کالم نویس: مشتاق خالدؔ چودھری
درہ نامبلہ اُوڑی کشمیر
91-7051471583
ہر سال21 مارچ کو پوری دنیا میں عالمی یومِ شاعری کے طور پر منایا جاتا ہے۔اس دن کو منانے کا اعلان یونیسکو نے پہلی بار 1999ء کو کیا تھا۔ اس دن کو منانے کا مقصد یہ ہے کہ پوری دنیا میں شاعری کو لکھنے، پڑھنے، پڑھانے، چھاپنے اور شاعری کے متعلق آگاہی دینے اور سمجھنے کے عمل کی حوصلہ افزائی ہو، اور استاد شعراء اِس دن مختلف پروگراموں اور ورک شاپ کے ذریعے نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کریں اور اُنھیں شعری باریکیوں کے بارے میں سمجھائیں تاکہ معیاری ادب کو تخلیق کرنے میں مدد مل سکے۔تحقیق کے مطابق پہلے پہل یہ دن مارچ کے بجائے اکتوبر اور مختلف ملکوں میں مختلف ایام میں منایا جاتا رہا ہے، جن میں 5/ اکتوبر قابلِ ذکر ہے اور انگلینڈ میں اب بھی 5/ اکتوبر کو یہ دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد شاعری کی اہمیت، نوجوان شاعروں کو اپنی تصانیف متعارف کرانے کا موقع فراہم کرنا ہے تاکہ لکھنے اور پڑھنے والوں کے اندر احساس کا جذبہ پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ دلوں میں گداز اور لہجے میں شائستگی پیدا ہو سکے۔ شاعری نے ہر شعبے میں اپنا لوہا منوایا ہے۔ سال2009ء سے روس میں شاعری کے عالمی دن کے موقع پر ایوان ادباء میں کئی تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔اِسی طرح اب دنیا بھر میں اِس موقع پر پروگراموں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔گو کہ اِن پروگروموں کی نوعیت مختلف جگہوں پر مختلف ہوتی ہے۔ لیکن اِس دن کو منانے کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ بہترین شاعری کیسے تخلیق کی جائے۔ شاعری جذبات اور احساسات کا نام ہے۔ جو دلوں میں سرور اورنغمگی پیدا کرتی ہے۔ شاعری کے پیچھے چاہے عقیدت کارفرما ہو یا دنیا داری بہرحال یہ سب محبت کے استعارے اور تسکین کا سامان بھی ہیں۔اس حوالے سے تاریخ دانوں کے مطابق ایک کہاوت یہ بھی ہے کہ تیئیسویں صدی قبل از مسیح میں موجودہ ایران کی سرزمین پر واقع ایک قدیم ریاست کی شہزادی این ہیدوآنا نے بنی نوع انسان کی تاریخ میں پہلی بار شاعری کی تھی۔ کوئی بھی تحریر نثری یا شعری ہو وہ انسان کے تخیل کا عکس ہے جو صفحہئ قرطاس پر منعکس ہوتا ہے اور اپنا اثر بکھیرتا ہے۔ شاعری دراصل جذبات اور احساسات کی عکاسی ہے، جوالفاظ کے جوڑ اور جادوئی اثر سے وجود میں آتی ہے،جودِلوں اور روح تک کو جھنجھوڑ کے رکھ دیتی ہے۔ اور یہ تخلیق کئی افراد،کئی قوموں اور زبانوں کی رہنمائی کرتی ہے۔شاعری اصل میں کیا ہے؟ اِس بارے میں متفقہ طور پر یہ کہا گیا ہے۔
کسی بھی انسان کے لیے اپنے جذبات،احساسات اور مشاہدات و تجربات کی عکاسی کا نام شاعری ہے، اور جب وہ عکس کسی ایک سانچے میں ڈھل کر زبان و قلم کی نوک سے سامنے آئے کہ ہر آہ واہ میں بدل جائے وہ شاعری ہے۔کسی بھی جذبات اور احساسات کو جب الفاظ کے موتیوں سے یوں پرو لیا جائے کہ کوئی بھی لفظ اُس مالا سے سرک کے باہر نہ جانے پائے وہ شعر ہے اور ہر پہلا لفظ دوسرے لفظ سے یوں جُڑا ہو کہ ہر لفظ ایک دوسرے کے بغیر ادھورا ہے تو وہ شعر ہے۔ ہر انسان کے سوچنے کااپنا نظریہ ہے، لیکن حساس لوگوں کا مشاہدہ بہت ہی گہرا اور معنی خیزہوتا ہے۔ شاعری بھی عام لوگوں کے بس کی بات نہیں، یہ رب کی طرف سے عطا کردہ ایک خاص صلاحیت ہے۔ اِس کا تعلق بھی حساس لوگوں کے ساتھ زیادہ ہے۔ لیکن اِن مشاہدات و خیالات اور تجربات و احساسات کے اظہار کرنے کا طریقہ سب کا الگ الگ ہے۔ ہرزبان اور ہر دور کے شعراء کرام کی تخلیقات سے ان کے زمانے کے حالات و واقعات اور جذبات کی عکاسی ملتی ہے۔اور ہر شاعر کی تخلیق میں ایک نیا رنگ ملتا ہے۔ شعری اصنافِ سُخن میں شاعری کی بہت سی اقسام ہیں۔جن میں مشہوراصناف میں حمد، نعت، سلام، منقبت، مرثیہ، غزل،ہزل،پابند نظم، آزاد نظم،قطعہ، گیت، مثنوی، مسدس، قصیدہ، رباعی، دوہا، تریوینی، ریختی وغیرہ سرِ فہرست ہیں۔اِسی طرح کئی دوسری زبانوں میں کچھ اوراصنافِ سخن بھی ہیں جیسے گوجری زبان میں سی حرفی، بیت، ٹپے، ماہیے وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔ اِن اصناف میں سے غزل قدیم اصناف سخن میں سے ایک ہے اور یہ ایک مخصوص اندازِ تحریر ہے جو شاعری کی خاص صنف ہے۔ اور اِسے شاعری کا دِل کہا جاتا ہے جو کافی مقبولِ عام ہے۔اِس کے علاوہ شعراء کرام دیگر اصنافِ سخن میں بھی خوب طبع آزمائی کرتے ہیں اورہر صنف میں کمال کی مہارت رکھتے ہیں۔ ادب چاہے کسی بھی زبان کا ہو، دراصل زندگی کے مسائل کا اظہار، ترجمان اوررہنما کا نام ہے۔ اور شاعر وادیب کو اِسی لیے سماج کا حساس طبقہ کہا جاتا ہے کیوں کہ شاعر وادیب بڑی باریکی سے ہر مسئلہ کو اجاگر کرتے ہیں اور سماج کی ترجمانی کرتے ہیں۔ دنیا کی ہر زبان کے ادب کا سب سے قدیم اور بنیادی صنف شاعری ہی ہے، چاہے وہ لوک شاعری ہو، کلاسیکی شاعری یا جدید شاعری ہو۔ بنیادی طور پر اپنے سماج کی حقیقتوں کا عکس اور آئینہ ہوتا ہے۔ زندگی کے مسائل ہی شاعری کا خام مواد ہوتے ہیں، شاعر ان مسائل کو کس پیرائے میں پیش کرتا ہے وہ شاعر پر منحصر ہے۔
دراصل یہ وہ پہلو ہیں جن سے شاعری کے درجات اور شاعر کے مقام اور مرتبے کا تعین ہوتا ہے۔ انسانی جذبات و احساسات، خیالات اور ان کے فنی مظاہرے کا براہ ِراست تعلق زندگی کے عروج و زوال سے ہے۔ اورجس قدر معاشرے میں تبدیلی آتی ہے اسی طرح انسانی جذبات، احساسات اور خیالات بھی بدلتے رہتے ہیں۔اور ہر تخلیق میں ایک نیا پہلو سامنے آتا ہے۔اور ایک نئے تخیل سے سماج کی عکاسی ہوتی ہے۔ شاعر اورادیب کے تخلیقی کارنامے سماجی حقائق کا عکس ہوتے ہیں۔ تخلیق کار کے اِردگرد کی دنیا کی امیدیں، دنیا کے حسین مناظر اور سماجی برائیوں کی کشمکش اور اس کا سلجھاؤ عوام کی ایک دوسرے سے امیدیں اور یاسیت، خواب اور اُمنگیں، رنگ و روپ، بہار اور خزاں،پھول اور خوشبو، غم اور خوشی، دُکھ اور سُکھ، دردو کرب یہ سب موضوعات بہت اہم ہیں، اور شاعر و ادیب اِ ن کو الفاظ میں پرو کر کہیں ذہنوں کو جھنجھوڑتا ہے اور کہیں ہر ایک کو اُس شعر میں اپنے جذبات و احساسات کی ترجمانی ملتی ہے۔ ادب انسانی زندگی کے سفر کی ایک غیر مرتب تاریخ ہے، جس میں انسان کے خارجی،داخلی، فکری، سماجی، سیاسی اور تہذیبی تمام تر پہلو نمایاں ہیں۔ ادب کی بات دراصل انسان کی اپنی ہی گفتگو اور اپنی ہی کہانی ہے۔ شاعر اور ادیب کے ہاتھ میں قلم، زبان میں الفاظ اور اس کی جادوگری کا ہنر ہے۔ الفاظ کی طاقت الفاظ کے اندر چھپی ہوتی ہے۔ جن کو جوڑ کر ایک جادوئی کیفیت پیدا کی جاتی ہے،ایک تسلسل پیدا کیا جاتا ہے جو قاری اور سامع کو متاثر کرتا ہے۔ الفاظ اپنے اندر لازوال طاقت کا خزانہ رکھتے ہیں،جن کے ذریعے ادیب یا شاعر جمالیاتی احساس کو فکری احساس میں تبدیل کر دیتا ہے۔ الفاظ نہ صرف جذبات اور احساسات کی زبان ہے بلکہ وہ جذبات اور احساسات میں توازن، ہمواری، زرخیزی، تہذیب، خوبصورتی اور گہرائی بھی پیدا کرتے ہیں اور وہ صرف الفاظ کے معانی کو ایک خوبصورت لبادہ نہیں پہناتے بلکہ الفاظ کی وسعتوں میں اضافہ بھی کرتے اور ان میں اوزان اور وقار بھی پیدا کرتے ہیں۔
شاعری صرف الفاظ کی جادوگری ہی نہیں بلکہ اِس میں بحور و اوزان اور قافیہ ردیف کی ایسی حدیں ہیں جن سے بات سے بات بنتی ہے اور قاری و سامع کے منہ سے بے ساختہ واہ نکل جاتی ہے۔ شاعری ایک ایسی آواز ہے۔ جو دِلوں میں سنائی دیتی ہے اور روح کو متاثر کرتی ہے۔ شاعری ایک وسیلہئ تفریح، زندگی کی تفسیر اور تنقید ہے، شاعری کے بغیر ہماری زندگی پھیکی لگتی ہے، اِس کے بغیر موسیقی کا وجود ناپیدہے۔ فلم،تھیٹر، ڈرامہ، خوشی،غمی کے تہوار اور ہرمحفل بے رنگ لگتی ہے۔ انسانی زندگی میں شاعری کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہر سال 21 مارچ کو پوری دنیا میں شاعری کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ لٰہذا ہمیں اس دن کے موقع پر اس بات کا عہد کرنا چاہئے کہ شاعری چاہے جس زبان کی بھی ہو، شاعری کے لیے بھی مطالعہ ہو اور شاعری کا مطالعہ بھی ہو تب اس سے استفادہ حاصل کیا جا سکتا ہے، اِس دن کی مناسبت سے یہ عہد بھی کیا جائے کہ نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔اُنھیں شاعری کے اصول سے واقف کرایا جائے۔ استاد شعراء نئے لکھنے والوں کی رہنمائی کریں۔ معیاری ادب کی تخلیق کے لیے کام کیا جائے۔ سیمینار اور شعری ورک شاپ کا اہتمام کیا جائے، جن میں نئے لکھنے والوں کوشعری لوازمات اور عروض کی تعلیم دی جائے۔ نئے لکھنے والوں کو چاہئیے کہ وہ اپنی تخلیقات اساتذہ کو ضرور دکھائیں کیوں کہ بغیر استاد کے کسی بھی فن میں مہارت پیدا نہیں کی جا سکتی۔دیکھنے میں آیا ہے کہ ہر زبان میں ادب تخلیق ہو رہا ہے لیکن ادب کو معیار کی کسوٹی پر پرکھنے کے لیے کوتاہی برتی جا رہی ہے، اور مہارت کے لیے اساتذہ کے سامنے بیٹھنا لازمی ہے۔آج کل سماجی رابطہ گاہوں کی وساطت سے آن لائن ادبی نشستوں کا چلن ہے۔ اور یہاں یہ بات بھی دھیان میں رہے کہ معیاری کلام کو جمع کیا جائے اور رسالوں میں شائع کر کے محفوظ کیا جائے۔ زیادہ سے زیادہ کلام کی اشاعت کے لیے راہیں ہموار کی جائیں۔ ہر لکھاری کو سماج میں ایک عزت ایک مقام دیا جائے۔ ان کا جائز مقام اور احترام دیا جائے اور ان سے فکری رہنمائی حاصل کیں جائیں۔بیرونِ ملک اورملک کی دیگر ریاستوں کی نسبت جموں کشمیر میں شاعر اور ادیب کو اُس نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا جس کے یہ مستحق ہیں۔ معاشرتی زندگی کے ارتقاء اور تبدیلی کے عمل میں شاعر اور ادیب کا ایک اہم اور بنیادی کردار ہے۔اور آج شاعری کے عالمی دن کے موقع پر یہی امید کی جا سکتی ہے سرکاری اور غیر سرکاری ادبی انجمنیں اور شعرا ء و ادیب خواتین وحضرات نئے لکھاریوں کی ادبی پیاس بجھانے کے لیے ضروراپنی علمی نہروں کے چند قطروں سے نوازتے رہیں گے تاکہ ادب میں شعری معیار کو قائم رکھا جا سکے۔
نوٹ: کالم نویس شاعر،ادیب، براڈکاسٹر اور صحافی ہیں۔