پیٹ پیچھے تو یہاں باتیں بنائے ہیں لوگ
سامنے آ کے مگر ہاتھ ملائے ہیں لوگ
کون فریاد سنے گا کسی کی دنیا میں
اس زمانے میں خدا خود کو بناۓ ہیں لوگ
ٹوٹ جائے گا بھرم سب کا یہاں ساقی
اب اصلی صورت اور چہرہ جو چھپائیں ہیں لوگ
خوف سینے میں لئے ہیں سبھی اب دنیا میں
درد بے حد اپنے سینوں میں چھپائے ہیں لوگ
راز وہ جانتے ہیں سب جو ہے انسان یہاں
اب تلک راج ستم کا ہی چلائے ہیں لوگ
لوگ دیوانے ہیں دیوانوں کو کیا کوئی کہے
گھر یہ خوشیوں سے بھرا میراجلائے ہیں لوگ
کسِ کو بتلائیں یہاں اپنی یہ حالت منظؔور
ہم کو ہر موڑ پہ یاں اب تو ستائے ہیں لوگ
منظورؔ نونہ مئی
کولگام کشمیر