از قلم :منتظر مومن وانی
بہرام پورہ کنزر
رابط:6006952656
وادی کشمیر کے لوگ عرصہ دراز سے مظلومیت کا ستم کاٹ رہے ہیں اور ہر دن ایک نیا فنکار سیاست کا نیا فن لیکر قوم کے معصوم جذباتوں کو اپنے مکروہ ارادوں کے ہاتھوں غلط استعمال کرتا ہے. یہ بات سچ ہے کہ جب انسان مصیبت میں ہوتا ہے تو وہ ہر معمولی چیز پر بھروسہ کرکے اسے اپنا حامی سمجھتا ہے. ہماری سیاسی تاریخ میں کئی ایسے لیڈر آیے ہیں جنہوں نے”نونہ گر تہ تلہء تلاو” کی داستان سنا کر ہمارے خون کا سودا خوشی خوشی سے کیا.ان سیاسی ڈرامہ بازوں اور لہو فروش نمائندوں نے وہ سب کچھ انجام دیا جسے دیکھ کر جنگلی جانور بھی کانپ اٹھتے ہیں.
بہرحال اس وادی میں کس کس دکھ کا اظہار کرکے اسے قلمبند یا اس پر لب کشائی کریں گے. چند سال پہلے جب کشمیر کی تاریک میں کچھ تبدیلی آئی اور نیے چہرے میدان میں اپنے سیاسی دعوا اور دلائل لے کر نظر آئے تو بے بس اور مظلوم کشمیریوں کو امید کی ایک نئی کرن نظر آئی اور ہر فکر اس بات پر آمادہ ہوئی کہ اب شاید زندگی کے خوشحال دن تولد ہونگے. انہی چہروں میں آئی اے ایس میں اول پوزیشن پانے والے ڈاکٹر شاہ فیصل بھی ایک نام تھا. جس پر لوگوں کا اعتماد کچھ زیادہ مضبوط نظر آتا تھا.فیصل کا نعرہ ہوا بدلی نے اب ہمارا بچا ہوا سارا اطمعینان ہی بدل ڈالا. شاہ فیصل نے جس عزم اور ہمت کا مظاہرہ کیا تھا اس کا حرف آخر سراب ہی ثابت ہوا. اعلی مقام کی مالک یونیورسٹی سے تعلیم پانے والے فیصل کے متعلق قوم نے یہی سوچا تھا کہ شاید بڑی مشکل کے بعد چمن کا دیدہ ور پیدا ہوا ہے لیکن ہماری نادانی اس قدر عروج پر ہے کہ "تم دن کو کہو رات ہم رات کہیں گے” کا ڈرامہ ہم نے ہمیشہ مانا ہے. فیصل سے جو امیدیں وابسطہ تھی وہ آخر کار بے ثمر ہی ثابت ہوئی اور دل یہ کہنےپر مجبور ہوا کہ
لباس خضر میں پھرتے ہیں سینکڑوں رہزن
فیصل نے اس حقیقت کو واضیح کیا ہے کہ لیڈر وہی بنتے ہیں جو شیر دل ہو کر قوم کی درد صیح معنوں میں جگر میں پالا کرتے ہیں. باقی خلوص کی کمی اور نیت کے کمزور لوگ کبھی لیڈر نہیں بنتے ہیں. فیصل نے جس طرح سے سب وعدے چند لمحوں میں ختم کیے اس سے قوم کے حوصلے کمزور نہیں ہوئے بلکہ امیدوں کے دنیا میں خزاں کا رنگ نمو دار ہوا. بہرحال ہوا بدلنے والے فیصل نے اگرچہ وعدوں کا ہوا بدل ڈالا لیکن وادی سے باہر کے تعلیم یافتہ طبقے نے وفاداری کی عمدہ مثال قائم کی.جن میں ایک آئی اے ایس آفسیر کنن گوپناتھ جس نے 370 کے منسوخی پر اپنے زندگی کا حسین خواب قربان کرکے احتجاج درج کیا. اس آفسیر نے مثال قائم کرکے فیصل جیسے لوگوں کو اطلاع دیا کہ قوم کا مکمل ترجمان بننے کے لیے انسان کو زندہ ضمیر ہوکر اپنے خوابوں کو ذبح کرنا پڑتا ہے. کنن گوپناتھ نے اب انتظامیہ کی طرف نئی سرے سے کرسی سنبھالنے کی پیشکش کو ہنستے ہنستے ٹھکرادیا. اس چیز نے کئ سوالوں کو جنم دیا.کیونکہ اپنوں سے جڑے توقعات اب کفن میں مردہ نظر آتے ہیں اور دل بار بار کہتا ہے کہ
بنتے ہو وفادار تو وفا کرکے دکھاو
کہنے کی وفا اور ہے کرنے کی وفا اور
اللہ سے دعا ہے کہ اس مظلوم چمن کو ایسا رہبر اور ترجمان عطا کر جو اسلامی مزاج کا حامل ہو اور جس کا دل قوم کی ہمدردی سے بھرا ہوا ہو.آمین