الطاف جمیل ندوی
زندگی کی ابتداء کے ساتھ ہی انسانی زندگی میں وہ لمحات آتے ہیں جو انسانی فطرت کے عین مطابق ہوتے ہیں جن کے آنے سے یا نہ آنے سے ہی انسان کے قد کاٹھ کا اظہار بھی ہوجاتا ہے. خیر یہ پہلو انسانی صفت سے مزین مرد و خواتین دونوں کے لئے ہی ہے پر آج کے اس دور میں جبکہ ایک سسٹم کی چھتر چھایا کے نیچے بیٹھ کر انسانوں کی قبیل میں بناؤ اور بگاڑ ایک ساتھ منزل کی جانب گامزن ہیں عجیب لفظ ہے نابلکل حیرت و استعجاب کی ہم اپنی بات کہہ سکتے ہیں اور موقع ومحل کے ساتھ رکھ بھی سکتے ہیں کہیں بھی اور کسی بھی جگہ پر اس بات کا خیال رکھنا کہ جو عزت و وقار آپ کے پاس موجود ہے اسے کسی کے کہنے پر کسی صورت بھی آدمی برباد نہ کر دے یہ کمال کا ہنر ہے کہ انسان اپنی عزت و وقار کے تحفظ کے لئے کوشاں رہ جائے.
پر ایک عجیب مخلوق کا ورود اس دنیا میں اب ہوا ہے جسے سکون نہیں ملتا تب تک جب تک آسمان کی بلندی سے زمین پر گر نہیں جاتا اور گرنے کے بعد پکارتا ہے کہ لو میں کیوں گر گیا بات ہورہی ہے انسانی حقوق کی دھائی دینے والی مخلوق کی جو اس نعرے کے ساتھ انسانیت کو حیوانیت تک کا سفر کرانے کی تمنا دل میں لئے اپنی منزل کی اور گامزن ہے. پر المیہ یہ ہے کہ ہم میں سے بھی ایک قسم ایسی پروان چڑھ گئی ہے جن کا کام ہی ہے ہر روز نئے نئے تماشے کرنا مرد و خواتین اس سلسلے میں یکساں مشغول ہیں .
یوم خواتین کے حوالےسے چلے ان کو صلواتین سناتے ہیں. یہ اسلام کے سائے میں ہوں تو ماں بہن بیٹی بیوی کے نام سے اسلام نے اس کی حدود کو طے کیا ہے.
جب تک صنف نازک کی یہ مخلوق ان حدود کی پاسداری کرتی ہے تب تک اس کی عزت و وقار کا تصور اسلام نے پوری مسلم دنیا کے لئے تیار کر رکھا ہے خواہ وہ مسلم دنیا کے کسی بھی حصے کے مسلم ہوں ہاں جوں ہی یہ اپنی حدود سے تجاوز کرکے کسی اور منزل کو پانے کی چاہ لے کر باغی بن جاتی ہے تو اسی وقت اس کے لئے یہ نوید گونجتی ہے تو اب اپنے حقوق سے دستبردار ہوگی اب تیرے لئے کوئی اور منزل ہے نہ تو ماں بیٹی ہے نہ کہ بہن یا بیوی یہ حدود تو نے ازخود چھوڑ دے ہیں جا جہاں تیرا جی چاہئے پر تیری دنیا کا اب کیا ہوگا اس کا ذمہ بھی تیرے ہی سر رہے گا.
کچھ وقت سے مغربی تہذیب اس قدر پرواز کر رہی ہے کہ ہماری ماں بہن اور بیٹیوں کے منہ بھی پانی سے بھر گئے اور انہوں نے نقالی شروع کردی مغرب جہاں عورت کو حیا باختہ ماحول کے ساتھ تربیت دی جاتی ہے اپنی ذلت و عریانیت رسوائی اور بے حیائی اور تار تار دامن کے ساتھ سسک رہی ہے. پر حرف شکایت کی اس میں سکت نہیں بس مغرب نے اسلام کی بیٹیوں کو اپنی تہذیب کی آغوش تک لانے کے لئے مختلف حیلے تراشے اور مختلف در وا کردئے اور بنت مسلم کو سبز رنگ کے سائے میں رہ کر زلت و رسوائی کی دنیا تک لانے کے لئے مشغول ہوگئے. ہمارے اسلام کی بیٹیوں کی ایک بے بس جن کی اپنی ویران دنیا نے انہیں ظلمت کی لپیٹ میں رکھا ہوا ہے نے ان کے شانہ بشانہ کھڑا ہونے کے لئے حیائی سوز نعرے تیار کئے اور ہر کس و ناکس کو بربادی کی اور بلانا شروع کردیا.
اب اسی کو یوم خواتین کے نام سے پکارا جاتا ہے شکر ہے کہ اسلام کی بیٹیاں اب بھی پورے سکون اور قد کے ساتھ اسلام کی آغوش میں رہنے کو ہی ترجیح دیتی ہیں یہ الگ بات ہے کہ اسلامی ناموں کے ساتھ کچھ خواتین سایہ اسلامی سے دور بہت دور نکلنے کو تڑپ رہی ہیں.
پر حیرت یہ ہے کہ کچھ مرد نما لوگ بھی ان کے حقوق کی بازیابی کو لے کر ان کے اس فضول کنونشن کی اور دوڑ لگائے ہوئے ہیں اور آہیں بھر بھر کر خواتین کے حقوق کے لئے اپنا گلہ خشک کردیئے ہیں کوئی ان مشٹنڈوں سے پوچھے تو صحیح کہ کیا تمہاری خواتین بھی ایسی منڈی میں چلی آتی ہیں یا تم کتے کی طرح ہڈی دیکھی نہیں کہ رال ٹپکنے لگی والا طریقہ اختیار کرکے اپنی تسکین کے لئے اس خاتون کو استعمال کر رہے ہو اور اس منڈی کو فروغ دینے کے لئے آہین بھر رہے ہو
آئے اسلام کی بیٹیوں
تم مائیں بن کر دیکھو
بہن بیٹی کی طرح دیکھو
کسی کی شریک حیات بن کر دیکھو
اور پوچھو اپنے اس بنانے والے رب کریم سے کہ تمہارے کیا حقوق ہیں تمہاری کیا ذمہ داریاں ہیں تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو دیکھ لو تمہیں اس جہاں میں اسلام اپنے رحمت نہ لگئے تو کہنا تمہیں سکون دل میسر نہ ہو تو کہنا بس تم سوچ کر سمجھ کر آغوش اسلامی میں رہ کر تو دیکھو.