رئیس احمد کمار
بری گام قاضی گنڈ
اس کو کچھ بھی نہیں آتا ۔ اپنی ماں نے کچھ سکھایا ہی نہیں ہے اسکو ۔ لگتا تھا ہمارے گھر میں اس کے آنے سے نئی بہار آئے گی ۔ باورچی خانے کا کام بھی بڑی مشکل سے ہی کرپاتی ہے ۔ سبزی اگانے کے فن میں بھی بالکل ناواقف ہے ۔ ہر روز اپنا ڈریس تبدیل کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں جانتی ۔ آخر یہ سب کام کب کر پائے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔ شائستہ اپنی نئی نویلی بھابی کے بارے میں اپنی ماں سفینہ سے بات کرتی ہے ۔۔۔۔۔
سفینہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم ہمیشہ تم کو اپنے مزاج میں تبدیلی لانے کے لئے کہتے ہیں لیکن تم ٹس سے مس نہیں ہو رہی ۔ نازنین بیٹی تو اس گھر میں ابھی نئی نویلی ہے ۔ نئے گھر میں ایڈجسٹ ہونے میں تھوڑا وقت لگ ہی جاتا ہے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ وہ سب کچھ سیکھے گی ۔ تم کو نازنین سے بڑی نرم لہجے سے پیش آنا چاہیے ۔ آخر اس گھر کی مالک ایک دن نازنین بیٹی ہی ہو گی ۔ تم کو اس گھر میں ہمیشہ نہیں رہنا ہے ۔ شادی کے بعد تم کو نازنین کے پاس ہی آنا جانا ہے ۔ اسلئے ہمیشہ اپنے بھائی کی زندگی بھابی سے جھگڑ کر خراب نہیں کرنی چاہیے ، بلکہ اسکے ساتھ پیار و محبت سے پیش آنا چاہیے ۔ ورنہ اس سے اپنا بھائی بھی خفا ہوجاتا ہے ۔ تم ابھی چھوٹی ہو ، تم نہیں سمجھو گے ۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔ رحمان خواجہ جو محلے کے زیشعور لوگوں میں شمار کیا جاتا ہے اچانک اندر تشریف لاتا ہے ۔۔۔۔۔۔
اسلام علیکم ۔۔۔۔۔۔۔۔ وعلیکم اسلام ۔ خواجہ صاحب کیسے ہو ۔ آج ہمارے غریب خانے میں آنا کیسے ممکن ہوا ؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔
سفینہ اور اسکا خاوند اقبال رحمان خواجہ سے الگ کمرے میں طویل گفتگو کرتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔ میں نے شائستہ بیٹی کےلئے ایک اچھا پڑھا لکھا لڑکا تلاش کیا ہے ۔ اگر آپ چاہئیں گیں تو یہ رشتہ میں جلد ہی طے کروں گا ۔۔۔۔۔
دونوں میاں بیوی نے رحمان خواجہ کی بات پر متفق ہو کر رشتہ طے کیا ۔۔۔۔
شادی کے پہلے دو تین مہینے تو ٹھیک نکلے ، لیکن ایک دن شائستہ سسرال سے اپنے ماں باپ کے گھر روتے ہوئے واپس آرہی ہے ۔ جب وجوہات پوچھی گئی تو یہ جواب دیا ۔۔۔۔۔۔۔ ” میں دوبارہ اس گھر میں نہیں جا سکتی ۔ مجھے سسرال میں سب لوگ تعنے دیتے ہیں ۔ اپنا سارا کام صحیح ڈھنگ سے انجام دینے کے باوجود بھی وہ مجھے ہر روز کوستے رہتے ہیں ۔ میری دو نندیں مجھے بات تک نہیں کرنی دیتے ہیں ۔ ساس صبح سے شام تک میرے پیچھے پڑی رہتی ہے کہ کہیں پر ذرا بھر بھی غلطی ہو جائے تو یکدم برس پڑتی ہے ”
سفینہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ شائستہ بیٹی ! سسرال میں سب کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے تب ہی تو ایک لڑکی ایک کامیاب زندگی گزار سکتی ہے ۔ ہماری بہو نازنین نے بھی جب ہم سب کے مزاج کو پرکھا اور برداشت کیا تب ہی وہ آج اس گھر کی مالک ہے ۔
شائستہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں امی میں سب کچھ برداشت کرسکتی ہوں لیکن میں دوبارہ سسرال نہیں جاسکتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب دونوں میاں بیوی نے شائستہ کو سسرال جانے کےلئے اور دباؤ ڑالا تو اس نے مکان کے روسری منزل پہ چڑھ کر کوئی زہریلی شئے کھائی اور اپنی زندگی کا خاتمہ ہی کر دیا ۔۔۔۔۔۔
راقم ایک کالم نویس ہونے کے علاوہ گورمنٹ ہائی اسکول اندرون گاندربل میں اپنے فرائض بحست ایک استاد انجام دیتا ہے ۔