سیفی سرونجی
9425641777
ڈاکٹر نظام صدیقی ان مشہور ناقدوں میں سے ایک ہیں، جنہیں ہندی اور انگریزی کے علاوہ سنسکرت پر بھی عبور حاصل ہے، جس طرح اردو شاعری میں پہلا مسئلہ شاعر کی شناخت کا ہوتا ہے اور برسوں کے بعد شناخت قائم ہوتی ہے، اسی طرح نثری یا دیگر اصناف کا معاملہ ہے، آج ہم میرؔ، غالبؔ، اقبالؔ کی شاعری کو دور سے پہچان لیتے ہیں لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، لوگ ایک ہی راگ میں الاپنے لگے اور فنکار کا اسلوب کہیں کھو گیا۔ ہزاروں شاعروں کا بھیڑ میں اب یہی پتہ نہیں چلتا کہ یہ کس شاعر کا شعر ہے، اسی طرح تنقید میں ایک نقاد اپنے اسلوب اپنے نظریات سے پہچانا جاتا ہے، ان نقادوں میں نظام صدیقی وہ واحدنقاد ہیں، جن کی تحریر کی دولائنیں پڑھنے کے بعد ہم فوراً سمجھ لیتے ہیں کہ یہ تحریر نظام صدیقی کی ہے، نظام صدیقی کا یہ سب سے بڑا کمال ہے کہ ایک ایک لفظ سے ان کی تحریر جگ مگاتی نظر آتی ہے، خاص طور پر ان کے یہاں تخلیقیت پرزیادہ زور ہوتا ہے، مابعد جدیدیت سے نئے عہد کی تخلیقیت تک ان کے مضامین کا مجموعہ ہے،یہ مضامین اکثر سیمیناروں میں پڑھے گئے ہیں۔ مقالوں پر مشتمل کتاب ہے، جس میں شافع قدوائی کا بھر پور مقدمہ ہے، کتاب میں مابعدجدیدیت کے حوالے سے گفتگو کی گئی ہے، مضامین کی فہرست کچھ اس طرح ہے:
مابعد جدیدتنقید وادب کا جمالیاتی اور اقداری نظام،معاصر اردو غزل نئے تنقیدی تناظر،نئے عہد کی تخلیقیت کے آئینہ خانہ میں گوپی چند نارنگ کی ادبی نظریہ سازی، نئے عہد کی تخلیقیت کی آگہی، فسانہ میں ایڈوڈ سعید کی نظریہ سازی، تخلیقی ترسیل کا بحران اور امکان، اردو نظم کی تہذیبی تخلیقیت کی نیو کلیائی فوق متنی تنقید، مابعد جدید تنقید کا فکریاتی اور جمالیاتی مطالعہ، اردو افسانے میں تخلیقیت کا میلان، اردو ناول میں تخلیقیت کا رجحان، اکیسویں صدی میں خدائے سخن میرا جی کا فکر وفن، فراق کی غزل کا پوڑ اوتار، اکیسویں صدی میں قرۃ العین حیدر کی نئی افسانوی اور ناولاتی معنویت، ندا فاضلی کا نیا اور انوکھا غزلیہ فوق متن، ایک الف لیلہ نیا ناولاتی اسطور ساز، نئے عہد کی شعری تخلیقیت کی تیسر ی کائنات۔
یہ وہ مضامین ہیں، جو زیادہ تر ساہتیہ اکاڈمی کے سیمیناروں میں پڑھے گئے ہیں۔ ڈاکٹر نظام صدیقی نے اپنے ہر مضمون میں عہد حاضر کے تخلیقی ادب پر بہت گہری نظر ڈالی ہے اور اپنے عمیق مطالعہ کی روشنی میں بڑی تفصیل سے جائزہ لیا ہے، نظام صدیقی کی یہ بڑی خوبی ہے کہ وہ ہر فن یا شخصیت کے نفسیاتی پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہیں۔ فن کے اندر تخلیقیت کی تلاش وجستجو میں فن کے اندر ڈوب کر لکھتے ہیں اور تخلیقی پہلو تلاش کر لیتے ہیں۔ ان کے ہر مضمون میں تخلیقیت معنویت، صداقت، لطافت، ہیئت جیسے الفاظ سے ان کی نثر بالکل مقفیٰ سچ معلوم ہوتی ہے، اب ایسی نثر لکھنے والے دور دور تک دکھائی نہیں دیتے، سچ بات تو یہ ہے کہ وہ ادب میں ایک منفر دنقاد کی حیثیت سے دور سے پہچانے جاتے ہیں اور ان کے نظریات بھی بہت واضح ہوتے ہیں۔ اپنی اس کتاب کے پیش لفظ میں وہ لکھتے ہیں:
”میری تنقیدی پیش کش مابعد جدید ادب میں سب سے پہلے پیش کش مغربی رخ پھر اردو کی مابعد جدیدیت کے دوسرے رخ اس کے بعد آخیر میں نئے عہد کی تخلیقیت کے تیسرے رخ کی نشاندہی کی گئی ہے، جو اکیسویں صدی کے مابعد جدید تناظر میں نیا اصول حقیقت اور نیا اصول خواب ہے۔ ان مقالات میں حسب توفیق اور حسب ضرورت قومی سیاق میں نئی تھیوری فلسفہ ادب کی بیشتر جہات روشن اور منور ہوئی ہیں۔ اس کی فکریاتی حدود بیکراں ہیں۔ جو کسی خاصنظریاتی، یا میکانکی سکہ بندی کو خاطر میں نہیں لاتیں، مابعد جدید ادب وتنقید میں اول آخر قومی تشخص اورثقافتی بازیافت کا مسئلہ مرکزی معنویت اور اہمیت کا رہین ہے۔“
ڈاکٹر نظام صدیقی کے اس اقتباس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے نظریات کیا ہیں اور یہ مضامین نظریے کے تحت لکھے گئے ہیں۔ نظام صدیقی نے در اصل پروفیسر گوپی چند نارنگ کے نظریات اور مابعد جدیدیت کی روشنی میں یہ مضامین لکھے ہیں۔ گوپی چند نارنگ پر بھی ان کا مضمون بہت اہم ہے۔ نئے عہد کی تخلیقیت کے آئینہ خانہ میں گوپی چند نارنگ کی ادبی نظریہ سازی سے انھوں نے بہت جامع اور دلائل سے گفتگو کی ہے۔