از قلم : محمد عامر راہ
متعلم : شعبہ اردو کشمیر یونیورسٹی
پتہ : گنڈی نوروز بجبہاڈہ۔
موبایل نمبر: 9622744854
اگر خالی شہرت کے پیچھے دوڈو گے
تو پھر اک دن زلت میں جھکڑو گے۔
میں اُس شہر میں رہتا ہوں جہاں تعلیم یافتہ جوان بچے(جن پہ قوم کی ترقی کا انحصار ہوتا ہے) دوسروں کے عیب ڈھونڈنے میں اور اُن کو منظرِعام پر لانے میں مشغول ہیں۔ تعلیم حاصل کرنے کا اصل مقصد کیا ہے؟ بڑی بڑی ڈگریاں کر کے بھی اس سوال کے جواب سے بے خبر ہے۔
دوسروں کے عیبوں کو ہر بار اُچھالا کیوں تو نے۔
اپنے ہر اک عیب کو سینے میں چُھپایا کیوں تو نے۔
سُنن ترمزی میں روایت موجود ہے۔راوی حدیث ابو ہریرہؓ ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
جس نے کسی مسلمان کی دنیاوی تکلیف دور کی ۔ اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دور فرما دے گا۔ جس نے دنیا میں کسی تنگ دست کے ساتھ آسانی کی الله تعالیٰ اس کے ساتھ دنیا اور آخرت دونوں میں آسانی کرے گا۔ اور جس نے دنیا میں کسی مسلمان کے عیب کی پردہ پوشی کی الله تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کے عیب کی پردہ پوشی کرے گا۔ جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے الله تعالی اس کی مدد میں ہوتا ہے۔
مگر کشمیرکے نوجوان کہتے ہے کہ دوسروں کی تزلیل کرنا ہماری کلاکاری اور ہمارا پیشہ ہے۔ کسی کو بولنے میں اگر کوئی دِقت ہوتی ہے یا کسی کو چلنے میں یا کسی کو کوئی اور مسلہ ہوتا ہے۔ یہ اُن کی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔اور اُن کو ایک ویڈیو بناتے ہیں جس میں اُن کے ہر ایک کمزوری پہ الگ الگ طریقے سے مذاق اُڈاتے ہیں۔ تعجُب کی بات یہ ہے کہ معاشرے کا بڑا تعداد ان لوگوں کو سچ میں کلاکار سمجھتے ہے۔ اِن کو ہر محفل میں سراہتے ہیں ۔
جن لوگوں نے معاشرے میں تاریکیاں ختم کی ہے اور سماج کو روشن کیا ہے۔ اُن کو نظر انداز کر کے سوشل میڈیا پر ان کم عقلوں کو واہ واہ کرتے ہے۔اِن کی یہ غلط حرکت ہمارے سماج کے آنے والے کل کو تباہ کر سکتی ہے۔کیونکہ چھوٹے چھوٹے بچے جو ہمارا مستقبل ہے انہیں دیکھ کر اس غلط کام میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔مگر جب گھر کے سربراہ ہی شام کو بچوں کے سامنے ان نادانوں کی ویڈیوذ دیکھے گے اور ٹھاہ ٹھاہ کر کے ہنسے گے تو بچوں پہ کہاں مثبت اثر پڑے گا۔
ہم میں سے نہ کوئی معصوم ہے نہ کوئی عیوب و نقائص سے پاک ہیں۔ہمارا اسلام ہمیں درس دیتا ہے دوسروں کے عیب چُھپانے کا۔مگر آفسوس ہم اس کے برعکس کرتے ہیں۔
ایک انسان کو الله تعالیٰ نے بہت سی نعمتیں عطا کی ہے۔ مگر الله تعالیٰ نعمتیں چھیننے پر بھی قدرت رکھتا ہے۔ ہم سماج میں دیکھتے ہیں کہ بہت سارے لوگ ایسے ہیں جو کچھ بول نہ پاتے ہیں ۔ بہت ایسے ہوتے ہیں جو کچھ سُن نہ پاتے ہیں یا بہت سارے ایسے ہوتے ہے جو کچھ دیکھ نہ پاتے ہیں۔ان لوگوں کو دیکھ کر ہمیں الله تعالیٰ کا شُکر ادا کرنا چاہئے اور الله تعالیٰ کی ان نعمتوں کا صحیح استعمال بھی کرنا چاہئے ۔یاد رکھنا چاہئے کہ اگر ہم دوسروں کو تکلیف دے گے یا کسی کے عیب کو دوسروں تک پہنچائے گے تو الله رب العزت ہمیں اس نعمت سے محروم کرسکتا ہے۔ (یعنی بات کرنے کی صلاحیت کو چھین سکتا ہے)۔
جو لوگ دوسروں کا مذاق اُڈاتے ہیں اُنہیں سونچنا چاہئے کہ الله تعالیٰ نے ہم پہ کرم کیا ہے کہ ہمیں ایسی زبان عطا کی جس سے ہم لوگوں کو بے عزت کرنے کے بغیر بھی کچھ کر سکتے ہے ۔جس سے ہمیں بھی فائدہ ملے گا اور سماج کو بھی ۔
۔کیا دینی معلومات عام کرنا ٹھیک نہیں تھا ؟
۔کیا صحابہ ؓ کی سیرت کو عام کرنا ٹھیک نہیں تھا؟
۔کیا سماجی برائیوں پر بات کرنا ٹھیک نہیں تھا؟۔
مگر آفسوس صد آفسوس ہمارا نوجوان الله کی نعمت کا صحیح استعمال کہاں کرتا ہے۔ یہ وہ کام کرنے پہ فخر محسوس کرتا ہے جس سے اُسے یہاں بھی اور وہاں بھی خسارہ اُٹھانا پڑے گا۔ نہ کہ وہ کام جو اس کی سُرخروی کا باعث بنتا ۔
تعلیم یافتہ نوجوان اور ناخواندہ نوجوان میں فرق ہونی چاہئے ۔تعلیم یافتہ نوجوان سے سماج کے باقی افرادوں کو خیر کی توقع ہوتی ہے۔تعلیم یافتہ نوجوان کی نظر وسیع ہونی چاہئے ۔یہ مغربیت کے فتنے کا شکار قطعاً نہیں ہونا چاہئے ۔اس کو اپنا قیمتی وقت سماج کی بہتری کے لیے صرف کرنا چاہئے نہ کہ لوگوں کو پرینک (prank) یا روسٹ (roast) کرنے میں۔
یہ پرینک (prank) اور روسٹ(roast) وغیرہ غیر اخلاقی فتنے مغرب سے ہی آئے ہیں۔ ١٧٧۴ء میں الیکزینڈر گرام بیل (Alexander graham bell) کی ایجاد کے آٹھ سال بعد ہی ایک مغربی بیوقوف نے پرینک کالز (prank calls) کرنا شروع کی۔ وہ لوگوں کو جھوٹ بولتا تھا، فُلاں شخص کا انتقال ہوا ۔ لوگ ڈھونڈنے نکلتے تھے مگر وہ اُس کو زندہ پاتے تھے۔پھر ١٩٦٠ء کے بعد یہ ناسور دیگر ملکوں میں بھی عام ہونے لگا۔
سنن ابئ داود میں حدیث شریف موجود ہے۔ عمر ؓ فرماتے ہے کہ رسول رسولﷺ نے فرمایا جو شخص کسی قوم کی مشاہبت اختیار کرتا ہے وہ اُنہی میں سے ہے۔
الله تعالیٰ ہم سب کو مسلمانوں کے ساتھ ہی رکھے اور وہاں بھی مسلمانوں کے ساتھ ہی اُٹھائے۔ پرینک کال کرنے والا مغربی غیر اخلاقی شخص کی مُشاہبت اختیار کرتا ہے۔ جو بھی نوجوان اس غیر اخلاقی فتنے میں مبتلا ہےاُنہیں جلد از جلداس فتنے سے اجتناب کرنا چاہئے ۔ تاکہ الله تعالیٰ اُن کو وہاں مسلمانوں کے ساتھ ہی شمار کرے نہ کہ ان مغربی بداخلاقوں کے ساتھ۔