رئیس احمد کمار
بری گام قاضی گنڈ
ندیم اپنے محلے میں ایک باعزت انسان شمار کیا جاتا تھا ۔ محلے میں جب بھی کسی ہمسایہ کی کوئی خوشی ہوتی تھی تو ندیم مبارکبادی میں دیر نہیں کرتا تھا ۔ خاص کر جب کسی ہمسایہ کا بچہ امتحان میں اچھی کارکردگی دکھاتا تھا تو ندیم کچھ زیادہ ہی خوش ہوجاتا تھا اور بچے اور اسکے والدین دونوں کو مبارکبادی اور حوصلہ افزائی میں پیش پیش رہتا تھا ۔۔۔
ندیم کے پڈوس میں رمضان خواجہ بھی رہتا تھا ۔ ایک سال پہلے رمظان خواجہ کی بیٹی ایم بی بی ایس مقابلہ جاتی امتحان میں کامیاب ہوئی تھی تو ندیم اتنا خوش ہوا جیسے اسکی اپنی بیٹی کامیاب ہوئی ۔ ندیم نے خود اسکا داخلہ میڈیکل کالج میں کرایا اور کتابیں وغیرہ بھی خرید کر دئے ۔ ندیم باقی ہمسایوں کے ساتھ بھی انکی خوشیوں کے موقعوں پر پیش پیش رہتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
رمظان خواجہ کے بیٹے بلال کی شادی ہے ۔ تمام ہمسایہ اور رشتے دار خوشیوں میں حصہ لینے کے لئے رمظان کے گھر تشریف لائے ہیں ۔ ندیم کو بھی دعوت نامہ بھیجا گیا ہے لیکن وہ غیر حاضر ہی رہا۔ تمام ہمسایہ اور رشتے دار پریشان ہوئے کہ ندیم ایسا نہیں کر سکتا ہے ۔ آخر کیا وجہ ہے ندیم کی غیر حاضری کی ۔۔۔۔۔۔۔۔
ندیم کی غیر حاضری کی وجہ دریافت کرنے کے لئے رمظان خواجہ اور اسکی اہلیہ خود ندیم کے گھر تشریف لے گئی ۔۔۔۔۔۔۔
رمظان خواجہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ندیم ! ہمیں آپ پر ایسے توقعات نہیں تھے ۔ہمیں پورا یقین تھا کہ آپ ہمارے بیٹے کی شادی میں ضرور شرکت کرو گے اور اس خوشی کا حصہ بن جاؤ گے ۔ آخر کیا وجہ ہے کہ آپ آئے نہیں ؟
ندیم ۔۔۔۔۔۔۔۔ خواجہ صاحب ! یہ کونسی خوشی ہے ۔ابھی تک آپ کا بیٹا بلال ایک پرندے کی مانند آزاد تھا ۔ اب اسکو ایک طرف آپ دونوں میاں بیوی شک کی نگاہوں سے دیکھو گے تو دوسری طرف اسکی بیوی ۔ اب اسکی مثال ایسی ہے جیسی ایک پنجرے میں بند پرندے کی ۔ کوئی چیز ماں باپ کے لئے لانا ہو تو بیوی بے خبر رہنی چاہیے ، بیوی کےلئے کچھ لائے گا تو ماں باپ اور بھائیوں بہنوں کو پتہ نہیں چلنا چاہیے ورنہ دن گزارنے بہت ہی کٹھن ثابت ہوں گے ۔ بیوی ایک الگ گھر بسانے کےلئے روز بلال کو اپنے گیت سناتے رہے گی اور اسکے لئے وہ ہر وقت ہیلے بہانے ڈھونڈتے رہے گی ۔ دوسری طرف آپ لوگ اپنا گھر تباہ و بربادی سے بچانے کی خاطر بجائے موافق اور سازگار ماحول گھر میں پیدا کریں ، بلال کو ہی زمہ دار ٹھہراوگے ۔ گھر سے باہر لوگ تو بلال کی عزت کریں گے لیکن گھر میں سوتیلا سلوک گھروالوں کی طرف سے ملے گا ۔ بلال کی شاید ہی کوئی بات اب گھر میں چلے گی ۔ بیوی کی بات پر ہاں کرے تو ماں باپ بھائی بہن سب مخالف ہوں گے ۔ ماں باپ کی فرمانبرداری کرنے لگے گا تو بیوی کےلئے ایک الگ گھر بسانے کےلئے یہ ایک ٹھوس بہانہ فراہم ہوگا ۔ گھر کے افراد ، ہمسایہ اور رشتے دار سب کی نظریں بلال پر رہیں گی کہ ثابت قدم ہی رہا یا اسکے سوچ میں تبدیلی آگئی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے بہت سے نوجوانوں کو دیکھا ہے جو شادی کے بعد دیوانے بن گئے ۔ بہت سے لڑکوں کو جب اپنے والدین شادی کرنے کے لئے کہتے ہیں تو وہ انہی وجوہات کی بنا پر صاف انکار کرتے ہیں ۔ کیونکہ شادی کے بعد لڑکے کے لئے ہر دن امتحان حال جیسا ثابت ہو رہا ہے اور اس میں کامیاب ہونے کے لئے اسکو بے شمار کٹھن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔
اسی لئے میں کبھی بھی کسی لڑکے کی شادی میں نہ شرکت ہی کرتا ہوں نہ مبارکبادی ہی پیش کرتا ہوں ۔
راقم ایک کالم نویس ہونے کے علاوہ گورمنٹ ہائی اسکول اندرون گاندربل میں اپنے فرائض بحست ایک استاد انجام دیتا ہے ۔