سرفراز ؔ سمیر بٹ
کاکاپورہ پلوامہ
یہ رسم ِ وفا آخر کہیں مر کیوں نہیں جاتی
یہ گھڑی قیامت کی گزر کیوں نہیں جاتی
ہم نے تاثیرِ محبت سے کچل دیا ہے خود کو
یہی ایک تھی ہم میں ہنر،کیوں نہیں جاتی
زندگی کے اگر نہ سمجھے نشیب و فراز ہم نے
ایک ہی بارہم سے وہ مکر کیوں نہیں جاتی
میسر نہ تھا کہ ملنے کو ملاقات کہہ دوں
زمانہ گزر گیا لیکن،اثر کیوں نہیں جاتی
کہتے ہیں اگر اہلِ نظر کہ دنیا گول ہے
دوبارہ راستے سے گزر کیوں نہیں جاتی
یوں ہی عداوت میں نبھائی رسمِ جفا
وجہ تھی تو بتانے کو ٹھہر کیوں نہیں جاتی
عشق سے مٹ جاتا ہے نیک وبد کا تمیز
زاہد تھی تو شام کواپنے گھر کیوں نہیں جاتی
سچی تھی محبت میری سچی اب توبہ سرفرازؔ
وہ اگر مخلص تھی پھر سدھر کیوں نہیں جاتی