت كيا كونسى زينب؟
تو كہا گيا كہ ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما كى بيوى، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا ہاں اسے اجازت دے دو، تو اسے اندر آنے كى اجازت دے دى گئى.
وہ كہنے لگى: اے اللہ تعالى كے نبى صلى اللہ عليہ وسلم آپ نے آج صدقہ و خيرات كرنے كا حكم ديا ہے، اور ميرے پاس ميرا زيور ہے ميں اسے صدقہ كرنا چاہتى ہوں، تو ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما كا خيال ہے كہ وہ اور اس كى اولاد اس صدقہ كى زيادہ مستحق ہے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا،
” ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما نے سچ كہا ہے، تيرا خاوند اور تيرى اولاد كسى دوسرے پر صدقہ كرنے سے زيادہ حقدار ہے”.(صحيح بخارى حديث نمبر ( 1393 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 80 )
Love is not patronizing and charity isn’t about pity, it is about love. Charity and love are the same — with charity you give love, so don’t just give money but reach out your hand instead.
اللہ سے دعا ہے کہ صدقہ و سخاوت کا جذبہ ہمیں عطا کرے اور ہمارے صیام و قیام کو شرف قبولیت عطا کرے۔۔۔۔ آمین یا رب العالمین۔
حُسن کامِل ہے تِرا، اور بھی کامِل ہو جائے
میری گُستاخ نِگاہی بھی جو شامل ہو جائے