”جذبوں کے بیری وقت کی سازش نہ ہو کوئی“
مضمون نگار: ڈاکٹر اویس حمد بٹ
ترال، کشمیر
فون:9149958892
ہم اس بات سے بہ خوبی واقف ہیں کہ کوڈ 19 نے گزشتہ سال پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے کر کس حد تک انسانی جانوں کے زیاں کے ساتھ ساتھ نظام زندگی کو بھی درہم برہم کردیاتھا۔ کیا امیرکیا غریب کیا مزدور اور کیا پیشہ ور غرض سب کی زندگی قرنطینہ کی چار دیواریوں میں مقید ہوکررہ گئی تھی۔ہندوستان میں شروع سے ہی کرونا کو ”بازیچہ ئئاطفال“سمجھ کر شب و روز تماشے ہی تماشے دیکھنے کو ملے تھے۔ایک جرمن کہانی کا پائڈ پائپر(Pied Piper)تھا جس نے اپنی جادوئی پائپ سے چوہوں کو ندی کی طرف راغب کیا تھا جس میں وہ ڈوب گئے اور دوسرے نے تالی، تھالی اور شمع کے بہانے لوگوں کو گھروں سے باہر نکالنے کے لیے ورغلایا۔رہی سہی کسر میڈیا نے طبقاتی اور مذہبی منافرت پھیلا کر پوری کردی کہ تبلیغی جماعت نے ہندوستان میں کرونا پھیلایا ہے۔ خیر اس آپسی منافرت کی آڑ میں چند نیتاؤں نے خوب سیاسی روٹیاں سیک لیں۔جہاں میڈیا اس وبائی بیماری کے روک تھام میں مثبت اور بنیادی کردار ادا کرسکتی تھی؛اُس نے لوگوں میں ایسا شوشہ ڈال دیا کہ ایک طبقہ دوسرے طبقے کو کروناکا ذمہ دار ٹھہرانے لگا۔دوسری طرف لوگ بھی مست مگن رہے کہ یہ سب مودی حکومت کی چال ہے، ملک مالی خسارے کا شکار ہونے جارہا ہے اس لیے کرونا کا ہتھکنڈا استعمال کیا جارہا ہے وغیرہ وغیرہ۔لیکن پھر وقت ایسا بھی آیا جب ہندوستان نے کرونا کے معاملے میں امریکہ کو بھی پچھاڑ دیا، تب لوگوں کو اس بات پر یقین ہونے لگاکہ کرونا ایک ایسی ”حقیقت“ ہے جسے جھٹلایا نہیں جاسکتا ہے۔
اب اگر ہم اپنے مرکزی خطے جموں و کشمیر کی بات کریں تو یہاں خدا ہی حافظ ہے۔ یہاں کرونا سے لوگ بھی مر تے گئے اور ہم ٹس سے مس نہ ہوتے ہوئے اسے دجالی دور کی چالبازیاں اورحکومت کی سازشیں اور نہ جانے کیا کیا نام دیتے رہے۔ میرے خیال سے کرونا کا مزاق جس قدر کشمیر میں اڑایا گیا،کہیں اور اس کی نظیر نہیں ملے گی۔ یہاں ہر مصیبت اور پریشانی کا بس ایک ہی سبب ہے کہ یہ مودی کی چال ہے۔ کرونا کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا۔ یہاں جب لاک ڈاون کیا گیا اور مساجد میں نمازِجماعت پر پابندی عائد کردی گئی تو لوگوں کا غصہ ساتوں آسمان پر چڑھ گیا۔ اور نہ جانے کیا کیا باتیں بنائی گئیں کہ کرونا کی آڑ میں اسلام پر حملہ ہورہا ہے، مساجد بند کرنے کا منصوبہ بن رہا ہے، نماز پر پابندیاں عائد ہونے جارہی ہیں۔ لیکن پھر ہمارے علما نے مثبت کردار ادا کرکے لوگوں کو اس بات پر آمادہ کیا کہ جذبات سے زیادہ عقل سے کام لینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
اب مرکزی صوبے جموں و کشمیر میں گورنر کی طرف سے حکم نامہ جاری ہوا کہ کرونا وائرس کے پیش نظر اسکولوں کو کچھ وقت کے لیے مکمل طور بند کر دیا جائے۔ یہ حکم نامہ جاری ہوتے ہی لوگوں نے پرانا راگ الاپنا شروع کردیا کہ یہ ایک سوچی سمجھی سازش ہے، کرونا کے نام پر ہمارے بچوں کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کیا جارہا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کرونا جیسی خطرناک وبائی بیماری کے پیش نظر اگر یہ اقدام اُٹھایا گیاہے تو پھر حکومت کے اس قدم کے پر لوگوں میں انتشار کیوں پھیل رہا ہے۔ کیوں لوگ حکومت کے اس قدم کو ایک سازش سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پچھلی بار جب لاک ڈاؤن کھولا گیا تو اسکولوں کو کافی عرصے تک نظرانداز کیا گیا۔ جب کہ بازار، شاپنگ مال اوردوسرے کاروباری اداروں میں لگی بھیڑ سے حکومت کو کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔ بس یہیں سے لوگوں کے اذہان میں یہ سوال اُبھرنے لگا کہ اگر اسکولوں میں کرونا کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے تو باقی جگہوں پر جوبھیڑ لگی رہتی ہے وہ کرونا مُکت کیسے ہو سکتی ہے۔؟حالاں کہ اس کا ایک جواز یہ پیش کیا گیا کہ لوگ کافی عرصے سے لاک ڈاؤن میں تھے اور مزدور طبقہ بالخصوص مالی بحران سے دوچار رہا۔یہ جواز اگرچہ بہت حد تک قابل قبول ہے لیکن ہمیں اس حقیقت سے بھی آنکھیں نہیں پھیرنا چاہیے کہ بچے قوم کا مستقبل ہوتے ہیں۔تو کیا اُن کے مستقبل کے ساتھ سمجھوتہ کرنا ہی کرونا سے لڑنے کا واحد راستہ ہے؟کیا حکومت کچھ اس طرح کی پالیسیاں نہیں اپنا سکتیں جس سے سو فی صد تو نہ سہی مگر پچاس فی صد فائدہ بچوں کے مستقبل کو پہنچایا جاسکتا ہے۔
اب کرونا کی دوسری لہر بھی کچھ اچانک پرکٹ ہونے والا معاملہ نہیں ہے بلکہ مارچ کے مہینے میں ہی کرونا نے پھر سے اپنا رنگ دکھانا شروع کیا۔ لیکن مودی سرکار ابھی بھی ہوش کے ناخن نہیں لے رہی ہے،کیوں کہ اُسے کرونا سے اُتنا خطرہ محسوس نہیں ہورہا ہے جتنا مغربی بنگال کے اسمبلی الیکشن ہارنے پر محسوس ہوسکتا ہے۔یہی رویہ پچھلے سال بھی اختیار کیا گیاجب کرونا واردِ ہندوستان ہوا تھا تومودی سرکار نے اسے ”بازیچہئ اطفال“ سمجھنے کی غلطی کی تھی۔پھر اُس کے بعد جو شب و روز کا تماشا کرونا نے دکھا دیا اُس سے سب نے کان پکڑ لیے تھے۔چوں کہ حکومت اس بات سے بھی باخبر ہے کہ اگر بھیڑ پر قدغن لگائی جائے تو سب سے پہلے الیکشن ریلیوں پر پابندی عائد کرنا پڑے گی جوکہ وہ کرنا نہیں چاہتی ہے۔ اسی طرح جموں و کشمیر میں بھی ایسا ہی ہورہا ہے کہ یہاں ابھی تک سرکار ٹس سے مس نہیں ہورہی تھی۔ لیکن اب جب سرکار خواب غفلت سے بے دار ہوگئی تو سب سے پہلے اسکولوں پر تان کس لی گئی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا محض اسکولوں کو بند کردینے سے ہی کرونا کی اس دوسری لہر سے لڑا جا سکتا ہے۔؟ یہ سوال ہر کس و ناکس کے ذہن میں اُٹھ رہا ہے کہ کشمیر میں باغات میں جو بھیڑ لگی رہتی ہے کیا اُس سے کرونا کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔؟ جب ایک طرف سرکار بار بار کرونا وائرس کے پیش نظر SOPsپر عمل کرنے کی تلقین کرتی ہے تو دوسری طرف باغات میں لگی بھیڑ سے نظریں چرا رہی ہے تو عام انسان کے ذہن میں کئی طرح کے سوالات کا اُٹھ جانا فطری بات ہے۔ ایک طرف سری نگر انتظامیہ لوگوں کوSOPsپر عمل کرنے پر متنبہ کرتی ہے تو دوسری طرف چار چناری میں ترنگا پھیرا جارہا ہے جہاں SOPsکی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں، میوزیکل ایونٹ کا انعقاد عمل میں لایا جارہا ہے، چھ دن کے میوزک فیسٹول کا انعقاد کیاجارہا ہے جس کا افتتاح خودجموں و کشمیر کے گورنر 500لوگوں کے ہمراہ کرتے ہیں۔اب سرکار کے اس دوہرے رویے کو دیکھتے ہوئے کہ ایک طرف وہ کرونا وائرس کی دوسری لہر کی رٹ لگائے بیٹھی ہے اور دوسری طرف خود ہی لوگوں کو مصیبت میں دھکیل رہی ہے۔ کرونا کے پیش نظر کم سے کم حکومت میوزیکل ایونٹس کو منسوخ تو کر سکتی تھی! کیوں کہ عام بھیڑ اور ایک خاص میوزیکل ایونٹ کی بھیڑ میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ یہ سب دیکھنے کے بعد عام انسان جونتیجہ اخذ کرتا ہے وہ یہی ہے کہ یہ کرونا کی دوسری لہر کم اور ”سازش“ زیادہ لگ رہی ہے۔ دیکھئے حال ہی میں شب برأت کی شب خوانی پر مفتی اعظم جموں وکشمیر کے ذریعے یہ اعلان نامہ جاری کرایا گیا کہ مسلمان کرونا کے پیش نظر شب خوانی سے گریز کریں۔ ٹھیک ہے! اس بات سے کوئی اعتراض نہیں ہے کہ ایسا کیوں کیا گیا ہے وغیرہ وغیرہ لیکن ایک عام انسان یہ بات سمجھنے سے قاصر ہے کہ جب بھیڑ بھاڑ کرونا کا سبب بن سکتی ہے تو پھر ایک خاص قسم کے اجتماع پر ہی نظریں کیوں جم جاتی ہیں۔؟ حقیقت یہ ہے کہ نہ اسکول بند کرنے میں کوئی سازش ہے نہ ہی کسی اجتماع جس کے ساتھ مذہبی جذبات جڑے ہیں،پر قدغن لگانے کو سازش سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ اگر ہر طرح کی بھیڑ پر کرونا کے پیش نظر پابندی لگائی گئی ہوتی تو عام انسان کے ذہن میں اس طرح کے سوالات کھڑا نہیں ہوتے۔ کشمیر کا تعلیمی نظام تو ویسے بھی تباہ ہوچکا ہے۔ کیا سرکارکوئی ایسا لائحہ عمل اختیار نہیں کرسکتی ہے جس سے بچوں کی تعلیم کو کسی حد تک متاثر ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔ SAGEکی ایک رپورٹ کے مطابق کرونا وائرس ایک دم سے ختم نہ ہونے والی وبائی بیماری ہے یعنی یہ اب ہماری زندگی میں دوسری وبائی امراض کی طرح موجود رہے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر بار لاک ڈاؤن ہی کرونا سے لڑنے کے لیے واحد راستہ نہیں ہوسکتا ہے بلکہSOPsپر عمل کرتے ہوئے ہم اس وائرس سے بچ سکتے ہیں۔ ہم اس بات سے بھی واقف ہیں کہ کئی لوگ کرونا وائرس کی ویکسین لینے کے بعد بھی کوڈ مثبت آئے۔ ظاہرسی بات ہے کہ ویکسین لینے کے بعد بھی اگر احتیاط نہ برت لی جائے تو نتیجہ کچھ بھی اچھا نہیں ہوسکتا ہے۔ اب جہاں تک اسکولوں کا معاملہ ہے تو اس ضمن میں اسکولوں کو قطعی طور بند کردینے کے بجائے مزید احتیاطی تدابیر برتنے کی اشد ضرورت ہے۔ اگر ہر روز بچوں کے ساتھ ساتھ اساتذہ کا درجہ ئ حرارت چیک کیا جا ئے، اسکول کے احاطے اور کلاس رومزکو سینی ٹائز کیا جائے، بچوں کو بار بار ہاتھ سینی ٹائز کرنے کی ترغیب دی جائے۔کلاس رومز میں تن دوری کا خاص خیال رکھا جائے۔ بے شک اس میں سرکار کو مستعدی اور کمر بستگی کا مظاہرہ کرنا پڑے گا لیکن تعلیمی نظام کو پھر سے پٹری پر لایا جاسکتا ہے۔نہیں تو وہ وقت دور نہیں جب بچے پڑھائی کے خلاف سڑکوں پر مظاہرے کرتے پھریں گے۔جس کی ایک صورت ہمیں بچوں کا یہ مطالبہ کرتے ہوئے ملی کہ اُن کا امتحان آف لائن کی بجائے آن لائن لیا جائے اور جس کے لیے بچوں نے اسکولوں میں توڑ پھوڑ بھی کی اور سڑکوں پر لیٹ کر اپنی من مانی بھی کی۔بہر صورت بند کر دئیے جانے کے بعد اسکول دوبارہ کھولیں جائیں گے تواُس وقت اس بات کا کیا ثبوت ہوگا کہ آگے بچے کرونا سے محفوظ ہوں گے یا کوئی ایسا وقت بتائے جب یہ وثوق کے ساتھ کہا جائے گا کہ بچے اسکولوں میں محفوظ ہوں گے۔ہمارے کہنے کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ بچوں کی جان کے ساتھ کھلواڑ کیا جائے اور اسکول کھلے رکھے جائیں۔بلکہ ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اسکولوں کو قطعی طور بند کرنے کی بجائے کیا کوئی دوسرا راستہ اپنایا نہیں جاسکتا ہے۔کیوں نہ SOPsپر سختی سے عمل کرتے ہوئے اسکولوں میں بچوں کے معاملات کو اس طرح بہتر بنا یا جاسکے کہ اُنھیں اس وبائی بیماری سے لڑنے کی ترغیب ملے۔ کرونا کا جہاں تک معاملہ ہے، کوئی قطعی کے ساتھ یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ یہ کلی طور ختم ہو جائے گا۔ اگر کرونا اب ہماری زندگی کا حصہ ہے تو کیوں نہ بچوں کو SOPsپر عمل کرنے کا عادی بنا لیا جائے تاکہ اسکول کے ساتھ ساتھ وہ اپنے گھروں میں بھی محفوظ رہ سکیں۔ اب رہا باغات کا معاملہ؛ جو بھیڑ ہم دیکھتے آئے ہیں اُس پر ہر کوئی سوالیہ نشان لگا رہا ہے۔اور لگائے بھی کیوں نہیں!۔۔۔اگر ہم اس بات کو ایک سازش تصور نہیں کریں گے تو سرکار کا یہ دوہرا رویہ کس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے۔؟بھیڑ تو بھیڑ ہے؛ وہ بازار کی بھیڑ ہویا پھر باغات کی بھیڑ ہو یا پھر جو سرکار میوزیکل ایونٹ کروارہی ہے وہاں کی بھیڑ ہو۔کرونا کے لیے ہر طرح کی بھیڑ خطرے کی گھنٹی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سرکار کروناکے ساتھ سنجیدگی کے ساتھ لڑنے کو تیار ہی نہیں ہے۔کیوں کہ وہ احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل کو اسکول، بازار اور دوسرے کاروباری اداروں کو مکمل طور بند کرنے پر ترجیح دینے کو تیار ہی نہیں ہے۔UNICEFنے حال ہی میں کرونا کی دوسری لہر کے حوالے سے یہ رپورٹ جاری کردی ہے کہ کرونا سے لڑنے کے لیے احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن سرکار کو کرونا سے لڑنے کا واحد اور آسان طریقہ اسکولوں کو ہی بند کردینا اور لاک ڈاؤن لگتا ہے۔اسکول، بازار اور کاروباری اداروں کو مکمل طور بند کرنا ہی کرونا سے لڑنے کے لیے واحد راستہ نہیں ہوسکتا ہے اور وہ بھی جب کرونا کی لہر یں کئی بار اُوپر نیچے ہوسکتی ہیں۔اسکول بھلے ہی بند ہوئے ہیں لیکن وہی بچے اپنے افراد خانہ کے ساتھ پکنک مناتے ہوئے انہی باغات میں دکھ جائیں گے۔اُس کے لیے کون ذمہ دار ہے۔؟اب اگر اس کے لیے والدین ذمہ دار ہیں تو براہ کرم ہمیں یہ بتائیے کہ اُن والدین کو یہ موقع کس نے فراہم کیا کہ وہ بچوں سمیت بھیڑ بھاڑ والی جگہوں پر جائیں۔اگر اسی طرح میوزیکل ایونٹس ہوتے رہے تو باغات میں لوگوں کا جم غفیر نہ ہونے کا جواز کیا ہوسکتا ہے۔؟ کیوں کہ سرکار لوگوں کو بچوں سمیت باغات میں بھیڑ اکٹھا نہ کرنے پر انتباہ نہیں کر سکتی ہے۔ لہذا سرکار کو چاہیے کہ وہ اپنے دوہرے رویے کو نہ اپناتے ہوئے ایک ایسا لائحہ عمل اختیار کرے جس سے لوگوں میں یہ انتشار نہ پھیلے کہ سرکار یک طرفہ ہوکر کسی خاص طبقے کو نشانہ بنا رہی ہے۔ اس سے دوسرا مسئلہ یہ کھڑا ہورہا ہے کہ سرکار کے دوہرے پن کی وجہ سے لوگ اب کرونا کا بھی مزاق بنارہے ہیں کیوں جب سرکار ہی اوٹ پٹانگ حرکتیں کرتی ہے تو عوام سے سنجیدہ ہونے کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے۔ بہرکیف سرکار اگر عوام سے بھی کرونا کے معاملے میں سنجیدہ ہونے کی اُمید رکھنا چاہتی ہے تو اُسے پہلے خود اس حوالے سے سنجیدگی کا مظاہرہ کرکے ہر نوع کی بھیڑ کو خطرے سے تعبیر کرتے ہوئے ایسے اقدامات اُٹھانے ہوں گے جس سے لوگوں میں انتشار کے بجائے یہ حقیقت واضح ہوجائے کہ کرونا ایک وبائی بیماری ہے جس کا کسی مخصوص مذہب یاطبقے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔