ازقلم:منتظر مومن وانی
بہرام پورہ کنزر
رابط:6006952656
ایک انسان زندگی میں کئی مسائلوں کا شکار ہوسکتا ہے کیونکہ زندگی میں خوشی اور غم کا ہونا ایک فطری عمل ہیں. لیکن مفلسی ایک ایسا مصیبت ہے جو انسان کو حقیقت میں اپنےہی شہر میں اجنبی بناتا ہے. یہ غربت اس قدر ظالم ہے کہ غربت کےشکار لوگ زندگی کا ایک ایک لمحہ تڑپ تڑپ کر گزارتے ہے. ایک غریب انسان کا احساس مجبوری لاچاری اور بے بسی کے زنجیر میں قید ہوتا ہے.جہاں دنیا کے مختلف ممالک میں کئی لوگ اس پریشانی کی گرفت میں ہیں وہی پر "راستے کے پتھروں نے دیا پانی مجھے” کا لقب حاصل کرنے والی سرزمین وادی کشمیر میں بھی کئی لوگ زندگی کے تنگ آسمان کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں. اس چمن میں کئی ایسے لوگ رہتے ہیں جو سیاسی حالاتوں یا دیگر سماجی مسلوں کے سبب شاہ سے گدا بن گئے اور زندگی کی جفا نے انہیں مجبوریوں کے زنجیر میں قید کیا. یہاں غربت کے جھونپڑیوں میں رہنے والے معصوم مزاجوں کی کہانیاں سن کر انسان سوچتا ہے کہ کیا واقعی میں "پیر وار”میں رہتا ہوں. کیا صیح میں یہاں کے ہمارے شگوفے ٹھٹھرتی سردی میں چند تماشے بیجھ کر اپنی مجبوریوں کے چیخ وپکار کو تسلی دیتے ہیں. سوشل میڈیا پر ایک بچی کی تصویر دیکھ کر میرا کلیجہ شق ہوا. یہ بیٹی سردی کے لہروں میں کم کپڑے پہن کر کچھ چیزیں بیجھ کر ایک جرت کا اظہار کرہی ہے لیکن اس بہادر قوم کے ماتھے پر یہ ایک سوال ہے جس کے لیے یہاں کے ذمہ دار انسانوں کو یہاں نہیں تو آخرت کی عدالت میں جوابدہ ہونا ہے.
ہوائیں سرد اور جسم ہے لباس ہے میرا
امیر شہر تجھ کو ذرا بھی احساس ہے میرا؟
یہاں غربت کے شکار شگوفے اس قدر لاچاری کے دن کاٹ رہے کہ ہر فہیم انسان سوچتا ہے کہ صدقے اور خیرات کا درس دینے والے اور یہ دعوا کرنے والے کہ ہم لاچاروں کی خدمت میں کمر بستہ ہیں کہاں نیند کی آغوش میں ہیں. کیوں روز ایک نیے معصوم چہرے کی تصویر سوشل میڈیا پر نظر آتی ہے جو غریبی کا جنگ نازک ہاتھوں سے لڑتے ہیں. ہمارے ٹرسٹ یا دیگر بیت المال اگرچہ کام کرنے کا دعوا کرتے ہیں لیکن اصل میں اس خدمت میں ہماری عمل انتہائی کمزور ہیں. آخر کیوں ہمارے اس سماج کے بچے تعلیم یکطرف رکھ کر زندگی کا بوجھ نازک کندھوں پر اٹھائے نظر آتے ہیں.
کچرے سے چن چن کر کھانا,سسک سسک پر وقت بیتانا
اپنے تو حالات یہی ہیں, امیر شہر تم کیسے ہو
اگر وادی کشمیر میں اس پریشانی کو سنجیدہ نگاہ سے دیکھا جائے تو ہزاروں سوالات جنم لیتے ہیں جو انسان کو حیرت میں ڈالتے ہیں. سماج کے تمام ذمہ داروں اور باشعور انسانوں کو اس فکر کو متحرک کرنا چاہیے کہ ہم کسی بھی حال میں ان شگوفوں کو شاہراہ بے بسی پر بے یارو مددگار نہیں چھوڑیں گے.
امیر شہر کو خبر نہیں ہوتی
عید گھر گھر نہیں ہوتی
یہ بچے اسی قوم کے کل کی ضمانت ہے ان کی مدد کرنا ہمارا اخلاقی اور انسانی فرض ہیں جس کے لیے ہمیں اپنے ضمیر اور احساس کو زندہ رکھنا ہے. اگر ہم اپنے ہی خیر کے تلاش میں نکلے تو ہم کبھی یہ دعوا نہیں کرسکتے ہیں کہ ہم انسانی ہمدردی کا احساس رکھتے ہیں.
غریب شہر ترستا ہے اک نوالے کو
امیر شہر کے کتے بھی راج کرتے ہیں
اگر ہم وادی کشمیر کے لوگ یہ احساس رکھتے ہیں کہ ہم ایک دوسرے کی مدد کے حوالے سے کسی بھی قسم کی قربانی پیش کرنے سے ہچکچاتے نہیں ہیں تو ہمیں اس پریشانی کے حوالے سے بھی فکر مند ہونا چاہیے کہ اس غربت کی زنجیر نے یہاں کے کئی لوگوں کو قید کرکے بے بس کیا. غریبی کے شکار شگوفوں کے تئیں ہمیں سنجیدہ ہونا ہے تاکہ یہ مظلوم قوم اس پریشانی سے آزاد ہوجائے.اللہ ہمیں ایک دوسرے کی مدد کرنے کی توفیق عطا کرے.آمین