رسول اللہؐکی ایک مشہور حدیث ہے ”مَااَنْزل اللّہ مِن داءٍ اِلا انزل لہ شِفاءً“یعنی اللہ تعالیٰ نے کوئی مرض یا بیماری نازل نہیں کی سوائے اس کے کہ اُس کا علاج نازل نہ کیا ہو۔یہ حدیث صحیح بخاری کی کتابُ طب شروع میں آئی ہے۔آپ کے علم کے لئے بتادوں کہ مشہور فلسفی اور مصنّف ابو علی سیناؔ نے اپنی مشہورِ زماں کتاب ”القانون فی الطّب“(The law of Medicine)کیابتداء اسی حدیث رسول ؐ سے کی ہے۔
بہرحال حدیث کے متن اورمنطوق پر غور کرنے سے جو مفہوم نکلتا ہے ع وہ سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ رسول اللہؐ نے علاج و معالجہ پر اثبات کیا ہے،یعنی علاج و معالجہ کو جائز قرار دیا ہے۔بلکہ شفاء کو اللہ کی طرف منسوب کرتے ہوئے اسے اللہ کی نعمتوں میں شمار کیا ہے۔جس سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ شفاء کے حصول کے لئے جائز اسباب اختیا ر کرنے میں کوئی قباحت نہیں جس کی تصدیق مندرجہ ذیل دوسری حدیثِ رسول ؐ سے خوب ہوتی ہے۔اسامہ بن شُریک ؓ روایت کرتے ہیں کہ ”جاء ت الاعراب فقالوا یا رسول اللہ! انتداویٰ؟فقال نعم یا عباداللہ،تداوُوا فاِن اللہ عزوجل لم یضع داءً الاوضع لہ شفاءً الخ“کہتے ہیں کہ کچھ دیہاتی آےء اور عرض کیا اے اللہ کے رسول ؐ،کیا ہم دوائیاں لیں؟اس پر رسول اللہ ؐ نے فرمایا ہاں اے اللہ کے بندو،دوئیاں لیو کرو،اللہ عزوجل نے کوئی بیماری نہیں بنائی جس کا علاج نہ بنایا ہو۔ظاہر سی بات ہے کہ دوائیوں (Medicine) کا شمار اسباب میں ہوگااور پہلے ہی عرض کیا جاچکا ہے کہ جائز اسباب اختیار کرنے میں کوئی حرج ہے اور نہ کوئی قباحت،بشرط کہ مسبّبِ حقیقی اللہ تعالیٰ کو ہی سمجھا جائے۔بقول علامہ اقبالؒ ؎
گرچہ تو زندانئی اسباب ہے
قلب کو ذرا آزاد رکھ
چنانچہ امام احمد ؒ نے اپنی مسند میں ابو خذیمہؓ کی روایت سے ایک حدیث لائی ہے،وہ کہتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول ؐ سے ”رقیہ“ یعنی دم کرنے،دوائی لینے اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے سے متعلق پوچھا کہ کیا یہ سب اللہ کی مقرر کردہ تقدیر کو تبدیل کرتے ہیں۔اللہ کے رسول ؐ نے فرمایا کہ یہ سب بھی اللہ کی مقرر کردہ تقدیرہی میں سے ہیں۔غرض کہ جائز اسباب اختیار کرنے میں شرعاً کوئی ممانعت نہیں۔رسول اللہ ؐ
نے رُقِیہ (دم کرنا)دوائی لینا اور احتیاط برتنا،ان سب کو تقدیرِ الٰہی میں گردانا ہے اور وہ بھی اثبات کے انداز میں۔یہاں اس بات کی وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ رُقِیہ یعنی مریض پر دم کرنا جائز اور سنتِ رسول ؐ سے ثابت شدہ عمل ہے،جیسا کہ اوپر مذکور حدیث میں آیا ہے۔اور وہ حدیث جس میں رسول اللہ ؐ نے اپنی کے اُن ستّر ہزار افراد،جو بلا کسی حساب جنت میں داخل ہونگے،کی ایک صفت یہ بتائی ہے کہ وہ رُقِیہ یعنی دم نہیں کراتے ہونگے،پہلی مذکور حدیث کے مخالف نہیں،بلکہ دونوں حدیثوں میں رقیہ کی الگ الگ دو قسموں (رُقِیہ اور استرقاء) کا بیان ہوا ہے۔جن وضاحت عبداللہ ناصر حمانی حفظہ اللہ یوں کرتے ہیں:۔
”حدیث میں استرقاء کی ممانعت ہے جس کا معنی کسی سے دم کروانا ہے یا کسی سے دم کرنے کے لئے کہنا
۔ یہ اس لئے معیوب قرار دیا گیا ہے کہ دوسروں کو دم کے لئے کہنے والا غیر اللہ کی متوجہ اور ملتفت ہے
جو غیرتِ توحید کے منافی(یعنی اس سے غیرتِ توحید مجروح ہوتی ہے)۔جبکہ رُقِیہ یعنی از خود دم کسی
کو دم کرنا ایک مستحسن امر ہے۔“
]شرح کتابُ توحید[
جو لوگ علاج و معالجہ اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کو توکل علی اللہ کے خلاف مانتے ہیں وہ غلطی پر ہیں قرآن و سنت سے اس طرح کی کوئی چیز ثابت نہیں ہے۔ ہاں ایک حدیث ہے جس سے اس طرح کا شُبہ لاحق ہوسکتا ہے بالخصوص اُس وقت جب انسان کم علمی کا شکار ہو اور حدیث کے علوم و اصول سے ناآشنا ہو۔حدیث یوں ہے ابنِ عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایاکہ میرے سامنے تمام اُمتیں پیش کی گئیں،ایک ایک دو دو نبی اور ان کے ساتھ ان کے ماننے والے گزرتے رہے اور بعض بنی ایسے بھی تھے کہ ان کے ساتھ کوئی نہیں تھا آخر میرے سامنے ایک بڑی بھاری جماعت آئی،میں نے پوچھا یہ کون ہیں،کیا یہ میری اُمت کے لوگ ہیں؟ کہا گیا یہ حضرت موسیٰ ؑ اور ان کی قوم ہے۔پھر کہا گیا کہ کناروں کی طرف دیکھو میں نے دیکھا کہ بہت ہی عظیم جماعت ہے جوکناروں پر چھائی ہوئی ہوئی ہے پھر مجھ سے کہا گیا کہ ادھر دیکھو ادھر دیکھو آسمان کے مختلف کناروں میں،میں نے دیکھا کہ جماعت ہے جو تمام افق پر چھائی ہوئی ہے۔ کہا گیا کہ یہ آپ کی اُمت ہے اس میں سے ستّر ہزار حساب کے بغیر جنت میں داخل کردئے جائینگے۔ اس کے آپ ؐ (اپنے حجرے میں) تشریف لے گئے اور کچھ تفصیل نہیں فرمائی۔لوگ ان ستّر ہزار جنتیوں کے بارے میں بحث کرنے لگے اور کہنے لگے کہ ہم ہی اللہ پر ایمان لائے ہیں اور اُس کے رسول ؐ کی اتباع کی ہے، اس لئے ہم ہی وہ لوگ ہیں یا ہماری وہ اولاد جو اسلام میں پیدا ہوئے،کیوں کہ ہم جاہلیت میں پیدا ہوئے تھے۔یہ باتیں جب حضورِ اکرم ؐ کو معلوم ہوئیں تو آپ باہر تشریف لائے اور فرمایا یہ وہ لوگ ہونگے جو جھاڑ پھونک نہیں کرتے،فال نہیں دیکھتے اور داغ کرعلاج(Cauterizing) نہیں کرتے۔بلکہ اپنے ربّ پر بھروسہ کرتے ہیں،الخ]البخاری/5705/ترجمہ مولانا داؤد رازؒ [۔ لیکن اس حدیث کی مختلف تاویلیں بیان کی گئیں ہیں۔ظاہری معنوں میں داغ کر علاج کرنا یا کسی اور طریقے سے علاج کرنا یا کرانا توکل علی اللہ کے خلاف معلوم ہوتا ہے۔لیکن یاد رکھیئے کہ داغ کر علاج کرنا اور کرانا بہت سی دیگر احادیث سے ثابت ہے۔جیسا کہ جابر بن عبداللہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے ایک طبیب کو ابی بن کعب انصاری کی طرف بھیجا جب ابی کعب بیمار تھے اور انہیں کچھ زخم لگے تھے۔طبیب نے اُن کے زخموں کا داغ کر علاج کیا (بخاری)۔اور اسی طرح سعد بن معاذؓ کا بازوزخمی ہوگیا تو رسول اللہ ؐ نے خود داغ کر ان کے بازو کا علاج کیا۔
اب اوپر مذکور حدیث کی طرف آتے ہیں۔رسول اللہ ؐ نے ستّر ہزار افراد جو بلا حساب جنت میں داخل کئے جائینگے کی یہ صفت بیان کی ہے کہ وہ داغ کر علاج نہیں کرتے بلکہ اپنے ربّ پر بھروسہ کرتے ہیں۔یہ تب ہے جب آپ داغ کر علاج کرنے یا کسی دوسرے طریقۂ علاج کے ساتھ کوئی شرکیہ عقیدہ وابستہ کر لیں گے اور اللہ پر توکل کرنے کے بجائے غیر اللہ سے اُمید و رجاء منسوب کرلیں گے۔جیسا کہ امام ابن قیم الجوزیؒ نے رسول اللہ ؐ کے فرمان ”وانا انھی امتی عن الکیّ“سے متعلق لکھا ہے کہ عرب دورِ جاہلیت میں کہتے تھے کہ جو شخص ضرورت کے وقت داغ کر علاج نہیں کرتا وہ مرجاتا ہے۔اس پر رسول اللہ ؐ نے کچھ مدت تک مسلمانوں کو داغ کر علاج کرنے روکا تاکہ مشرکین کی توہم پرستی کی مخالفت ہوسکے۔