از قلم :ڈاکٹر علامہ محمد رضوان
اگر چہ ہیں ہماری آبادی بہت
پر فکر سے ہیں ہم بےزار
جوان سمجھتا ہیں خود کو جسور
لیکن روتی ہیں قوم کی دیدہ زار زار
خود کو سمجھتا ہیں تو مسلمان لیکن تو کچھ اور ہیں
زوال ہم پے کیوں،کیوں ہوے ہم دنیا میں خوار
دین و علم ہیں ذہنوں میں نایاب
مغرب نے سکا چلا کے کیا ہم پے وار۔
تشریع:
دنیا میں مسلمانوں کی آبادی بہت ہیں ہر ملک میں مسلمان ضرور ہیں مسلمانوں کی آبادی الحمداللہ بہت ہیں لیکن پھر بھی مسلمان پیچھے ہیں زیادہ تر حکومت میں کوئی ملک نہیں جہاں اسلام کا نظام پورا قائم ہیں آدھے ملکوں میں حکومت ہیں مسلمانوں کی لیکن جو حکم ہیں وہ مسلمانوں کا نہیں ہیں اس فکر سے ہم بیزار ہیں ۔
ہر چیز میں کوئی چیز بڑی ہوتی ہیں ایسے ہی قوم میں جو کابل تسخیر ہیں وہ جوان ہیں یہ ہر گھر،قوم ،ملک ،وغیرہ کی پہچان ہیں ہمارے قوم کے جو جوان ہیں وہ خود کو طاقتور سمجھتے ہیں بہادر سمجھتے ہیں بہت آعلیٰ سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی قوم میں خوش ہالی نہیں ہر طرف سے چیکھ و پکار ہیں آنکھوں سے آنسوں بہ رہے ہیں تو ایسے جوان کا جو خود کو طاقت ور سمجھتا ہیں وہ کیسا بہادر جس جوان کا اپنا گھر محفوظ نہیں وہ کیا بہادر ہونے کا داوا کرے گا ۔
ہم نے کلمہ پڑھا بس ہوے ہم مسلمان یہی ہماری سوچ ہیں کوئی بھی کلمہ پڑھ لے تو مسلمان ایجاد ہوگا لیکن یہ مسلمانی نہیں ہم کچھ اور ہیں وہ اور اور کچھ نہیں بس ہم وراثت کے طور پر مسلمان ہیں ہمارے ماں باپ مسلمان تھے ہم بھی مسلمان ہیں یہ تو اندھا بروسا ہیں اگر ہم میں ایمان ہوتا مسلمانیت ہوتی تو ہم پے عذاب زوال کیوں کر آتا رسوہ کیوں ہوتے ہم دنیا میں کیوں ہم پے دنیا انگلیا اٹھاتی وجہ یہ ہیں کہ ہم میں ایمان ہیں ہی نہیں ۔
ہم پڑھتے ہیں سوچتے ہیں کرتے ہیں کہتے ہیں بس دنیا کے لئے اصل جو پڑھنا تھا اسکو چھوڈ دیا اصل جو سوچنا تھا اسے نہیں سوچتے اصل جو کام کرنا تھا اسے بیزار ہیں اصل جو بات سیکھنی تھی سكهانی تھی اسے چھوڈ دیا جو ہمارا تھا وہ مغرب لے گیا ہم رہے ایک دوسرے کے پیچھے فرقہ واریت میں حسد میں گمڑ میں وغیرہ وغیرہ ۔
اللّه سے دعا ہیں کہ ہمے سیدھا راستہ دکھاے آمین صم آمین ۔