الطاف جمیل ندوی
۲۶ فروری کو صبح صبح ہی یہ نوید مسرت سنائی دی کہ ہماری وادی کے دسویں جماعت کے طلبہ و طالبات کی کامیابی و ناکامی کا اعلان ہوچکا ہے تو اس لحاظ سے سوشل میڈیا پر مبارکبادیاں پیش کی گئی ہر جگہ یا تو مبارکباد لکھی گی یا انگریزی زبان میں congratulations یا best wishes جیسے الفاظ کا تبادلہ ہوتا رہا کسی نے اپنے بچوں کی کامیابی پر اظہار مسرت کیا تو کسی نے اپنے کسی عزیز کی کامیابی پر خوشی کا اظہار اچھی بات ہے کہ بچوں کی حوصلہ افزائی کے لئے ان کی چھوٹی یا بڑی کامیابی پر ان سے اظہار محبت کرنا ان معصوم بچوں کو حوصلہ دینے کے لئے اہم ہے.
ان کی کامیابی پر انہیں تہنیت دینا ایک طرح سے انہیں تحریک دینا ہے مزید کامیابی سمیٹنے کے لئے اکثر یہ سب ہوتا رہا ہے کہ جب بھی خاص کر دسویں یا بارہویں جماعت کے نتائج ظاہر کئے جاتے ہیں تو بچوں میں امید اور خوف کی کیفیت یکساں ہوتی ہے تب تک جب تک انہیں آئے نتائج معلوم نہیں ہوتے اپنے بارے میں اب جوں ہی انہیں معلوم ہوجاتا ہے یا تو کھل کھلا جاتے ہیں. چہرے ان کے اپنی کامیابی کی نوید سن کر یا مرجھا جاتے ہیں ان کی پیاری اور حسین صورتیں پر امسال آئے نتائج اس لحاظ سے کچھ زیادہ اہم نہیں ہیں اہل تفھیم کی نظر میں کیونکہ پورے سال کبھی طلبہ نے ایک لفظ بھی اساتذہ سے نہیں پڑھا پورے سال طلبہ نے تعلیم سے آشنائی تو کیا ملاقات تک بھی نہیں کی اور آخر پر انہیں کامیابی اور ناکامی کی نوید سنائی گئی. جب کہ سوائے پرچہ دینے کے طلبہ نے کبھی اسکول کالج کو مسلسل ایک سال تک دیکھا بھی نہیں خیر یہ ایک ایسا نقصان ہے کہ جس کی بھرپائی کرنا ممکن ہی نہیں کیونکہ ایک سال بیکار ہوجانا یا تعلیمی کوششوں سے دور ہوجانا نقصان ہے.
پر جو ہوگیا سو ہوگیا اب اس پر آنسو بہانے سے کیا ہوگا اصل میں ہماری تعلیمی پالیسی ہی کچھ ایسی ہے کہ جہاں یہ ممکنات میں سے ہے کہ تعلیم کا کچو مر ہی کیوں نہ نکل جائے تو بھی ہم خوشی سے پھولے نہیں سماتے کہ ایسا ہوا ہے مغربی ممالک کے ساتھ ساتھ ایران چین وغیرہ جیسے ممالک میں تعلیمی اداروں نے کوشش کی کہ بچوں کو دوران لاک ڈاؤن تعلیم سے محروم نہ ہونے دیا جائے اس کے لئے انہوں نے جہاں مختلف کام کئے وہیں انہوں نے انٹرنیٹ کے ذریعے بچوں کو تعلیمی سرگرمیوں میں مصروف رکھا اس کے لئے کسی خاص کلاس کی تخصیص نہیں کی گئی بلکہ پہلی کلاس سے آخری کلاس تک کے بچوں کو تعلیمی سرگرمیوں میں مصروف رکھنے کی کوشش مسلسل کی گئی.
ہم اپنی وادی کی بات کریں تو ہم اس سلسلے میں انتہائی بدنصیب لوگ ہیں کہ اس تیز رفتار اور ترقی پذیر دور میں بھی ہمیں انٹرنیٹ سے فائدہ اٹھانے کے لئے لیپ ٹاپ موبائل میں سگنل آنے کے لئے اس قدر انتظار کرنا پڑتا ہے کہ بال سیاہ سے سفید تو ہوجاتے ہیں پر انٹرنیٹ سگنل کو نہیں آنا ہوتا ہے وہ آتا نہیں ہے نتیجہ پہلے ہمارے لمحے پھر دن پھر مہینے اسی انتظار میں بیت جاتے ہیں کہ کب سگنل آجائے اور میں پڑھنا شروع کر دوں پر اسے نہیں آنا تھا نہیں آیا اور بچے دیکھتے ہی رہ گئے .
ہمارے ہاں بھی تعلیمی اداروں کے اساتذہ نے زوم یا ویڈیوز کے ذریعے پڑھانے کی کوشش کی پر نیٹ کا سگنل نہ ہونے کے سبب یہ تعلیم سے زیادہ وقت کا زیاں ثابت ہوا کئی ایسے بچوں کو بھی دیکھا کہ جو آنسو بہا رہے تھے کہ اب کیا ہوگا ہماری پڑھائی کا بہرحال تعلیم کے نہ ہوتے ہوئے بھی ہمارے بچے کامیاب ہوگئے یہ ایک معجزہ یا کرامت ہی ہوسکتی ہے اب ایسا کیا کیا جائے کہ تعلیم کی یہ کمی پوری ہوسکے اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم خود کو اس بات کے لئے آمادہ کرلیں کہ تعلیم کی اپنی اہمیت ہے اور ہماری کامیابی اسی میں ہے کہ ہم علم کے زیور سے آراستہ ہوجائین ایسا نہیں کہ صرف ڈگری حاصل کرنے کی دوڑ لگا کر ہم صاحب استعداد ہیں یہ سوچ و فکر انتہائی درجہ کی پستی کی علامت ہے کہ ڈگری حاصل کرکے کوئی کبھی کمال کرسکے ایسا نہیں ہوا ہے.
جو لوگ بھی علمی دنیا خواہ وہ دنیاوی علوم ہوں یا مذہبی علوم دونوں کے لئے ایک چیز لازم ہے کہ مسلسل اس تاک میں رہا جائے کہ علم سے مزید آشنائی کے ذرائع میسر ہوں اور ان سے فائدہ اٹھایا جاسکے مطالعہ کتب علم کی دنیا کا سب سے کارآمد وسیلہ ہے مطالعہ سے ہی آدمی کسی بھی بات کو سمجھ سکتا ہے جیسے کہ گر آپ پی ایچ ڈی کسی بھی شعبہ یا شخصیت پر کر رہے ہیں اس کے لئے لازم ہے کہ آپ اس شعبے یا شخصیت کا خاکہ بنانے کے لئے اس بارے میں مکمل معلومات رکھتے ہوں اور معلومات سوائے مطالعہ کتب کے میسر ہونا ناممکن ہے آپ چاہیں کتاب نیٹ پر پڑھیں یا کتاب اصلی صورت میں پڑھیں دونوں صورتوں میں کتاب تو پڑھنی ہی پڑھنی ہے اس کے سوا کوئی صورت ہے ہی نہیں معلومات کی جو تعلیمی نقصان امسال کرؤنا وائرس کے چلتے ہوا ہے اس کا ازالہ کرنے کے لئے آپ سب پیارے بچوں کو مزید محنت کرنے کی ضرورت ہے
تعلیم سے ہی ہے وجود اقوام عالم
تعلیم زندہ اقوام کی زندگی کے لئے ایسی ہی حیثیت رکھتی ہے جیسے کہ انسانی جسم کے لئے اس کا سانس لینا لازم ہے اس کی نگاہ کے لئے روشنی ایسے ہی تعلیم بھی لازم ہے میں اپنے ان پیارے اور ذہین و فطین بچوں سے مخاطب ہوں جو وادی کشمیر یا بیرون وادی کے مکین ہیں پہلی بات جو آپ کو سمجھنا لازمی ہے آپ کسی بھی مذہب کی مقدس کتاب کو لے لیجیے تعلیم کے لئے ہر مذہب ترغیب ہی دیتا ہے اسی طرح ہمارے دین اسلام میں تعلیم کی بہت زیادہ اہمیت بھی اور فضائل بھی بیان کئے گئے ہیں آپ قرآن کریم احادیث سیرت طیبہ یا فقہ میں سے کوئی سی بھی کتاب اٹھائیں ہر جگہ تعلیم کے سلسلے میں ترغیب کے احکام و فضائل واضح بھی اور اشارے کنایہ میں بھی مل جائیں گئیں اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ خواہ کچھ بھی ہو تعلیم کے سوا اہل ایمان کو چارہ ہی نہیں تعلیم کے سلسلہ میں ہمارے اسلاف نے کس قدر آلام و مصائب برداش کئے یہ معلومات ہم آسانی سے ان کی کتابوں سے حاصل کرسکتے ہیں یہ فرائض سے بھی ہے اور سنن واجبات آپ جہاں چاہیں اس کے احکام مل جائیں گئے آسان لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں بنا تعلیم کے ہمارا ایمان مکمل ہونا محال اور دشوار ہے جہالت اور لاعلمی اسلام میں ایک نا پسندیدہ کام ہے جس کی حوصلہ شکنی کرنا اہم ہے.
والدین کی خوشی
آپ کے والدین اپنا وجود کھو دیتے ہیں رات دن محنت و مشقت بھوک پیاس برداشت کر لیتے ہیں اس امید کے ساتھ کہ ہمارے بچے کامیاب ہوکر ہمارے مصائب کا مداوا کریں گئے کیا آپ نے کبھی یہ تصور کیا ہے کہ آپ کے والد جو صبح سویرے ہی گھر سے نکل جاتا ہے اور دن پر بھر کام میں مصروف رہ کر تھکاوٹ سے چور ہوکر شام کو گھر پہنچ جاتا ہے وہ آپ کو خوشیاں میسر رکھنے کے لئے اپنا آرام اپنا درد اپنی کمزوری اپنی خواہشات کا گلہ گھونٹ دیتا ہے کبھی آپ نے سوچا ہے کہ گر آپ اس کی امیدوں کو پورا نہیں کرتے یا اس کے لئے کوشش بھی نہیں کرتے تو یقین کریں آپ کا والد ٹوٹ کر بکھر جاتا ہے پر آپ کو احساس تک نہیں ہونے دیتا پر یہاں والدین کی بھی ذمہ داری ہے کہ فضول قسم کے مشورے دے کر بچے کو پریشان نہ کریں اپنی تمنائیں سوچ کر ان کی تکمیل کے لئے اپنے بچوں کو مختلف کورسسز کرنے کے لئے دباؤ نہ ڈالیں اس صورت میں بچہ پڑھنے کے بجائے الٹا پریشان ہوکر اپنی پسند سے بھی دور ہوجاتا ہے نتیجہ نہ ہی ادھر رہتا ہے نہ ادھر مثال کے طور پر بچے کی خواہش ہے اور اسکی پسند بھی کہ یہ انجینئر بن جائے اس کے لئے بچہ ہر طرح کی کوشش از خود کر رہا ہے پر اچانک والدین کہہ دیں کہ نہیں بیٹا آپ کو ڈاکٹر کسی صورت بھی بننا ہے تو یقین کریں بچہ کچھ بھی نہیں بنے گا الٹا یہ تعلیم سے بیزار ہوجائے گا بہتر ہے جن مضامین میں اس کی کارکردگی اچھی ہے اسے حق دیں ان کا ہی انتخاب کرے.
پیارے بچو
یہ جو ٘اپ اقوام عالم میں سے کچھ ممالک کو کامیاب یا کامیاب ممالک کہتے ہیں یا دیکھتے ہیں اس کے پیچھے بھی ان نوجوانوں کی محنت اور ہمت ہی پوشیدہ ہے جو تعلیم سے آراستہ ہیں ورنہ جاہل و مجہولوں کی افواج کتنی بھی زیادہ ہوں وہ کسی ملک اور قوم کی کامیابی اور فلاح کے ضامن ہو ہی نہیں سکتے آپ بڑے سے بڑے یا چھوٹے سائنس دانوں کو دیکھیں یا ڈاکٹر انجینئر دیکھیں ہر جگہ کامیابی کا واحد ذریعہ ہے تعلیم تو کیوں ہم اس جانب توجہ نہ دیں اور اپنی ملت و قوم کو ملک کا نام روشن کرنے کے لئے خود کو کیوں نہ زیور تعلیم مزین کریں اس میں صرف ہم دوسروں کے لئے ہی نہیں بلکہ خود اپنے لئے بھی کامیابیاں اور عزت نفس کے حصول کی راہ پاتے ہیں