کالم: فہم وادراک
عمران بن رشید
سیر جاگیر سوپور‘کشمیر
8825090545
پیغمبرِ اسلام حضرت محمدﷺ کی ایک مشہور حدیث ہے ”بُنِیَ الْاِسْلَامُ عَلیٰ خمسٍ“یعنی دینِ اسلام کی بنیاد پانچ چیزو ں پر قائم ہے۔ان میں سے ایک رمضان کا روزہ (صوم رمضان)بھی ہے۔گویا کہ ایک مسلمان کا دین تکمیل کو پہنچ ہی نہیں سکتا جب تک کہ وہ روزہ کی فرضیت کا قائل ہونے کے ساتھ ساتھ اس کا اہتمام بھی نہ کرتاہو۔”الصّوم“کے لغوی معنی ہے کام سے رکنا۔لیکن شریعت کی اصطلاح میں اس لفظ کا اطلاق طلوعِ فجرسے لے کر غروبِ آفتاب تک دن بھر کھانے پینے سے رکنا اور فحش گوئی‘جھوٹ‘مباشرت وغیرہ سے دور رہنے پر ہوتا ہے۔شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے حجۃ اللّٰہ البالغہ میں بہت ہی عمدہ بات کہی ہے کہ انسان کی طبیعت باغی ہوتی ہے اور انسان کو بغاوت پر اکساتی ہے‘اس باغی طبیعت پر لگام کسنے کے لئے روزہ ایک بہترین بلکہ کارآمد ہتھیار ہے۱؎۔چنانچہ رسول اللہ ؐ کا ارشاد ہے کہ تم میں سے جو کوئی نکاح کرنا چاہتا ہے لیکن استطاعت نہیں رکھتا اُسے چاہیے کہ وہ روزہ رکھے تاکہ گناہ کی طرف سے اُس کا دھیان ہٹ جائے۲؎۔
روزہ کی فرضیت نصِ قرآنی سے ثابت ہے۔اور ہربالغ‘عاقل‘صحت مند اور مقیم پر پورے خلوص اور یقین کے ساتھ اس کا اہتمام کرنا فرضِ عین ہے۔اللہ تعلی کا ارشاد ہے(یٰاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَاکُتِبَ عَلَی اَلَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ)”اے لوگو!جو ایمان لائے ہو‘تم پر روزہ رکھنا لکھ دیا(فرض کردیا)گیاہے۔جیسے اُن لوگوں پر لکھا گیا تھا جو تم سے پہلے تھے تاکہ تم بچ جاؤ“۔سورہ بقرہ کی یہ آیت قرآن کی مشہور ترین آیات میں سے ہے۔ اس میں صیغہ خطاب ایمان والوں کی طرف ہے‘اس ضمن میں مجھے حسن بصریؒ کا قول یاد آرہاہے۔وہ فرماتے ہیں کہ جب قرآن میں ایمان والوں سے خطاب کیا جائے تو اسے غور سے سنا کرو کیونکہ اس خطاب میں ایمان والوں کو کسی چیز سے روکا جاتاہے یا کسی چیز کا حکم دیاجاتا ہے۳؎۔ مذکورہ آیت میں چونکہ روزوں کا حکم دیا گیا ہے‘لیکن ساتھ ہی اس میں روزوں کا مقصد بھی بتادیاگیا۔اور یہی اس آیت کا اہم ترین پہلو ہے کیونکہ حصولِ مقصد کے بغیرانسان کا ہر عمل ضائع ہے۔ اللہ تعلی فرماتا ہے کہ جو لوگ تم سے پہلے تھے اُن پر بھی روزہ رکھنا فرض کیاگیاتھا اور تم پر بھی فرض کیاگیاہے تاکہ تم لوگ متّقی بنو۔گویا کہ روزہ ہر امت کے لئے حصولِ تقویٰ کاذریعہ رہاہے۔
تقویٰ کیا ہے
تقویٰ کے لغوی معنی بچنے کے ہیں۔ جیسا کہ سورۃالبقرہ کی دوسری آیت میں یہ لفظ اسی مفہوم میں آیا ہے۔”فِیْہِ ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ“ بچنے والوں کے لئے ہدایت ہے۔اسی طرح ایک دوسرے مقام پر ارشاد ہوا ہے(فَاِ نْ لَّمْ تَفْعَلُواوَ لَنْ تَفْعَلُوْا فَاتَّقُوْ ا النَّارَ الَّتِیْ وَقُوْ دُھَا النَّاسَ وَالْحِجَارَۃُ)”پھراگرتم نے ایسا نہ کیا اور نہ کبھی کروگے تو اُس آگ سے بچو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں“ ]البقرہ۔24[۔چنانچہ ”تقویٰ“کا لفظ ڈرنے کے معنی میں بھی آتا ہے۔ اللہ تعلی کا ارشاد ہے(یَااَیُّھَاالَّذِیْنِ اٰمَنُوْا التَّقُوااللّٰہَ وَذَرُوْا مَابَقِیَ مِنَ الرِّبٰو ا اِنْ کُنْتُم مُّوْمِنِیْنَ)”اے لوگو! جو ایمان لائے ہو‘اللہ سے ڈرو اور سود میں سے جو باقی رہ گیاہے اُسے چھوڑدو اگر تم مومن ہو“]البقرہ۔278[۔ابو نعمان سیف اللہ خالد اس لفظ پر بحث کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:۔”اللہ تعلی سے ڈرنے والا یعنی متقی وہ شخص ہے جو نہ صرف حرام چیزوں کو چھوڑدے‘بلکہ اُن چیزوں کو بھی چھوڑدے جن کا حرام ہونا یقینی نہیں‘بلکہ مشکوک ہو۔ جب تک کوئی شخص شک و شبہ والی چیزوں کو نہیں چھوڑتا‘ متقی نہیں کہلا سکتااور نہ وہ اپنا دین محفوظ رکھ کر نجات حاصل کرسکتا ہے۔“]تفسیردعوت القرآن[۔
مختصر یہ کہ اللہ کے خوف کے ساتھ اپنے نفس کو ہر طرح کی برائی اورگمراہی سے بچانا تقویٰ ہے۔ اور رمضان کا پورا مہینہ حصولِ تقویٰ کا مہینہ ہے۔جس میں انسان پر رشدوہدایت کی مختلف راہیں کھلتی ہیں۔
روزہ اور احکامِ الٰہی
روزہ سے متعلق احکامِ الٰہی کے ضمن میں سورہ البقرہ کا تئیسواں رکوع(23)کافی اہم ہے۔بلکہ پورے قرآنِ مجید میں یہ ایک ہی رکوع ہے جس میں روزہ کے احکام جامعیّت کے ساتھ بیان ہوئے ہیں۔اِس رکوع میں کُل چھے آیاتِ مبارکہ ہیں‘آیت نمبر 183سے لے کر آیت نمبر 188تک۔شروع میں جو آیت آئی تھی وہ بھی اصل میں اسی رکوع میں شامل ہے۔”اے لوگوجو ایمان لائے ہو!تم پر روزہ رکھنا لکھ دیا گیا ہے‘جیسے اُں لوگوں پر لکھا گیا جو تم سے پہلے تھے۔تاکہ تم بچ جاؤ۔گنے ہوئے چند دنوں میں۔پھر تم میں سے جو بیمار ہو‘یا کسی سفر پر ہوتو دوسرے دنوں سے گنتی پوری کرنا ہے۔اور جو لوگ اس کی طاقت رکھتے ہوں اِن پر فدیہ ایک مسکین کا کھاناہے۔پھر جو شخص خوشی سے کوئی نیکی کرے تو اُس کے لئے بہترہے۔اور یہ کہ تم روزہ رکھو تمہارے لئے بہتر ہے‘اگر تم جانتے ہو۔رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن اُتارا گیا جو لوگوں کے لئے سراسر ہدایت ہے‘اورہدایت کی اور (حق وباطل میں) فرق کرنے کی واضح دلیلیں ہیں۔تو تم میں سے جو اس مہینے میں حاضر ہووہ اس کا روزہ رکھے‘جو بیمار ہو یا کسی سفر پر ہوتو دوسرے دنوں سے گنتی پوری کرنا ہے۔اللہ تمہارے ساتھ آسانی کاارادہ رکھتا ہے اور تمہارے ساتھ تنگی کا ارادہ نہیں رکھتا۔اور تاکہ تم گنتی پوری کرواور تاکہ تم اللہ کی بڑائی بیان کرو‘اس پر جو اُس نے تمہیں ہدایت دی اور تاکہ تم شکر کرو۔اور جب میرے بندے تجھ سے میرے بارے میں سوال کریں‘تو بے شک میں قریب ہوں‘میں پکارنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ مجھے پکارتاہے۔تولازم ہے کہ وہ میری بات مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ ہدایت پائیں۔تمہارے لئے روزوں کی رات اپنی عورتوں سے صحبت کرناحلال کردیا گیا ہے‘وہ تمہارے لئے لباس ہیں اور تم اُن کے لئے لباس ہو۔اللہ نے جان لیا کہ بے شک تم اپنی جانوں کی خیانت کرتے تھے تو اس نے تم پر مہربانی فرمائی اور تمہیں معاف کردیا‘تواب اُن سے مباشرت کرواور طلب کرو جو اللہ نے تمہارے لئے لکھاہے۔اور کھاؤاور پیو یہاں تک کہ تمہارے لئے سیاہ دھاگے سے سفیددھاگافجرکاخوب ظاہر ہوجائے۔پھر روزے کو رات تک پورا کرواور اُن سے مباشرت مت کروجب کہ تم مسجدوں میں معتکف ہو۔یہ اللہ کی حدیں ہیں‘سو اِن کے قریب نہ جاؤ۔اسی طرح اللہ اپنی آیات لوگوں کے لئے کھول کر بیان کرتاہے‘تاکہ وہ بچ جائیں۔اور اپنے مال آپس میں باطل طریقے سے مت کھاؤ اور نہ انہیں حاکموں کی طرف لے جاؤتاکہ لوگوں کے مالوں میں سے ایک حصہ گناہ کے ساتھ کھاجاؤ۔“]آیات183۔188/ترجمہ عبدالسّلام بن محمد[۔اِن آیاتِ مبارکہ میں روزہ کے مختلف احکام و مسائل کابیان ہوا ہے۔آگے بڑھنے سے پہلے اس بات کی طرف اشارہ کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ رمضان کے روزے فرض ہونے سے قبل یومِ عوشوراء کا روزہ رکھا جاتا تھا۔پھر جب ان آیات کا نزول ہواتو یومِ عوشوراء کا روزہ منسوخ ہوگیا۔عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ ایام ِجاہلیت میں ہم عوشوراء کا روزہ رکھتے لیکن جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو رسول اللہؐ نے فرمایا کہ جس کا جی چاہے عوشوراء کا روزے رکھے اور جس کا جی چاہے وہ نہ رکھے]البخاری/4501[۔عوشوراء کا روزہ پہلے واجب تھا لیکن رمضان کے روزے فرض ہوئے تو عوشوراء کا روزہ منسوخ ہوگیا لیکن‘اس کی فضیلت اور استحباب (مستحب ہونا)اب بھی باقی ہے۴؎۔
گنتی کے چند دن
اللہ تعلی نے فرمایا”گنے ہوئے چند دنوں میں۔پھر تم میں سے جو بیمار ہو‘یا کسی سفر پر ہوتو دوسرے دنوں سے گنتی پوری کرنا ہے۔اور جو لوگ اس کی طاقت رکھتے ہوں اِن پر فدیہ ایک مسکین کا کھاناہے۔پھر جو شخص خوشی سے کوئی نیکی کرے تو اُس کے لئے بہترہے۔اور یہ کہ تم روزہ رکھو تمہارے لئے بہتر ہے‘اگر تم جانتے ہو“۔روزہ گنے ہوئے چند دن ہیں (اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ)۔اس آیت سے متعلق کچھ مفسرین کہتے ہیں کہ اس میں رمضان کے روزوں کا نہیں بلکہ ”ایامِ بِیض“کے روزوں کا ذکر ہے۔ایام بیض سے مراد قمری مہینوں کی تیرھویں‘چودھویں اور پندرھویں تاریخیں ہے‘رسول اللہ ؐ ان ایام میں روزہ رکھتے تھے۔امام فخرالدین رازیؒنے تفسیرِ کبیر میں یہی موقف اختیار کیاہے۔جمہور علماء کے نزدیک البتہ ”اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ“ میں رمضان کے روزوں کا ہی بیان ہے۔بہرحال اللہ تعلی مزید فرماتے ہے(فَمَنْ کَانَ مِنْ کُم مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ)”پھر تم میں سے جو بیمار ہو‘یا کسی سفر پر ہوتو دوسرے دنوں سے گنتی پوری کرنا ہے“۔یعنی رمضان میں اگر کوئی شخص بیمار ہو یا کسی ضروری سفر پر ہو تواللہ تعلی نے اُسے چھوٹ دے دی ہے کہ وہ روزہ نہ رکھے‘پھر جب وہ صحت یاب ہوجائے یاسفر سے لوٹ کر آئے تو اس پر لازم ہے کہ وہ رمضان کے بعد اُن چھوٹے ہوئے دنوں کی گنتی پوری کرے۔ مزید برآں اس آیت میں آگے جو حکم دیاگیا ہے اُس سے متعلق یاد رکھئے کہ یہ حکم ابتدائے اسلام میں تھا جو بعد میں منسوخ ہوگیا۔اللہ تعلی فرماتا ہے (وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ فِدْ یَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ)”اور جو لوگ اس کی طاقت رکھتے ہوں اِن پر فدیہ ایک مسکین کا کھاناہے۔“جولوگ روزہ رکھنے کی طاقت رکھتے ہیں اُن کو ابتداء اسلام میں اختیار تھا‘وہ چاہتے تو روزہ رکھتے اور نہ چاہتے تو نہ رکھتے ۵؎۔لیکن اس کی جگہ انہیں ہرروزہ کے بدلے ایک مسکین کوکھانا کھلانا پڑتا تھا۔ یہ حکم بعد میں منسوخ ہوگیا۔حضرت عبداللہ ابنِ عمرؓکہتے ہیں ”ھِیَ مَنْسُوْخۃٌ“یہ آیت منسوخ ہے ]بخاری/4506[۔اسی طرح سلمہ بن اکوعؓ بھی اس آیت کو منسوخ قرار دیتے ہیں ]ایضًا/4507[۔ حضر ت عبد اللہ ابنِ عباسؓکی ایک روایت سے البتہ کئی لوگوں کو شبہ گزراہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں ہے‘حضرت عبداللہ ابنِ عباسؓ کہتے ہیں (لَیْسَتْ بِمَنْسُوخَۃٍ ھُوَالشّیْخُ الْکَبِیْرُ وَالْمَرْءَ ۃُ الْکَبِیْرُ)“یعنی یہ آیت منسوخ نہیں ہے اس سے مراد بہت بوڑھاآدمی اور بہت بوڑھی عورت ہے]بخاری/4505[۔ لیکن میرے نزد یک ا بنِ عباسؓ کا یہ قول اس اعتبار سے درست ہے کہ انہوں نے اسے بوڑھے آدمی اور بوڑھی عورت کے لئے مختص کردیا ہے جبکہ عموم کے اعتبار سے اُن کے نزدیک بھی یہ حکم منسوخ ہی ہے(واللّٰہ اعلم)۔ چنانچہ حضرت انس بن مالک ؓ جب بوڑھاپے کو پہنچے تو ضعف کی وجہ سے اُن میں روزہ رکھنے کی سکت نہ رہی تووہؓ ہرروزے کے بدلے ایک مسکین کوکھانا کھلاتے تھے یااسی طرح ابنِ ابی لیلیٰؒ فرماتے ہیں کہ میں رمضان میں عطاؒکے یہاں گیاتودیکھاکہ عطاؒ کھانا کھارہے ہیں اور مجھے دیکھ کر فرمانے لگے کہ ابنِ عباس ؓ کاقول ہے کہ اس آیت(وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ فِدْ یَۃٌ طَعَامُ مِسْکینِ) میں بہت زیادہ عمر رسیدہ اور بے طاقت اشخاص لے لئے حکم ہے۶؎۔چنانچہ امام بخاریؒ اور امام شافعیؒکاموقف بھی یہی ہے کہ اس آیت میں عمررسیدہ اور ضعیف لوگوں کے لئے روزہ کے بدلے کفارہ دینے کا حکم موجود ہے۔ کفارہ دینے میں البتہ کئی حضرات نے اختلاف بھی ظاہر کیا ہے۔تفسیر ابن کثیر میں درج ہے ”جو شخص مقیم ہواور تندرست ہو اُس کے لئے یہ حکم نہیں بلکہ اُسے روزہ ہی رکھنا ہوگا‘ہاں ایسے بوڑھے‘بڑے معمر اور کمزور آدمی جنہیں روزے کی طاقت ہی نہ ہو روزہ نہ رکھیں اور نہ اِن پر قضا ضروری ہے۔لیکن اگر وہ مال دور ہوں تو آیا انہیں کفارہ بھی دیناپڑے گایانہیں اس میں اختلاف ہے“]تفسیر ابن کثیر/البقرہ آیت 184[۔یہاں اما م شافعیؒ کے موقف جس کا ذکر قبل ازیں گزرچکاکے متعلق عرض کردوں کہ اس ضمن میں اُن کے اصل میں دو مختلف قول ہیں ایک یہ کہ وہ کہتے ہیں ایسے شخص پر کفارہ نہیں ہو گا کیونکہ وہ بچے کی طرح روزہ رکھنے کا مکلف ہی نہیں لہذا اُس پر قضا اور کفارہ دونوں ساقط ہونگے اللہ تعلی اپنے بندوں کو طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔اور دوسرا قول اس ضمن میں اُن کا وہی ہے جس کا ذکر اوپر ہوچکا ہے کہ ایسے شخص کے ذمے کفارہ ہوگا اور اکثر علماء کا یہی موقف ہے۷؎۔مختصر یہ کہ یہ آیت منسوخ ہوچکی ہے البتہ اس میں جو فقہی مسلہ بیان ہوا ہے وہ علماء کی اکثریت کے نزدیک اب بھی باقی ہے۔یعنی ایسا بوڑھا شخص جو روزہ رکھنے کی طاقت سے محروم ہو وہ روزہ چھوڑ سکتا ہے اور کفارہ ادا کرے گا۔ یہ حکم پہلے عموم کے لئے تھااور بعد میں منسوخ ہوگیا۔۔چنانچہ مولاناداؤدرازؒ رقمطراز ہیں ”اکثرعلماء کہتے ہیں کہ یہ آیت منسوخ ہے اور ابتدائے اسلام میں یہی (عموم) حکم ہواتھا کہ جس کا جی چاہے روزہ رکھ جس کا جی چاہے فدیہ دے۔پھربعد میں آیت”فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ“نازل ہوئی اور اس سے وہ پہلی آیت منسوخ ہو گئی۔“]شرح بخاری جلد/6/88[۔چنانچہ آیت کے اگلے کلمات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم منسوخ ہوچکا ہے۔اللہ تعلی فرماتاہے(فَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَھُوَ خَیْرٌ لَّہٗ۔وَاَنْ تَصُوْ مُوْ ا خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْن)یعنی پھر جو شخص خوشی سے کوئی نیکی کرے تو اُس کے لئے بہترہے۔اور یہ کہ تم روزہ رکھو تمہارے لئے بہتر ہے‘اگر تم جانتے ہو۔ گویا کہ ابتدائے اسلام میں روزہ ایک اختیاری عمل تھاجس کا جی چاہتا روزہ رکھتااور جس کا جی چاہتا وہ کفارہ دے تا۔لیکن اب کوئی اختیارنہیں‘اب تو بس روزہ رکھنا ہے۔
نزولِ قرآن کے لئے ماہِ رمضان کا انتخاب
ماہِ رمضان کو ایک فضیلت یہ بھی حاصل ہے کہ اس مہینے میں قرآن کا نزول ہوا ہے۔اللہ تعلی کا ارشاد ہے (شَھْرُرَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰں ُ ھُدًی لِّلْنَاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَالْفُرْقَانِ)”رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن اُتارا گیا جو لوگوں کے لئے سراسر ہدایت ہے‘اورجس میں ہدایت کی اور (حق وباطل میں) فرق کرنے کی واضح دلیلیں ہیں۔ ایک اور جگہ پر یوں ارشاد ہوا ہے”اِنِّااَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ“”بے شک ہم نے اس(قرآن)کو قدر والی رات میں اُتارا“۔ اِن آیات کے معنی اور مفہوم میں اکثر علماء نے سکوت اختیار کیاہے۔امام ابنِ کثیر ؒنے البتہ ابنِ عباس ؓ کے حوالے سے رقم کیا ہے کہ رمضان کے مہینے میں قرآن آسمان سے بیت العزت کی طرف نازل ہوا اور پھر وہاں سے حسبِ ضرورت تھوڑاتھوڑا کرکے نازل ہوتا رہا(واللّٰہ اعلم)۔
ایک چیز تو البتہ واضح ہے کہ ماہِ رمضان کی قرآن کے ساتھ ایک خاص نسبت ہے۔اس حوالے سے ابو نعمان سیف اللہ خالد حفظہ اللہ نے لکھاہے:۔ ”معلوم ہوا کہ ماہِ رمضان کو قرآنِ مجید کے ساتھ خاص تعلق ہے۔اس میں کثرت کے ساتھ قرآن کی تلاوت اور قیام ہونا چاہئے۔رسول اللہ ؐ رمضان میں ہر رات جبریل ؑ کے ساتھ قرآنِ مجید کا دورہ کیا کرتے تھے۔صحابہ کرام ؓ اورصلفِ صالحین کے عمل سے بھی رمضان میں قرآن سے خصوصی شغف ثابت ہے۔“]تفسیر دعوت القرآن جلد اول/243[۔علاوہ ازیں اس آیت میں قرآن کو ”ھُدًی لِّلْنَاسِ“کہا گیا ہے۔یعنی قرآن لوگوں کے لئے ہدایت ہے۔ایک اورمقام پر اسے ”ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ“بھی کہا گیا ہے۔یعنی قرآن متّقین کے واسطے ہدایت ہے۔اس فرق کو ذرا اچھے طریقے سے سمجھئے۔لفظ”ھدایت“کے اصل میں دومعنی ہیں‘اس کا ایک معنٰی ہے راستہ دکھانااور ایک معنیٰی ہے منزلِ مقصود کو پہنچانا۔اول الذکرمعنٰی میں قرآن تمام بنی نوح انسان کے لئے سرچشمۂ ہدایت ہے یعنی یہ ہر اس شخص کو صراطِ مستقیم کا فہم عطا کرتا ہے جو اس کی آیات پر کما حقہ غور وفکر کرتاہو۔دوسرے مفہوم میں قرآن صرف اُن لوگوں کے لئے ہدایت ہے جنہوں نے تقویٰ کی رَوش اختیار کی۔اور وہی لوگ ہیں جنہیں قرآن منزلِ مقصود تک پہنچا دیتا ہے۔اُنہیں صراطِ مستقیم کا فہم بھی عطا ہوتا ہے اور وہ ہمہ تن اس پر گامزن بھی ہوتے ہیں۔اُن کے ضمیر پر گویا قرآن کا نزول ہوجاتاہے‘اور اُن کے ظاہر وباطن پر ”صِبْغَۃ َاللّٰہ“۸؎کے مصداق اللہ کا رنگ غالب آتا ہے۔اور اُن کا مزاج اور اُن کی طبیعت کچھ ایسی بن جاتی ہے کہ وہ قرآن کو اپنی زندگی کا حَکم بناتے ہیں۔
روزہ چونکہ حصولِ تقویٰ کا بہترین ذریعہ ہے اور تقویٰ سے انسان پر ہدایت کی راہیں کھلتی ہیں‘لہذاجتناہوسکے رمضان میں قرآن سے شغف پیدا کریں تاکہ قرآن ”ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ“ کے مصداق آپ کو منزلِ مقصود کے قریب کردے۔آپ کو وہ نظر اور فہم میسر آئے کہ حق اور باطل کی تمیز کرسکو”وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَالْفُرْقَان“اورجس میں ہدایت کی اور (حق وباطل میں) فرق کرنے کی واضح دلیلیں ہیں۔
جس نے ماہِ رمضان کو پایا
رمضان کا بابرکت مہینہ جس خوش نصیب نے پایا اُسے چاہیے کہ اللہ کاشکربجالائے۔ سہل بن سعدؓ بیان کرتے ہیں کی اللہ کے رسول ؐ نے فرمایا کہ جنت کا ایک دروازہ ہے جس کا نام ”ریان“ہے‘اس دروازے سے روزِ قیامت صرف روزہ دور داخل ہونگے۔دوسراکوئی اس سے داخل نہیں ہوگا]بخاری/1904[۔اللہ تعلی کاارشاد ہے”تو تم میں سے جو اس مہینے میں حاضر ہووہ اس کا روزہ رکھے‘جو بیمار ہو یا کسی سفر پر ہوتو دوسرے دنوں سے گنتی پوری کرنا ہے۔اللہ تمہارے ساتھ آسانی کاارادہ رکھتا ہے اور تمہارے ساتھ تنگی کا ارادہ نہیں رکھتا۔اور تاکہ تم گنتی پوری کرواور تاکہ تم اللہ کی بڑائی بیان کرو‘اس پر جو اُس نے تمہیں ہدایت دی اور تاکہ تم شکر کرو‘جس شخص پر تندرستی اور حالتِ قیام میں رمضان کا مہینہ سایہ فگن ہوجائے تو اُس پر روزہ رکھنا فرض ہے۔البتہ بیماری اور سفر کی حالت میں روزہ نہ رکھنے کاحکم خود اللہ نے دیا ہے(وَمَنْ کَانَ مَریْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ)۔اور اللہ تعلی کا امر ہی ایمان میں اصل الاصول ہے‘کہ اس کی بجاآوری میں ہی خیر ہے۔امام ابنِ کثیرؒلکھتے ہیں:۔”اس آیت سے ثابت ہوا کہ جب رمضان کا چاند چڑھے کوئی شخص اپنے گھر ہو‘ سفر میں نہ ہو اور تندرست بھی ہواسے روزے رکھنے لازمی اور ضروری ہیں۔پہلے اس قسم کے لوگوں کو بھی جو رخصت تھی وہ اُٹھ گئی۔اس کا بیان فرماکر پھر بیمار اور مسافر کے لئے رخصت کابیان فرمایاکہ یہ لوگ روزہ ان دنوں میں نہ رکھیں۔اور پھر قضاکرلیں۔یعنی جس کے بدن میں کوئی تکلیف ہوجس کی وجہ سے روزے میں مشقت پڑے یاتکلیف بڑھ جائے یاسفرمیں ہوتو افطار کرلے اور جتنے روزے رہ جائیں اتنے دن پھر قضا کرلیں۔“]تفسیر ابن کثیرجلداول/357[۔یہاں دو اہم نکتے آپ کے گوشِ گزار کرنا چاہتا ہوں۔ایک یہ کہ سفرکی حالت میں روزہ چھوڑنے کا حکم اگرچہ نصِ قرآنی سے ثابت ہے لیکن اس کا قطعًا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ روزے سرے سے ہی معاف ہوگئے‘جیسا کہ بہت سے لوگ اس شبہ میں مبتلاہیں۔ بلکہ اُن روزوں جو سفر میں چھوٹ جائے‘ کو ماہِ رمضان کے بعد پورا کرنا ہے۔اسی طرح بیماری میں چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا ہے۔دوسرا اہم نکتہ عورتوں کی ماہ واری یعنی حیض (Menstruation)سے متعلق ہے۔ حیض کے دوران عورتوں کو نماز اور روزوں کی رخصت ہے۔لیکن ماہِ رمضان کے گزرنے پر روزوں کی قضا کرنی ہوگی جب نماز یں سرے سے ہی معاف ہیں۔حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ ہمیں رمضان میں حیض کی وجہ سے چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا کا حکم کیاگیالیکن چھوٹی ہوئی نمازوں کا نہیں (البخاری)۔اور حضرت عائشہؓ ان روزوں کوعام پور پر ماہ شعبان میں اداکیاکرتی تھیں۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دورانِ حیض چھوٹے ہوئے روزوں کو تاخیرسے ادا کیا جاسکتا ہے‘یہ ضروری نہیں کہ ان کو رمضان کے فوراً بعد ہی ادا کیا جائے۔
رمضان میں دعا کی اہمیت
اگلی آیت قرآن مجید کی نازک ترین آیات میں سے ہے۔ اللہ تعلی فرماتاہے:۔(وَ اِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ لا فَلْیَسْتَجِیْبُوْالِیْ وَلْیُؤْمِنُوْابِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ)”اور جب میرے بندے تجھ سے میرے بارے میں سوال کریں‘تو بے شک میں قریب ہوں‘میں پکارنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ مجھے پکارتاہے۔تولازم ہے کہ وہ میری بات مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ ہدایت پائیں“اللہ تعلی مجیب الدّعواۃ ہے‘یعنی دعاؤں کا قبول کرنے والا۔روزوں کے ساتھ دعا کے بیان کرنے میں یہ حکمت پوشیدہ ہے کہ رمضان میں دعا کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔چنانچہ ابو نعمان سیف اللہ لکھتے ہیں ”روزوں کے احکام کے درمیان دعا کے ذکر سے مقصود اس طرف اشارہ کرنا ہے کہ رمضان میں دعا کی بڑی اہمیت ہے“۹؎۔انسان کو چاہئے کہ رمضان میں خوب خوب دعا کرے‘اور اپنے رب سے گناہوں کی بخشش طلب کرے۔بندہ جب بھی اور جہاں بھی صحیح نیت کے ساتھ ربّ سے دعا کرتا ہے تواللہ اُس کی دعاکو شرفِ قبولیت عطاکرتاہے”فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ اُجِیْبُ دَعْوَۃ الدَّاعِِ اِذَا دَعَانِ“ سے یہی مرادہے۔ مسند احمد وترمذی میں حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایاکہ تین آدمیوں کی دعا رد نہیں ہوتی ایک عادل امام کی دوم روزے دار کی جب تک کہ وہ روزہ افطار نہ کرلے اور سوم مظلوم کی(الخ)۔
یاد رہے کہ دعاکی دو قسمیں ہیں ایک دعائے عبادت اور دوسرے دعائے مسلہ۔عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ نے ”کتاب التّوحید“ کی شرح(توحید الٰہ العالمین)میں لکھا ہے”قرآنِ مجید میں جہاں بھی لفظ دعاوارد ہواہے اس سے مراد کبھی تو دعائے عبادت ہوتا ہے‘کبھی دعائے مسلہ اور کبھی دونوں۔اور حقیقت یہ ہے کہ دعائے عبادت اور دعائے مسلہ آپس میں لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں ]203[۔دعائے عبادت کیاہے؟دعائے عبادت یہ ہے کہ بندہ اللہ کے عذاب وعتاب کے خوف سے اس کے سامنے گڑگڑائے‘لیکن اُس کی رحمت کا امیدوار بھی رہے۔ اور دعائے مسلہ سے مراد ایسی دعا ہے کہ جس میں بندہ اللہ تعلی سے اپنی حاجت اور ضرورت کا سوال کرے اور اپنے لئے نفع اور ہرطرح کی مصیبت سے نجات طلب کرے ۰۱؎۔سورہ مومن جس کا ایک نام سورۃالغافر بھی ہے میں ارشاد ہوا ہے(وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْ عُوْ نِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَد خُلُوْنَ جَھَنَّمَ دٰخِرِیْنَ)”اور تمہارے رب نے فرمایا مجھے پکارو میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔بے شک وہ لوگ جو میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں عنقریب ذلیل ہوکر جہنم میں داخل ہوں گے]60[۔“نعمان بن بشیرؓ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ؐ نے فرمایااَلدُّعَاءُ ھُوَالْعِبَادَۃیعنی دعاعبادت ہی ہے۔اس کے بعد آپؐ نے یہی آیت تلاوت فرمائی۔عبداللہ ابن عباس ؓ اس آیت کی دلیل دے کر کہا کرتے تھے کہ دعا سب سے بہترین عبادت ہے۱۱؎۔دعا کی قبولیت کے لئے ضروری ہے کہ بندہ اللہ کی فرمانبرداری کرے۔ لا فَلْیَسْتَجِیْبُوْالِیْ وَلْیُؤْمِنُوْابِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ“۔
چند اہم مسائل
سورۃالبقرہ کا زیرِ مطالعہ رکوع جن دو آیات (187/188)پر ختم ہوتاہے اُ ن میں روزوں سے متعلق کئی اہم مسلے بیان ہوئے ہیں۔اللہ تعلی ارشاد فرماتا ہے:۔تمہارے لئے روزوں کی رات اپنی عورتوں سے صحبت کرناحلال کردیا گیا ہے‘وہ تمہارے لئے لباس ہیں اور تم اُن کے لئے لباس ہو۔اللہ نے جان لیا کہ بے شک تم اپنی جانوں کی خیانت کرتے تھے تو اس نے تم پر مہربانی فرمائی اور تمہیں معاف کردیا‘تواب اُن سے مباشرت کرواور طلب کرو جو اللہ نے تمہارے لئے لکھاہے۔اور کھاؤاور پیو یہاں تک کہ تمہارے لئے سیاہ دھاگے سے سفیددھاگافجرکا خوب ظاہر ہوجائے۔پھر روزے کو رات تک پورا کرواور اُن سے مباشرت مت کروجب کہ تم مسجدوں میں معتکف ہو۔یہ اللہ کی حدیں ہیں‘سو اِن کے قریب نہ جاؤ۔اسی طرح اللہ اپنی آیات لوگوں کے لئے کھول کر بیان کرتاہے‘تاکہ وہ بچ جائیں“ روزے کی راتوں میں کھاناپینااور اپنی بیویوں سے جماع کرنا جائز ہے۔ابتداء اسلام میں یا جب روزے فرض ہوئے مسلمان راتوں کو بھی اپنی بیویوں سے دور رہاکرتے تھے جوکچھ لوگوں پر شاق گزرتا تھا۔براء بن عازبؓ سے موقوفًا روایت ہے کہ جب رمضان کے روزے کا حک نازل ہوا تومسلمان پورے رمضان میں اپنی بیویوں کے قریب نہیں جاتے تھے اور کچھ لوگوں نے اپنے کوخیانت میں مبتلا کرلیا تھا۔اس پر اللہ تعلی نے یہ آیت نازل فرمائی ]بخاری/4508[۔اب راتوں کو جماع کرنا حلال کردیا گیا اور ساتھ ہی کہا گیا کہ تمہاری بیویاں تمہارے لئے لباس ہیں اور تم اُن کے لئے لباس ہو۔اس کے بعدمذکورہ آیت میں کہا گیا ہے”اور کھاؤاور پیو یہاں تک کہ تمہارے لئے سیاہ دھاگے سے سفیددھاگافجرکا خوب ظاہر ہوجائے۔پھر روزے کو رات تک پورا کرواور اُن سے مباشرت مت کروجب کہ تم مسجدوں میں معتکف ہو۔“یہاں سیاہ دھاگے سے مراد رات کی تاریکی/سیاہی اور سفید دھاگے سے مراد صبح کی سفیدی ہے]بخاری/4510[۔ آخری آیت
رکوع کے بالکل آخر پرمالِ حرام سے بچنے کی ترغیب دی گئی۔ (وَلَا تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوْا بِھَآ اِلَی الْحُکَّامِ لِتَاْکُلُوْا فَرِیْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۔)اور اپنے مال آپس میں باطل طریقے سے مت کھاؤ اور نہ انہیں حاکموں کی طرف لے جاؤتاکہ لوگوں کے مالوں میں سے ایک حصہ گناہ کے ساتھ کھاجاؤ۔اس آیت کی تفسیر میں ابو نعمان سیف اللہ خالد رقمطراز ہیں ”روزے کی حالت میں اللہ کے حکم سے آدمی تین نہایت مرغوب اور حلال چیزیں ترک کردیتاہے‘اسی مناسبت سے اب حرام سے بچنے کی تلقین فرمائی۔جو مال بھی ناجائز طریقے سے حاصل کیا جائے خواہ مالک کی رضامندی بھی اس میں شامل ہو وہ باطل طریقے سے کھانا ہے‘مثلًا سود‘ زنا کی اجرت‘ نجومی کی فیس‘ شراب کی فروخت‘لاٹری یا جوئے کے ذریعے کمائی یا گانے بجانے کی اجرت‘الغرض تمام ناجائز وسائل باطل کے ساتھ کمانے میں شمار ہوں گے“۔ ان سے بچنا نہایت ضروری ہے۔
حواشی
۱؎ حجۃ اللہ البالغہ ترجمہ مولاناخلیل احمد/134
۲؎ صحیح البخاری/کتاب النّکاح
۳؎ غنیۃ الطالبین شیخ سید عبدالقادر جیلانیؒ
۴؎ شرح بخاری از مولانا داؤد راز ؒ جلد/6/87
۵؎ حضرت معاذؓ بحوالہ ابن کثیر /البقرہ/183
۶؎ تفسیرِ ابنِ کثیر البقرہ/وَعَلَی الَّذِیْنَیُطِیْقُوْنۃ کی تفسیر میں
۷؎ ابن کثیر ایضًا
۸؎ البقرہ/138
۹؎ دعوت القرآن
۰۱؎ توحید الٰہ العالمین/203‘204
۱۱؎ حسن (مستدرک حاکم)