عصر حاضر میں فون اور انٹرنیٹ کی سہولیات میسر ہیں اور لوگ بے تکلف ہر خطے کے لوگوں کے ساتھ دوستی جوڑ سکتے ہیں اس سے عرب وعجم کی مسافت بھی قربت میں تبدیل ہوئی اورگلوبل دنیا ایک مٹھی میں آگیا ہے۔ ان وسائل کوبروئے کار لاکر لو گ آرام اور راحت محسوس کرتے ہیں اس کے علاوہ ان وسائل سے انسان ہر طرح کے علوم و فنوں کا بخوبی اور بہ آسانی مطالعہ کرسکتا ہے اور ہر طرح کے معاملات کا حل بھی نکال سکتا ہے .اس طرح سے یہ آسانی اور سہولیات فراہم کرنے والے سائنس دان واقعی مبارک بادی کے مستحق ہیں اور یہ قوم ان کی اس محنت و مشقت کی مرحون منت ہے.
لیکن بدقسمتی کی وجہ سے یہ سہولیات جاہل صفت انسانوں کے ہاتھوں میں آگئے ہیں جنہوں ان کا غلط استعمال کرکے ان وسائل کو معاشرتی تباہی کاموجب بنادیا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہر مذہب و مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ پردہ داری کے ساتھ رہتے تھے لیکن نئی نسل نے فون کو استعمال میں لا کراس پردہ داری کویکسرختم کیا۔جس سے انسانیت شرمسار ہوجاتی ہے۔اسی طرح سے انٹرنیٹ کی سماجی وئب سائٹس جیسے فیس بک، واٹس اپ،ٹیویٹر،سکائے اپ اور میسنجر کاایساغیر ضروری ااستعمال کیا جاتا ہے جو ہر صورت میں انسانیت کے منافی عمل ہے َسوشل میڈیا کی ان ویب سائٹس کے ذریعے خود ساختہ صحافی بھی بن گئے ہیں جب اور جہاں وہ چاہئے اک آں میں کسی بھی ذی عزت شخص کی عزت خاک میں ملاسکتے ہیں.
یہ فتنے آئے روز ہمارے سامنے سے گذرتے ہیں المیہ یہ ہے کہ ان سماجی ویب سائٹس کے ذریعے لڑکیوں کے فوٹو اپ لوڈ کئے جاتے ہیں یا لڑکیاں بذات خود اپنے برہنہ فوٹو اپ لوڈ کر کے سماج میں بے حیائی اور بے راہ روی کو فروغ دے رہی ہیں۔حالانکہ والدین اپنے بچوں کو یہ سہولیات اس لئے فراہم کرتے ہیں تاکہ ان کے بچے زمانہ حاضر کے چلینجوں کا آ سانی سے مقابلہ کرسکیں۔ٹھیک ہے کہ والدین نے اپنے ان نور چشموں کو یہ سہولیات فراہم کئے لیکن اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہے کہ وہ اس کاغلط استعمال کریں تو والدین یہ جان کر بھی خاموش تماشائی بیٹھیں گے؟۔
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ عالمی سطح پر ان ذرائع کاغیر ضروری استعمال ہورہا ہے ان سماجی بے راہ رویوں کا اثر براہ راست وادی کشمیر پر بھی پڑا ہوا ہے اس وادی میں بے راہ روی نے ایسا جال بچھایا ہے کہ ہر طرح بے اطمینانی سی کیفیت طاری رہتی ہے اور ہر سو بے حیائی کے منظر دکھائی دے رہے ہیں۔اب ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ جو سیلاب آمڈ آیا ہے اسکو روکنے کیلئے انفرادی اور اجتماعی طور اٹھ کھڑا ہونا ہے بالخصوص والدین کو اس میں اہم رول ادا کرناہے اور سماج کے دانشوروں،مذہبی پیشواؤں اور مفکروں کو واعظ وتقریر کے ساتھ ساتھ عملی میدان میں آناچاہئے اور لائحہ عمل ترتیب دیکر ان بے راہ رویوں کیخلاف مہم کا آغاز کریں۔سرکاری طورطلبہ پر وئب سائٹس کا غیر ضروری استعمال کرنے کیلئے جاری شدہ احکامات کو بروئے کارلاکرپابندی عائد کرنی چاہئے اور اسکولوں،کالجوں میں موبائیل فون اگر استعمال کئے جائیں تو نئی ٹیکنالوجی کے ذریعے جانچ پڑتال کی جائے تو عین ممکن ہے کہ ہمارا سماج ایک بار پھر صیح ڈگر پرآجائے گا۔