تحریر:حافظ میر ابراھیم سلفی
مدرس
بارہمولہ کشمیر
رابطہ نمبر :6005465614
تکرار بناتی ہے اب جھوٹ کو سچائی
تشہیر بدلتی ہے انداز کہانی کا
لے آتا ہے منظر پر،جب چاہے نیا کردار
رکھا ہے مصنف نے در باز کہانی کا
حکم ربانی و حکم نبوی ﷺ ہے کہ ” وَ لَا تَجَسَّسُوْا یعنی مسلمانوں کی عیب جوئی نہ کرو اور ان کے پوشیدہ حال کی جستجو میں نہ رہو”.
اہل ایمان پر رب کائنات نے دو طرح کے حقوق فرض کئے ہیں، حقوق اللہ اور حقوق العباد یعنی بندوں کے حقوق۔ حقوق العباد کی اہمیت پر قرآن و سنت میں ہمیں کثیر مواد ملتا ہے۔جن کی تفصیلات قرآنی آیات اور احادیث صحیحہ میں مذکور ہے۔اہل جہنم کی اکثریت سقر میں اس لئے جائے گی کہ انہوں نے حقوق العباد ضائع کئے ہونگے۔عقائد و عبادات کے ساتھ ساتھ اخلاقیات و معاملات کی حسن ادائیگی لازمی ہے۔انہیں حقوق میں کتمان السر عظیم اور اعلی حق ہے یعنی افشاء سر سے پرہیز کرنا۔راز اپنا ہو یا غیر کا چھپانا واجبی ہے۔امام ماوردی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ادب الدنیا والدین کے اندر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا قول نقل کیا ہے کہ "سرک اسیرک فان تکلمت بہ صرت اصیرہ” یعنی ‘راز اس وقت تک آپکا غلام ہے جب تک آپ نے اسے بیان نہیں کیا لیکن جب اسے بیان کردیا تو اب آپ اس کے غلام ہوگئے ".کتمان سر کی اہمیت کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ سیدنا یعقوب علیہ السلام نے اپنے نور نظر سیدنا یوسف علیہ السلام کو تنبیہ کی کہ اپنا خواب اپنے بھائیوں کو سے نہ کہے حالانکہ وہ بھی پیغمبر کے بیٹے تھے لیکن شیطان چونکہ عدو مبین ہے لہذا احتیاط اور پرہیز ہی علاج سے بہتر ہے۔علامہ البانی رحمہ اللہ تعالٰی نے صحیح الجامع الصغیر کے اندر سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت لائی ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا "لوگوں سے چھپا کر اپنے مقاصد کی کامیابی پر مدد طلب کرو کیونکہ ہر نعمت والا حسد کیا جاتا ہے ".(رقم الحدیث 943)
اسلومی سوسائٹی تشکیل دینے کی خاطر شرعی اصول کا خیال رکھنا لازمی ہے۔صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین نے جو معاشرہ مدینہ طیبہ میں قائم کیا اس کے پیچھے شرعی نصوص پر عملی کردار کا بہت بڑا رول ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی الجامع الصحیح کے اندر سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت نقل کی ہے کہ رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "جس شخص نے کسی قوم کی باتوں پر کان لگایا حالانکہ وہ اسے مکروہ سمجھتے ہوں یا وہ اس سے راہ فرار اختیار کررہے ہوں تو قیامت کے دن اس کے کانوں میں سیسہ پگھلا کر ڈالا جائے گا”.(رقم الحدیث 7042) معلوم ہوا کہ عمداً کسی کا سر جاننا اسلامی تعلیمات کے مطابق غیر مشروع ہے۔یہ فقط اخروی عذاب کا نسخہ نہیں بلکہ دنیاوی حیات کی تباہی کا بنیادی سبب ہے۔علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو صحیح کہا ہے جو امام ابن ماجہ رحمہ اللہ نے اپنی سنن کے اندر نقل کی ہے کہ "جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی تو اللہ دنیا و آخرت میں اس کی پردہ پوشی کرے گا”.(رقم الحدیث 225)یہی روایت سنن ابی داوُد و دیگر کتب احادیث میں مختلف الفاظ کے ساتھ وادر ہوئی ہے۔ افشاء سر عموماً حرام فعل ہے جس کی حرمت اس روایت سے ثابت ہوتی ہے جسے امام ابن ماجہ رحمہ اللہ نے اپنی سنن کے اندر نقل کیا ہے کہ "جو شخص اپنے مسلمان بھائی کے عیوب پر پردہ ڈالے گا تو اللہ دنیا و آخرت میں اس کی ستر پوشی فرمائیں گے۔ اور جو مسلمان کسی دوسرے مسلمان کی عیب جوئی کرے گا تو اللہ عزوجل اس کے عیوب دنیا کے سامنے واضح کرکے اسے رسوا کریں گے اگرچہ وہ گھر کے کسی کونے کے اندر چھپ کر ہی بیٹھا رہے”۔ (رقم الحدیث 2546) یہ روایت محدثین کرام کے نذدیک بالکل صحیح ہے۔ گھریلو زندگی میں امن و سکون قائم کرنے کی خاطر کتمان سر ایک بنیادی قاعدے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اجتماعی زندگی گزارتے وقت کئی طرح کے امور پیش آتے ہیں، مختلف المزاج انسانوں کے جمگھٹے میں بعض ناگوار اور غیر مناسب باتیں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ایسے مواقع پر اسلام ہمیں غیر مناسب باتوں کو اچھالنے کی بجائے چْھپانے کا درس دیتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم پردہ دری کے ماحول میں پروان چڑھ رہے ہیں جب کہ ہمیں ہمارے رسولؐ نے پردہ پوشی والا مقدس ماحول بنانے کا حکم دیا تھا۔
دفن کر سکتا ہوں سینے میں تمہارے راز کو
اور تم چاہو تو افسانہ بنا سکتا ہوں میں
رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ "جس نے کسی مومن کے بارے میں کوئی ایسی بات کہہ دی جو اس میں نہیں تھی تو اللہ اسے جہنمیوں کے پیپ میں ڈالے گا یہاں تک کہ اپنی بات سے باز آ جائے”.(سنن ابوداؤد رقم الحدیث 3597 و سندہ صحیح) افشاء سر روحانی امراض کا سردار ہے۔عہد نبوی ﷺ میں بچوں کی تربیت کرتے وقت کتمان سر کا کافی خیال رکھا جاتا تھا جیسا کہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ "نبی کریم ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور میں بچوں کے ساتھ کھیل میں مشغول تھا۔ تاجدار حرم نے ہمیں سلام کی اور مجھے کسی کام کے لئے بھیجا۔ مجھے اس کام میں تھوڑی تاخیر ہوئی۔ جب میں اپنی ماں کے پاس پہنچا تو اس نے پوچھا۔۔ ‘بیٹے اتنی دیر کہاں لگا دی’ میں نے جواب دیا کہ ‘مجھے رسول کریمﷺ نے کسی کام کے لئے بھیجا تھا اسی کی ادائیگی میں دیر ہوگئی۔ اس پر ماں نے کہا کہ ” کون سا کام تھا؟ ‘. اس پر میں نے جواب دیا کہ یہ رسول کریمﷺ کا راز ہے، نہیں بتا سکتا’۔ ماں نے جواباً کہا کہ ‘بیٹے رسول کریمﷺ کا راز کسی سے مت کہا کرو، مجھ سے بھی نہیں ".(صحیح مسلم 2482) انس بن مالک ابھی بچے ہی تھے جس کی وضاحت حدیث کے الفاظ "وانا العب مع الغلمان” سے ہوجاتی ہے۔ سر، راز، بھید ایک امانت کی حیثیت رکھتا ہے جسکی حفاظت لازمی ہے۔ امام ابو عیسی ترمذی رحمہ اللہ نے اپنی جامع کے اندر اس روایت کو حسن سند سے نقل کیا ہے کہ "جب کوئی آدمی تم سے کوئی بات بیان کرے پھر اسے راز میں رکھنے کے لئے دائیں بائیںبائیں مڑ کر دیکھے تو وہ بات تمہارے پاس امانت ہے”.(رقم الحدیث 1959) سوشل میڈیا و دیگر جدید ذرائع پر اسکا خیال رکھنا واجب ہے۔ ہم میں سے کوئی معصوم نہیں ہے ، گناہ ہرایک سے سرزد ہوتا ہے ، سارے لوگوں میں عیوب ونقائص ہیں ۔ جب کوئی انسان غلطی سے مبرا نہیں تو پھر کوئی دوسرے کے عیوب کو بیان کرکےانہیں لوگوں کے سامنے رسو ا کرنے کی کیوں کوشش کرتا ہے ؟ ایسے لوگوں کے لئے سخت قسم کی سزا ہے جو اپنےعیوب جاننے ہوئے دوسروں کے عیوب ظاہر کرتا ہے کبھی اپنی جھوٹی برتری دکھانے کے لئے تو کبھی دوسروں کو ذلیل کرنے کے لئے یا کبھی دنیاوی منفعت کے حصول کے لئے۔
کوئی سمجھے گا کیا راز گلشن
جب تک الجھے نہ کانٹوں سے دامن
کسی بھی ملک یا قوم کی ترقی کے لئے لازم ہے کہ ملک کی خفیہ خبریں پس پردہ ہی رہیں کیونکہ عدو ہماری خطاؤں کو جاننے کے طاق میں لگے رہتے ہیں۔ ملک کا نظام چلانا ہو یا گھریلو نظام کتمان سر فرض ہے۔ معلم اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ھے کہ "قیامت کے دن سب سے رسوا کن بدترین فرد وہ ہوگا جو اپنی بیوی کے پاس خلوت میں جاتا ہے اور وہ اس کے پاس خلوت میں آتی ہے پھر وہ اس کا راز افشاء کرتا ہے”.(صحیح مسلم 1437) آج بعض دیوث اپنی اہلیہ کی خلوت نشینی کو ذرائع آمدنی بنا رہے ہیں، انہیں اللہ کا خوف رکھنا چاہیے”.سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ھے کہ "میری پوری امت معافی کی مستحق ہے ، سوائے ان لوگوں کے جو گناہوں کو برسر عام ظاہر کرتے ہیں ، ظاہر کرنے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ انسان رات کو کسی گناہ کا مرتکب ہوتا ہے، اللہ رب العزت اس پر پردہ ڈال دیتا ہے ، صبح کا سورج طلوع ہوتے ہی وہ لوگوں سے کہتا پھرتا ہے کہ رات میں ‘میں نے گناہ کا فلاں کام کیا تھا ، اللہ تعالٰی نے رات بھر اس کے گناہ پر پردہ ڈالے رکھا اور وہ خود صبح ہوتے ہی اس پردے کو پھاڑ ڈالتا ہے اور اپنے گناہ کو ظاہر کردیتا ہے ".(صحیح بخاری رقم الحدیث 6069) اس کی زندہ مثال آج کے نوجوان ہیں جو اپنی جوانی کا غلط استعمال کرکے اپنے مستقل کے ساتھ ساتھ عقبی کو خسارے میں ڈال رہے ہیں۔عیوب پر پردہ ڈالنے سے عیب دار معاشرہ بے عیب ہوجاتا ہے جبکہ عیوب سے پاک معاشرہ عیب جوئی کی وجہ سے ہی رسوا ہو جاتا ہے جیسا کہ حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے۔
راز دل ہیں پوچھتے اور بولنے دیتے نہیں
بات منہ پر آ رہی ہے لب ہلانا ہے منع
امام حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ کا قول حافظ ابن ابی الدنیا رحمہ اللہ نے اپنی کتاب الصمت و آداب اللسان میں نقل کیا ہے کہ "خیانت میں سے یہ ہے کہ تم اپنے بھائی کا راز فاش کردو”.(صفحہ نمبر 404) راز کی حفاظت نہ کرنا منافقانہ خصلت ہے جیسا کہ رسول کریمﷺ کا فرمان ھے کہ”چار نشانیاں جس میں ہوں وہ خالص منافق ہے اگرچہ وہ نماز پڑھنے اور روزہ رکھنے والا ہو۔جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو توڑ دے، جب امین بننے تو خیانت کا ارتکاب کرے اور جب کسی سے لڑائی ہو تو ناشائستہ الفاظ کا استعمال کرے”.(صحیح البخاری رقم الحدیث 2459) دوسروں کے عیوب ٹٹولنے کی جگہ اگر ہم انفرادی سطح پر احتساب نفس پر لگ جائیں تو ہماری شخصیت کی تعمیر ممکن ہے کیونکہ رب کائنات نے ہمیں اس بات کی تنبیہ کی ہے کہ "یوم تبلی السرائر فمالہ من قوۃ ولا ناصر” یعنی "جس دن چھپی ہوئی باتوں کی جانچ پڑتال کی جاۓ گی۔ تو اس کے پاس نہ کوئی قوت ہوگی اور نہ ہی کوئی مددگار”.(سورہ الطارق) دن آنے والا ہے جب ہمارے جسدی اعضاء ہمارے چھپے ہوئے بھید ظاہر کریں گے۔ دن آنے والا ہے جب ظاہر کے ساتھ ساتھ باطن بھی عیاں ہوگا۔ خلوت کے گناہ سامنے آئیں گے۔ اس دن کی رسوائی سے بچنے کے لئے کتمان سر لازمی ہے۔ مشائخ سے راقم نے سنا ہے کہ "اپنی زبان کو قید میں رکھنے والاالفاظ کی قید میں پھنسنے سے بچارہتا ہے”.نیز فرمایا کرتے تھے کہ "احمق کا دل اُس کی زبان کی نوک پر ہوتا ہے اور عقلمند کی زبان اُس کے سینے کے سب سے پچھلے برج میں ہوتی ہے۔احمق کو رازدان بنانے سے بچنا لازم ہے۔ اِرادتاََ بدی کرنے کے علاوہ وہ بعض اوقات نیکی کرنے کا سوچتے سوچتے بھی بدی کر جاتا ہے۔”
جانے کتنے راز کھلیں جس دن چہروں کی راکھ دھلے
لیکن سادھو سنتوں کو دکھ دے کر پاپ کمائے کون
شرعی نصوص سے ثابت ہے کہ بعض اوقات ہمیں شریعت نے افشاء سر کی اجازت دی ہے لیکن شرعی قوانین کے حدود میں رہ کر۔ اولاً جو بندہ علانیہ محرمات میں گرفتار ہورہا ہے اسکے شر سے معاشرے کو بچانے کے لئے اسکے فعل پر علمی رد کیا جائے گا جو اخلاق و بردباری کے دائرے میں ہو۔جیسے شرک و بدعات، علانیہ کفر و ارتداد وغیرہ۔ اسکا رد کرنے کا واحد مقصد سماج کی بہتری ہو، کسی کو حقیر کرنے کا یا تذلیل کا ارادہ قطعاً نہ ہو۔رد کرنے کے ساتھ ساتھ دعوت اصلاح جاری رکھی جائے گی۔ثانیاً نکاح، کاروبار و دیگر حالات میں گواہی دیتے وقت صدق پر مبنی سر بیان کیا جائے گا تاکہ کوئی مسلمان دھوکے کا شکار نہ ہو۔لیکن یہ افشاء بھی مخفی طریقہ سے مدعی تک ہی محدود رکھا جائے گا۔ عصر حاضر میں بعض بدقسمت اپنی چرب زبانی سے جھوٹی گواہی دے کر عزتوں کا جنازہ نکال دیتے ہیں جو کہ ملعون فعل ہے۔گواہی کے بعد بھی سامع پر تحقیق کرنا لازم ہے کیونکہ یہ ایام "سنوات خدعات” کے مثل ہیں۔ اور یہ نقطہ بھی واضح رہے کہ افواہ بازی کبھی کبھی سچ کو بھی کمزور کردیتی ہے۔واقعہ افک اس کی زندہ مثال ہے۔ اسی طرح قانونی کاروائی کے وقت صدق پر مبنی گواہی دینا واجب ہے تاکہ حد کسی بے گناہ پر نافذ نہ کیا جائے۔ شارح عقیدہ طحاویہ کا بیان ہے کہ "کتمان سر اولیاء کی صفات میں سے ہے ".
یاد رکھیں کہ سینے اس لئیے بنائے گئے ہیں کہ وہ راز رکھنے کے لئیے ایک صندوقچے کا کام دیں ۔عقل ان صندوقچوں کا تالا اور قوتِ ارادی ان کی کنجی ہے ۔جب تک اس تالے اور کنجی میں کوئی نقص نہیں پڑتا تب تک صندوقچے کے اندر پڑے جواہرات تک کسی کی رسائی کا کوئی احتمال نہیں ہوتا۔
Look in the mirror. The face that pins you with its double gaze reveals a chastening secret.
خلاصہ کلام یہی ہے کہ ہمیں اپنے رازوں کی حفاظت کرنے کے ساتھ ساتھ اوروں کے بھید بھی پوشیدہ ہی رکھنے چاہیے۔جس قدر ہم غیروں کی ستر پوشی کریں گے ہماری عزت بھی محفوظ رہے گی۔ اللہ سے دعا ہے ہمیں علم و عمل سے نوازے۔۔۔۔۔ آمین یا رب العالمین