از قلم: منتظر مومن وانی
بہرام پورہ کنزر
رابط:6006952656
کارواں زندگی میں ہمیں روز کچھ ایسے مسائل دیکھنے کو ملتے ہیں جن کو سنجیدگی سے لیا جائے تو انسان کا احساس نیم بسمل کی طرح پھڑک جاتا ہے. اگرچہ علمی ترقی کا دعوا چاروں طرف سے گونج رہا ہے لیکن اخلاقی اور انسانی احساس بہت لاغر ہوچکا ہے. کل مجھے ماگام سے ایک گاڑی میں سفر کرنے کا موقعہ ملا.
اس گاڑی میں ایک سفید ریش بزرگ اور اس کی بیٹی بھی سوار تھی. پچھلے سیٹ پر ہماری یہ بہن ایک وزن دار اٹیچی ہاتھ میں لے کر انتہائی تھکاوٹ کا اظہار کررہی تھی. اس اٹیچی کو گاڑی میں بھرنے کےلیے میں نے تھوڑا مدد کیا . اس بہن سے میں نے ہنستے ہنستے پوچھا شاید خوشیوں کا موسم سر پر ہے اسی لیے اتنی بڑی اٹیچی خریدلی ہے تو جواباً اس قوم کی بیٹی نے آہ بھرے لفظوں میں کہا کہ بھائی اس رواج نے قوم کی بیٹیوں کو بے بس بنا دیا ہے.
یہاں بزرگ والدین مجبوریوں کے عالم میں قید ہے. اس بزرگ باپ کے چہرے کی طرف میں دیکھ رہا تھاجس پر اس قوم کے تعلیم یافتہ طبقے کےلیے ہزاروں سوال اور شکوے درج تھے. اس چہرے کو پڑھ کر یہ واضح ہوتا تھا کہ بیٹی کا باپ ہونا دور جدید میں انتہائی مصیبت ہے کیونکہ اس رواج اور مردہ احساس سے لگتا ہے کہ ہم نے دورجاہلیت کی تقلید کرکے تمام حد پار کیے ہیں. اس بیٹی کے چہرے پر کئی شکوے عیاں تھے جو نام نہاد تعلیم یافتہ طبقے کے لیے شرم کی بات ہے.
کیا یہ تعلیم اتنی کمزور ہے کہ تعلیم یافتہ طبقے نے جہیز اور دوسری رسموں کو فروغ دے کر بزرگ والدینوں کو شاہراہ بے بسی پر کھڑا کیا, اس تعلیم یافتہ طبقے کی وجہ سے اب ہماری بیٹیوں کے ہاتھ مہندی کے لیے ترس رہے ہیں. ہمارے والدین اس دہشت ے شکار ہوئے ہیں کہ رسم ورواج کی اس آندھی سے ہماری زندگی بے بس بن گئی ہیں.یہ رواج اس قدر ہم پر غالب ہوا ہے کہ بے شمار بیٹیاں عمر کی حد پار کرچکی ہے اور وہ قیامت کے دن انصاف کی عدالت میں تعلیم یافتہ طبقے کا گریباں پکڑ کر یہ دعوا کریں گےکہ اس طبقے نے ہمارے ارمانوں اور خوشیوں کو بے رحمی کے ہاتھوں سے قتل کیا ہے.
اس رواج کو پیروں تلے روندھنا چاہیے جو سفید ریش بزرگوں کو پریشانی میں مبتلا کرے. جو رواج بنت حوا کا سکون چھین کر خود کشی کے راستے پر کھڑا کرے. اس تعلیم اور رواج نے ہماری ماووں کو بے بس بنا دیا کیونکہ ان کے پاس چار یا پانچ بیٹیاں مہندی لگانے کی منتظر ہیں.بہرحال اس درد کو جتنا الفاظوں کے سانچے میں ڈالا جائے یہ بڑھ جائے گی.کہنا یہی ہے کہ آو مل کر اس رواج کو ختم کریں اور سادہ نکاح کا مزاج گھر گھر میں آباد کریں گے. اس اٹیچی کی طرف دیکھ کر مجھے احساس ہوتا تھا کہ اس میں بابا جان کے ارمان اور لاچاری موجود ہے.