Post Views: 196
تحریر: حافظ میر ابراھیم
مدرس
بارہمولہ کشمیر
6005465614
شاعر نے کہا
روز محشر کی جاں گداز بو
اولین پرسش نماز بود
فتنہ الحاد مسلم معاشرے میں تیز رفتاری سے پھیل رہا ہے۔ یہ فتنہ مختلف صورتوں میں پنپ رہا ہے۔فتنہ الحاد سے مراد ایسا فتنہ ہے جس میں جان اور روح جدا ہو جاتی ہے مطلب یہ کہ نام تو مسلمان ہوگا مگر قلب و جگر میں کفر بس رہا ہوگا۔شیاطین الانس و شیاطین الجن اس فتنے کے پھیلاؤ میں اپنا کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ ایک اعتراض کیا جاتا ہے کہ نماز حقوق اللہ ہے یعنی رب تعالیٰ کا حق، اگر اس میں کوتاہی رہے گی تو اللہ عزوجل معاف کر سکتا ہے۔ اس بات کو میزان شریعت پر رکھا جائے تو یہ قول باطل و مردود ہے۔بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے، اولاً ہمارا ایمان ہے کہ رسول کریمﷺ سید الاولین والآخرین ہیں لیکن نماز کی فرضیت سے وہ بھی خارج نہیں۔ثانیاً تارک نماز پر قرآنی مقدس و احادیث صحیحہ میں مختلف تنبیہات وارد ہوئی ہیں۔ اگر ایک شخص یہ دعویٰ کرے کہ بے نمازی بھی اللہ کا بندہ ہے وہ چاہے تو معاف کر سکتا ہے تو جان لیجئے ایسا شخص جانے انجانے میں قرآنی آیات و احادیث صحیحہ کا منکر بن کر کفر صریح میں مبتلا ہورہا ہے۔ اس روایت کا مطالعہ کیجئے
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه: أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ! لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ آمُرَ بِحَطَبٍ فَيُحْطَبَ، ثُمَّ آمُرَ بِالصَّـلَاةِ فَيُؤَذَّنَ لَهَا، ثُمَّ آمُرَ رَجُلاً فَيَؤُمَّ النَّاسَ، ثُمَّ أُخَالِفَ إِلٰی رِجَالٍ فَأُحَرِّقَ عَلَيْهِمْ بُيُوْتَهُمْ.
(أخرجه البخاري في الصحيح)
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا” قسم اس ذات کی جس کے دست مبارک میں میری جان ہے! میرے دل میں خیال آیا کہ لکڑیاں اکٹھی کرنے کا حکم دوں، پھر نماز کا حکم دوں تو اس کے لئے اذان کہی جائے۔ پھر ایک آدمی کو حکم دوں کہ لوگوں کی امامت کرے، پھر میں ایسے لوگوں کی طرف نکل جاؤں (جو بغیر کسی عذرِ شرعی کے نماز باجماعت میں حاضر نہیں ہوتے) اور ان کے گھروں کو آگ لگا دوں”.
یہ فرمان نبوی ﷺ ہے، اگر یہ فرمان سن کر بھی کوئی خود کو خواب خرگوش میں رکھنا چاہتا ہے تو وہ جان لے جنت حاصل کرنا اتنا آسان ہوتا تو ہمارے اسلاف قربانیاں پیش نہ کرتے۔ اگر پھر بھی اطمنان نہ ملے تو یہ روایت پڑھ لیں۔
عََنْ جَابِرٍ رضی الله عنه، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُولُ: إِنَّ بَيْنَ الرَّجُلِ وَبَيْنَ الشِّرْکِ وَالْکُفْرِ تَرْکَ الصَّلَاةِ.
(أخرجه مسلم في الصحيح)
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا، "بے شک انسان اور (اس کے) کفر و شرک کے درمیان (فرق) نماز کا چھوڑنا ہے۔”
ایک اور شبہ یہ پھیلایا جاتا ہے کہ ہم نبی کریم ﷺ کے امتی ہیں تو رسول کریمﷺ ہماری شفاعت فرما کر ہمیں دوزخ سے نجات عطا کریں گے۔ یہ بھی واضح دھوکا ہے۔ آئیے اس سؤال کا جواب بھی شریعت سے پوچھتے ہیں۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّهُ قَالَ: قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَنْ أَسْعَدُ النَّاسِ بِشَفَاعَتِكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “لَقَدْ ظَنَنْتُ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، أَنْ لَا يَسْأَلَنِي عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ أَحَدٌ أَوَّلُ مِنْكَ لِمَا رَأَيْتُ مِنْ حِرْصِكَ عَلَى الْحَدِيثِ، أَسْعَدُ النَّاسِ بِشَفَاعَتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ، مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ خَالِصًا مِنْ قَلْبِهِ أَوْ نَفْسِهِ”.
(صحیح البخاری)
سیدنا ابوھریرہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! قیامت کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے سب سے زیادہ سعادت کسے ملے گی؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، "اے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مجھے یقین تھا کہ تم سے پہلے کوئی اس کے بارے میں مجھ سے دریافت نہیں کرے گا۔ کیونکہ میں نے حدیث کے متعلق تمہاری حرص دیکھ لی تھی۔ سنو! قیامت میں سب سے زیادہ فیض یاب میری شفاعت سے وہ شخص ہو گا، جو سچے دل سے یا سچے جی سے «لا إله إلا الله» کہے گا۔”
یہاں شفاعت نبوی ﷺ کے لئے ایمان کاملہ شرط ہے اور عمل ایمان میں داخل ہے۔ جب شرط فوت ہو جائے تو مشروط بھی حاصل نہیں ہوتا۔فرمان ربانی ہے کہ "وَ اَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَلَا تَکُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِکِيْنَ”. یعنی "اور نماز قائم کرو اور مشرکوں میں سے مت ہو جاؤ۔” (سورہ روم) اس آیت مبارکہ میں رب تعالیٰ نے تارک نماز کو مشرک کہا ہے اور مشرک پر جنت حرام ہے۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ نماز چھوڑنا بھی شرک ہے۔ نیز فرمایا کہ "مَا سَلَکَکُمْ فِيْ سَقَرَo قَالُوْا لَمْ نَکُ مِنَ الْمُصَلِّيْنََ” یعنی "(اور کہیں گے:) تمہیں کیا چیز دوزخ میں لے گئی۔ وہ کہیں گے: ہم نماز پڑھنے والوں میں نہ تھے”.(سورہ مدثر)
یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ اللہ کا کلام تبدیل نہیں ہوتا، کلام اللہ حق پر مبنی ہے۔اب جو بندہ پھر بھی اسی نحوست میں مبتلا ہے تو وہ درحقیقت رب کائنات کو جھوٹا ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے۔
یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ اسلام کا نظام ناقص نہیں۔ شرعی قوانین بالکل اٹل ہیں جن میں تبدیلی ممکن نہیں۔ شریعت مطہرہ نے ہمیں تاکید کی ہے کہ اگر کھڑے ہوکر قیام نہ کرسکو تو بیٹھ کر نماز پڑھو، اگر بیٹھ نہیں سکتے تو لیٹ کر پڑھو لیکن تارک نماز نہ بن جانا۔صورتحال کیسی بھی ہو نماز معاف نہیں۔یہ بات بھی یاد رہے کہ نماز اسلام کا دوسرا رکن ہے۔ تو کیسے ایک انسان خود کو اس عمل سے بری کرسکتا ہے۔شفاعت نبوی ﷺ کے حقدار صحابہ کرام بھی ہیں بلکہ اولین مستحق لیکن انہوں نے کبھی بھی خود کو عبادات الہی سے محروم نہ رکھا۔ جامع ترمذی میں مزکور ہے کہ "کَانَ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم لَا يَرَوْنَ شَيْئًا مِنَ الْأَعْمَالِ تَرْکُهُ کُفْرٌ غَيْرَ الصَّلَاةِ.” یعنی ” محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب نماز کے سوا کسی دوسرے عمل کے ترک کو کفر نہیں گردانتے تھے۔”
ترک نماز کفر ہے، اس پر صحابہ کرام کا اجماع ثابت ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے کہ "تَـرَاهُـمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّـٰهِ وَرِضْوَانًا ۖ سِيْمَاهُـمْ فِىْ وُجُوْهِهِـمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ” یعنی "تو انہیں(صحابہ کرام کو) دیکھے گا کہ رکوع و سجود کر رہے ہیں اللہ کا فضل اور اس کی خوشنودی تلاش کرتے ہیں، ان کی شناخت ان کے چہروں میں سجدہ کا نشان ہے”.(سورہ فتح)
ایک اور اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ اگر دولت مند یتیموں، مسکینوں پر دولت خرچ کرے، اسے نماز کی کیا ضرورت؟ اولاً کائنات کے سب سے عظیم سخی ہمارے نبی ﷺ ہیں، جب انہیں نماز معاف نہ تھی تو ہم کس کھیت کے مولی ہیں۔ثانیاً کیا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رب کے راستے میں مال خرچ نہیں کیا؟ ہاں کیا، بلکہ سارا کیا۔ کیا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے رب کے راستے میں مال و دولت خرچ نہ کی؟ ہاں کی، اتنی کی کہ جنت کے وارث بن گئے۔ لیکن نماز کے معاملے میں کوئی کوتاہی نہ کرتے۔ ثالثاً کسی عمل کو کسی عمل پر مقدم رکھنا اہل السنہ کا منہج نہیں۔ عقائد اپنی جگہ، عبادات اپنی جگہ، معاملات اپنی جگہ، سیاست اپنی جگہ، معیشت اپنی جگہ، وراثت اپنی جگہ، علم طب اپنی جگہ، حدود و قوانین اپنی جگہ۔اسلام چونکہ مکمل ضابطہ حیات ہے اسی لئے ایک حصہ کو لینا، دوسرے حصہ کو چھوڑنا سراسر گمراہی اور جہالت ہے۔
مالکی اور شافعی علمائے کرام کا کہنا ہے کہ اگر کوئی شخص نماز کا انکار تو نہیں کرتا لیکن سستی اور کاہلی کی بنا پر نماز ترک کرتا ہے تو ایسے شخص کو حد لگاتے ہوئے قتل کردیا جائے گا، یعنی اسکے قتل کے بعد اسکا حکم مسلمان والا ہی ہوگا، اسے غسل دیکر نماز جنازہ پڑھی جائے گی، اور مسلمانوں کے ساتھ دفن کیا جائے گا۔حنبلی کہتے ہیں کہ سستی اور کاہلی کی وجہ سے نماز ترک کرنے والے شخص کو نماز پڑھنے کی دعوت دی جائے گی، اور کہا جائے گا: "نماز پڑھو، ورنہ ہم تجھے قتل کردینگے”تو اگر نماز پڑھ لے تو ٹھیک ورنہ اسے قتل کرنا واجب ہے، لیکن اسے قتل کرنے کیلئے تین دن قید میں رکھا جائے گا، اور ہر نماز کے وقت اسے نماز پڑھنے کی دعوت دی جائے گی، تو اگر نمازیں پڑھنا شروع کردے تو ٹھیک ورنہ حد لگاتے ہوئے اسے قتل کردیا جائے گا، جبکہ کچھ حنابلہ کا کہنا ہے کہ کفر کا حکم لگاتے ہوئے قتل کیا جائے گا،یعنی اسے غسل نہیں دیا جائے گا، اور نہ ہی نمازِ جنازہ ادا کی جائے گی، اور نہ ہی مسلمانوں کے قبرستان میں اسے دفن کیا جائے گا، اور اس کے اہل و عیال کو غلام یا قیدی نہیں بنایا جائے گا ، جیسے کہ دیگر مرتدین کو قیدی نہیں بنایا جاسکتا۔ (الموسوعة الفقهية” (27/53-54)
(یاد رہے کہ یہ حد وقت کا حاکم لگاۓ گا نہ کہ عام فرد)
بعض افراد تو اس گمان میں بھی پڑے ہوۓ ہیں کہ اللہ تعالیٰ رحیم و رحمن ہے، لہذا ہمیں فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ یاد رکھو یہ محض دھوکا اور شیطانی تلبیس ہے۔یہ بات حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ الرحمٰن ہے، الرحیم ہے، التواب ہے لیکن کن کے لئے؟ کیا باغی اور سرکش کے لئے؟ اللہ کی رحمت کو اسی طرح سمجھو جس طرح قرون مفضلہ کے عظیم افراد نے سمجھا تھا۔اپنی عقل استعمال کرکے جہنم کے راستے پر گامزن نہ رہو۔ متعدد اہل علم نے تارک نماز کے کافر ہونے پر اجماع بھی نقل کیا ہے، چنانچہ اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں، "نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت سے لیکر ہمارے دور تک تمام اہل علم کی یہی رائے رہی ہے کہ تارک نماز کافر ہے”.(الاستذكار (2 /150)
سلف و صالحین سے منقول ہے کہ "لكل شيء علم و علم الإيمان الصلاة”.ہر چیز کی ایک نشانی ہوتی ہے اور ایمان کی نشانی نماز قائم کرنا ہے۔ "فرمان نبوی ﷺ ہے کہ "مَنْ حَافَظَ عَلَیْھَا کَانَتْ لَہُ نُوْرًا وَبْرْہَانًا وَنَجَاۃً یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، وَمَنْ لَمْ یَحَافِظُ عَلَیْھَا لَمْ یَکُنْ لَہُ بُرْھَانٌ وَلاَنُوْرٌ وَلاَنَجَۃٌ، وَکَانَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مَعَ قَارُوْنَ وَھَامَانَ وَفِرْعَوْنَ وَاُبَیِّ بْنِ خَلَفٍ”.(معجم طبرانی) ترجمہ:”جس نے (پانچ) وقت نماز کی حفاظت کی، نماز قیامت کے دن اس کے لئے نور ، برہان اور (وسیلہ ) نجات ہوگی۔ اور جس کسی نے (پانچ وقت) نماز کی حفاظت نہ کی تو قیامت کے دن (نماز ) اس کے لئے نہ دلیل ، نہ ہور اور نہ ہی (باعث ) نجات ہوگی اور وہ (بے نماز ) قیامت کے دن قارون ، ہامان، فرعون، اور ابی خلف کے ساتھ (جہنم میں) ہوگا ” ۔قرآنی آیات اور فرامین نبوی ﷺ کوئی افسانہ نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے۔ اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے علامہ ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ، "تارک نماز کا خاص طور پر ان چار آدمیوں کے ساتھ ہونے کے ذکر کیے جانے کاسبب یہ ہے کہ یہ چاروں کفر کے سردار ہیں ۔ یہاں پر ایک واضح اشارہ ہے کہ تارک نماز مال، ملک اور ریاست یا تجارت کی مشکلات کی بناء پر نماز ترک کرتا ہے جو کوئی مال کے سبب نماز ترک کرے گا وہ قارون کے ساتھ ہوگا۔وہ اتنا مالدار تھا کہ اس کے خزانوں کی چابیاں اونٹوں کی ایک جماعت اٹھاتی تھی ۔ ملک اور بادشاہی کی بناء پر نماز ترک کرنے والا فرعون کے ساتھ ہوگا ۔
ریاستی (حکومت ) ذمہ داریوں کے سبب نماز ترک کرنے والا ہامان کے ساتھ ہوگا ۔ تجارتی مجبوریوں کی خاطر ابی بن خلف کے ساتھ ہوگا ۔(کتاب الصلوۃ).
نماز قلب مومن کی روشنی ہے، نماز بدن کی صحت و عافیت کی ضامن ہے، نماز قبر کی مونس و ہمدم ہے، نماز نزول رحمت حق کا باعث ہے،نماز آسمانی خیرات و برکات کی کنجی ہے، نماز سے ہی میزان عمل بھاری ہوگا، نماز عذاب جہنم کی ڈھال ہے، جس نے نماز قائم رکھی اس نے اپنا دین قائم رکھا، جس نے نماز چھوڑ دی
، اس نے اپنا دین ڈھایا۔بقول شاعر
معراج میں بلا کے دیا اپنا قرب خاص
رب نے نبی ﷺ کو تحفہ دیا ہے نماز کا
اللہ رب العزت نمازی کو اپنے محبوب بندوں میں شامل کر لیتا ہے، اس کی روح میں پاکیزگی عطا فرماتا ہے، فرشتے اس کی پاسبانی کرتے ہیں،اس کے چہرے پر نور کی کیفیت طاری کی جاتی ہے، اس کے ہر کام میں برکت عطا کی جاتی ہے، اس کے دل کو رقیق بنایا جاتا ہے، وہ پل صراط سے پلک جھپکتے ایسے گزر جاۓ گا جیسے کہ بجلی کا کوندا،دنیا و اخروی پریشانیوں سے اسے آزادی عطا کی جاتی ہے۔
یہ شبہ انتہائی خطرناک ہے کہ نماز قائم کرنے کے لئے اپنے تجارت سے دس پندرہ منٹ دور رہنا، تجارت نے گھاٹے کا سبب بن سکتا ہے۔(نعوذ باللہ) اسی طرح طالب علم اگر ایک دن میں پانچ فرض نمازوں کے لئے ایک گھنٹہ اللہ تعالیٰ کے لئے نکالے تو اس کی پڑھائی متاثر ہوسکتی ہے۔(نعوذ باللہ) یہ شیطانی تلبیس ہے۔ یاد رہے کہ اسلام نے ہمیں تجارت و کاروبار کے شرعی ضوابط بتلاۓ ہیں جن سے ہماری تجارت آسمان کی بلندیوں کو چھو سکتی ہے۔ اسی طرح علم کے اصول و ضوابط بھی ہم کو بتلاۓ گئے ہیں۔ اب دیکھئے اس شبہ کا ازالہ۔ فرمان نبوی ﷺ ہے کہ، "مَنْ تَرَکَ صَلَاۃَ الْعَصْرِ مُتَعَمِّدًا اَحْبَطَ اﷲُ عَمَلُہُ”.یعنی، "جو کوئی جانتے بوجھتے (ایک نماز عصر ترک کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے کردہ (دیگر تمام) اعمال بھی برباد کر دے گا”.(وسندہ صحیح) نیز فاروق اعظم نے فرمایا، ” حَظَّ فِی الاِسْلَامِ لِمَنْ تَرَکَ الصَّلَاۃَ”، یعنی”جس نے نماز ترک کی اس کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں ہے ۔” (المصنف) فرمان نبوی ﷺ ہے کہ، "إن الله تعالى يقول يا ابن آدم تفرغ لعبادتي أملأ صدرك غنى وأسد فقرك وإلا تفعل ملأت يديك شغلا ولم أسد فقرك”.یعنی”اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ آدم کے بیٹے تو میری عبادت کیلئے اپنے آپ کو فارغ کرلے میں تیرے دل کو مالداری سے بھر دوں گا، اور تیری محتاجی کو دور کردوں گا ، اور اگر ایسا نہ کیا تو تیرے دل کو دنیا کے دھندوں سے بھر دوں گا اور تیری محتاجی کو دور نہ کروں گا”.( مسند أحمد:ج2ص358–سنن الترمذی :2466 –سنن ابن ماجہ :4107 الزھد)
عزیز دوستو! روز جزا کے دن سب سے پہلے نماز کا ہی حساب لیا جائے گا۔ نماز دین کا ستون ہے۔ جس نے نماز کو چھوڑ دیا اس نے اسلام کی عمارت گرا دی۔ امام غزالی رحمہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ "من لقي الله وهو مضيع لصلوة لم يعبا الله بشيء من حسناته”یعنی "جو شخص اللہ تعالیٰ اس اس حال میں ملاقات کرے کہ اس نے نماز ضائع کی ہوگی تو اللہ عزوجل کو اس کی دیگر حسنات کو کوئی وزن نہیں دینگے۔ اسی لئے نماز قائم کرلو اس سے قبل کی تمہاری نماز پڑھی جاۓ۔ اللہ سے دعا ہے کہ علم نافع کے ساتھ عمل صالح کی توفیق عنایت فرماۓ۔۔۔۔ آمین یا رب العالمین۔