عمران بن رشید
سیر جاگیر سوپور
فون: 8825090545
توحید کے بعد موجودہ دور میں مسلمانوں کو سب سے زیادہ ضرورت اتّحاد کی ہے۔توحید کی کامیاب تبلیغ اور اشاعت جب ہی ممکن ہے کہ ہر توحید پسند مسلمان اُمت سے پیوستہ رہے۔بقول علامہ اقبال ”پیوستہ رہ شجر سے امید ِ بہار رکھ“۔چنانچہ اس ضمن میں سورہ آلِ عمران کی ایک آیت بے حد مشہور ہے:(وَاعْتَصِمُوْابِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلَاتَفَرَّقُوا۔وَاذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْکُنْتُم اَعْدَآءً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُم فَاَصْبَحْتُم بِنِعْمِتِہٖ اِخْوَانًا)”اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑلواورجداجدا نہ ہوجاؤاور اپنے اوپر اللہ کی نعمت یاد کرو‘ جب تم دشمن تھے تو اُس(اللہ) نے تمہارے دلوں کے درمیان الفت ڈال دی تو تم اس کی نعمت سے بھائی بھائی بن گئے“]اٰلِ عمران:103[
اللہ کی رسی کیا ہے
اللہ کی رسی سے مراد قرآن ہے۔ چنانچہ زید بن ارقمؓ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا کہ خبر دار ہوجاؤ! میں تمہارے درمیان دو بھاری چیزیں چھوڑے جارہا ہوں‘ان میں سے ایک اللہ کی کتاب ہے وہ اللہ کی رسی ہے۔اور دوسری بھاری چیز میرے اہلِ بیت ہیں (مسلم کتاب فضائلِ صحابہؓ)۔ ہر اختلاف کے وقت قرآن کی طرف رجوع کریں اور قرآن کو تھامے رکھیں۔صوفیاء‘ فلاسفا ء اور متکلمین کے بجائے قرآن کو صحابہؓ کے فہم پر سمجھنے کی کوشش کریں۔ قرآن کی اس آیت سے اجتماعیت کا جو تصور ملتا ہے اس پر غور کرنا وقت کا ایک اہم تقاضہ ہے۔فرقہ بندی‘مسلک پرستی اور شخص پرستی اس وقت امت میں عام ہوچکی ہے‘کہیں تصوف کو دین سمجھاجاتاہے تو کہیں فلسفہ نے مسلمانوں کا بیڑا غرق کر رکھا ہے‘کہیں پیر مریدی کا سلسلہ دیکھنے کو ملتا ہے اور کہیں شرک و بدعات کی ہاہاکار ہے۔قرآن کے بنیادی تصورات اور عقائد سے عام مسلمان کوسوں دورہوچکا ہے جومسلمانوں میں فرقہ بندی اور گروہ بندی کی بنیادی وجہ ہے۔یہاں ہر مسلمان قرآن و سنت سے لاتعلق اپنے لئے الگ عقیدے وضع کربیٹھا ہے کوئی ”ختم“اور”شیءًالِلّٰہِ“جیسے خود ساختہ اور کفریہ اعمال میں اپنے لئے مغفرت تلاش کرتا ہے تو کوئی اولیاء اللہ کی قبورکو وسیلۂ نجات جانتا ہے۔کوئی اللہ کو ہر جگہ (Monism)ماننے کا قائل ہے اور کوئی ہر شَے میں رَب کا وجود (Pantheism)دیکھتا ہے۔گویا کہ مسلمانوں نے قرآن کو ایک رسمی کتاب کا درجہ دے رکھا ہے اس کی تعلیمات اور عقائد اپنے لئے کافی تصور نہیں کرتے ؎
خوار از مہجور ے قرآں شدی
شکوہ سنج گردشِ دوراں شدی
”یعنی تم قرآن سے دور ہوکر رسوا ہوگئے‘مگر افسوس کہ تم اپنی رسوائی کا الزام زمانے پر ڈال رہے ہو۔“
تَفِرقہ نہ ڈالو
تاریخ گواہ ہے کہ جوقوم تفرقہ میں پڑتی ہے وہ اپنی حیثیت اور اپنی پہچان کھوبیٹھتی ہے۔مسلمانوں کی موجودہ صورتِ حال اظہر من الشمس ہے۔عالمی سطح پر مسلمانوں کی کیا حیثیت رہ چکی ہے وہ کویئ پُر اسرار بات نہیں۔ چالیس سے زیادہ ممالک میں مسلمانوں کی اپنی حکومت ہے لیکن قرآن وسنت کی تبلیغ اور اشاعت کے بجائے وہ اپنی اپنی رسی کھینچنے میں لگے ہیں‘دین ِ اسلام کی اصل صورت مسخ ہوکر رہ چکی ہے۔ بقول شاعر ؎
رہ گئی رسمِ ازاں روحِ بلالی نہ رہی
امریکہ کے سابق مشیر” Samuel P Hongtington “ نے ”Clash Of Civilizations“ کے نام سے ایک کتاب شایع کی ہے۔اس کتاب میں وہ مسلمانوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ مسلمان ایک ایسی قوم ہیں کہ یہ دنیا کی کسی بھی طاقت سے نبردآزما ہوسکتی ہے وہ امریکہ ہو یا کوئی اور۔موصوف اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ مسلمانوں میں کچھ چھوٹی چھوٹی چیزوں میں اختلاف پایا جاتاہے جب تک یہ اُن اختلافات میں الجھے رہینگے باقی قوموں کے لئے بہتر ہے۔ ؎
منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی دین بھی ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی ‘اللہ بھی‘ قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
کوئی بھی خارجی قوت مسلمانوں کو وہ نقصان نہ پہنچا سکی جو نقصان مسلمانوں کو آپسی تفرقہ سے پہنچا ہے۔ اور اس پھوٹ اور آپسی تفرقہ کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے مسلمان قرآن وسنت کا راستہ اور صحابہ ؓ کا فہم ترک کرکے تصوف‘فلسفہ اور علم الکلام جیسی فکریات (Ideologies) میں الجھ گئے۔
اسلام میں جماعت کا تصور:۔سورہ انعام میں اللہ تعلی کا ارشاد ہے:(اِنَّ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْادِیْنَھُمْ وَکَانُوْاشِیَعًا لَّسْتَ مِنْ ھُم فِیْ شَیْءٍ اِنَّمَا اَمْرُھُمْ اِلَی اللّٰہِ ثُمَّ یُنَبِّءُھُمْ بِمَاکَانُوْ ایَفْعَلُونَ) ”بے شک وہ لوگ جنہوں نے اپنے دین کو جدا جدا کرلیا اور مختلف گروہ بن گئے‘آپ(اے محمدؐ) کسی بھی چیز میں ان سے تعلق نہیں رکھتے ان کا معاملہ تو اللہ ہی کے حوالے ہے‘پھر وہ انہیں بتائے گاجو کچھ وہ کرتے تھے“]آیت نمبر:159[
اس آیت کی تفسیربیان کرتے ہوئے ابو نعمان سیف اللہ خالدحفظہ اللہ رقمطراز ہیں:
”نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد پر اللہ تعلی نے قیامت تک ہر شخص کے لئے آپ پر ایمان لانا اور آپؐکے طریقے پر چلنا لازم قرار دے دیا۔اب جو شخص بھی کوئی جدا راستہ اختیار کرکے الگ گروہ بنائے‘ خواہ دہریہ ہو یا مشرک یا یہودی ونصرانی تو اللہ تعلی اپنے نبیؐ کو حکم دے رہے ہیں کہ آپ ان سے بری ہیں اور آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں۔اس طرح آپ کی امت میں اسلام قبول کرنے کے بعد جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کے احکام یعنی قرآن وسنت کے علاوہ کوئی نیا طریقہ (تصوف‘علم الکلام‘طریقت وغیرہ جیسی)بدعت اختیار کرکے اپنا الگ گروہ بنالیں آپ ان سے بری ہیں آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں“]تفسیر دعوت القرآن جلد دوم، صفحہ نمبر: 266[
سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آپس میں اختلاف مت کرو‘تم سے پہلے لوگوں نے اختلاف کیا تو وہ ہلاک اور بربا دہوگئے]بخاری:2666[
یہاں پر یہ بات واضح کردوں کہ اختلاف کئی طرح کے ہوتے ہیں کچھ اختلافات کا تعلق فروع سے ہوتا ہے اور کچھ کا تعلق اصول سے۔فروع سے مراد دینِ اسلام کے وہ معاملات ہیں جو عمل سے متعلق ہوں جبکہ اصول سے مراد دینِ اسلام کے وہ بنیادی عقائد ہیں جن میں کسی بھی طرح کی کوئی تبدیلی کرنے سے ایک انسان الحاد اور کفر کا مرتکب ہوسکتا ہے۔مثال کے طور پر اللہ کی ذات سے متعلق قرآن کے اندر ”استویٰ علی العرش“کے الفاظ آئے ہیں یعنی اللہ عرش پر مستوی ہوگیا۔اب کوئی فرد اپنی عقل کے گھوڑے دوڑاتا ہے اور کہتا ہے کہ اللہ تعلی مقام کی قید سے آزاد ہے اور ہر جگہ موجود ہے یا ہر چیز میں موجود ہے۔تو اس سے بڑا تفِرقہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ قرآن کی غلط اور عقلی تاویل کرکے امت کو الجھایا جائے۔اللہ تعلی کے استویٰ علی العرش کا معاملہ تو ایسا ہے کہ اصحابِ رسول ؐ اور دیگر سلفِ صالحین کے یہاں بھی اس پر سکوت ملتا ہے۔امام حافظ ابنِ کثیرؒ اس حوالے سے کہتے ہیں:”مناسب یہی ہے کہ اس مقام میں سلفِ صالحین کی روش اختیا کی جائے۔جیسے امام مالکؒ‘امام اوزاعیؒ‘امام ثوریؒ‘ امام لیث بن سعدؒ‘ امام شافعیؒ‘امام احمد ؒ‘امام اسحاق بن رہویہؒ‘وغیرہ وغیرہ ائمہ سلف وخلف ان سب بزرگانِ دین کا مذہب یہی تھا کہ جیسی یہ آیت(استویٰ علی العرش)ہے اسے اسی طرح رکھا جائے بغیرِ کیفیت کے‘ بغیرتشبیہ کے اور بغیرِ مہمل چھوڑنے کے‘ہاں مشبہین کے ذہنوں میں جو چیز آرہی ہے اس سے اللہ تعلی پاک اور بہت دور ہے“]تفسیر ابنِ کثیر،سورہ اعراف۔54[
قرآن وسنت کی یہ غلط اور عقلی تاویل کرکے بہت سے لوگوں نے نہ صرف یہ کہ عوام کو گمراہی کے اندھیروں میں دھکیلا‘بلکہ مسلمانوں کے درمیان فوٹ اور تفرقہ بھی ڈالا ہے۔علامہ اقبال کے چند فارسی اشعار باربار میرے ذہن میں آرہے ہیں‘وہ کہتے ہیں۔ ؎
زمن بر صوفی و مُلا سلامے
کہ پیغامِ خدا گفتند مارا
ولے تاویلِ شاں در حیرت انداخت
خدا و جبریل و مصطفیؐ را
”صوفی اور مُلا کی کو میرا سلام پیش کرو‘ کیونکہ انہوں نے خدا کا پیغام ہم تک پہنچایا۔لیکن خدا کے اس پیغام کی انہوں نے ایسی تاویل کی ہے کہ خدا‘جبریلؑ اور محمدِ مصطفیؐ تینوں حیران ہیں“
جماعت کی فضیلت
اس میں دورائے نہیں کہ مسلمان کئی گروہوں اور جماعتوں میں بٹ چکے ہیں۔لیکن اس کا قطعًا یہ مطلب نہیں کہ ہم ان سب جماعتوں سے کنارہ کش ہوکر علیحدگی اختیار کرے‘ بلکہ جماعت سے علحیدہ رہ کرکسی بھی شخص کا دین محفوظ نہیں رہ سکتا۔چنانچہ اس ضمن میں صحیح بخاری سے کتاب الفتن کی حدیث کوٹ کررہا ہوں۔حضرت حذیفہ ؓ کہتے ہیں کہ لوگ اللہ کے رسول ؐ سے خیر سے متعلق پوچھا کرتے تھے‘جبکہ میں آپؐ سے شر کے متعلق سوال کرتا تھا۔اس خوف سے کہ کہیں میں شر میں مبتلا نہ ہو جاؤں۔ایک دن میں نے پوچھا کہ یا رسول اللہؐ!ہم جاہلیت میں پڑے تھے‘برائیوں میں پڑے تھے کہ اللہ نے ہمیں اس خیر(اسلام) سے مشرف فرمایا‘تو کیا اس خیر کے بعد بھی کوئی شر ہے؟اللہ کے رسولؐ نے فرمایا ”ہاں“۔میں نے پوچھا‘کیا اس شر کے بعد پھر خیر بھی ہے؟رسول اللہؐ نے فرمایا ”ہاں“ لیکن اس میں ”کدورت“ہوگی۔ میں نے پوچھا کدورت کیا ہوگی؟تو اللہ کے رسول ؐ نے فرمایا کہ ایسے لوگ بھی ہوں گے جو میرے طریقہ کی بجائے دوسرے طریقوں (تصوف‘فلسفہ‘طریقت‘علم الکلام‘مسلک پرستی وغیرہ)کی طرف رہنمائی کریں گے‘تم ان کی کچھ باتوں کو اچھا اور کچھ باتوں کو برا سمجھو گے۔میں نے عرض کیا‘کیا اس خیر کے بعد پھر شر ہوگا؟رسول اللہ ؐ نے فرمایا ہاں!لوگ (یوں گمراہی پھیلائیں گے) گویا کہ وہ جہنم کے دروازے پر کھڑے ہوکرلوگوں کو بلا رہے ہوں گے۔جو ان کی پکار پر لبیک کہے گاوہ اُسے جہنم میں ڈال دیں گے۔میں نے پوچھا یا رسول اللہ ؐ ان کی کوئی صفت ہم سے بیان کردیجیے۔اس پر رسول اللہؐ نے فرمایاکہ وہ ہماری ہی قوم کے لوگ ہوں گے اور ہماری ہی زبان میں باتیں کریں گے۔میں نے پوچھا اگر میں وہ زمانہ پالوں تو مجھے آپ کس بات کا حکم دیتے ہیں؟رسول اللہ ؐ نے فرمایا کہ ”تمہیں مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام سے چمٹے رہنا ہوگا“میں نے پوچھا اگر نہ مسلمانوں کی کوئی جماعت ہو اور نہ کوئی امام؟تو رسول اللہ ؐ نے فرمایا ایسی حالت میں تمام فرقوں سے علحیدہ ہوجانا‘خواہ تمہیں درخت کی جڑیں ہی کیوں نہ چبانی پڑیں‘حتیٰ کہ تمہیں موت آئے تو اسی حالت میں موت آئے۔ اس حدیث سے کئی چیزوں کی وضاحت ہوجاتی ہے۔اول تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ لوگ قرآن وسنت کو چھوڑکر دین کے نام پر دوسرے طریقوں کو رواج دینگے‘دوم یہ کہ یہ لوگ مسلمانوں ہی میں سے ہونگے۔کیوں کہ حدیث میں کہا گیا ہے کہ وہ لوگ ہماری ہی قوم کے ہونگے اور ہماری ہی زبان میں بات کرینگے۔یہ بھی کہا گیا کہ اُن کی کچھ باتیں اچھی اور کچھ باتیں بری ہونگی۔ میرے نزدیک رسول اللہ ؐ کی یہ پیشن گوئی من وعن پوری ہوچکی ہے۔بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ صحابہ ؓ کے دور سے ہی مسلمانوں میں الحاد کی تخم ریزی شروع ہوگئی تھی‘ جس کا پہلا بیچ عبداللہ ابنِ سبایمنی نے بویا تھا۔ جو یہودی الاصل تھا اور اسلام کا پیرہن زیبِ تن کرکے مسلمانوں کو ہر ممکن توڑنے کی کوشش کی۔ ڈاکٹر ابو عدنان سہیلؔ لکھتے ہیں:۔ ”سب سے پہلے عبداللہ بن سبا نامی یہودی نے جو یمن کا رہنے والا تھا‘ایک سازش کے تحت اسلام قبول کیا
اور پھر وہ مسلمانوں کے درمیان رہ کر مکر وفریب کے جال پھیلانے میں مصروف ہوگیا۔قسمت نے اس کی یاوری کی اور نئے نئے دائرہ اسلام میں داخل ہونے والے اس وقت کے مسلمان (خصوساً مصر اور عراق کے
علاقہ میں)اس کے دامِ فریب میں آگئے۔اور ان لوگوں کی ریشہ دوانیوں کا پہلا ہدف حضرت عثمانِ غنیؓ کی ذاتِ
مبارکہ ہوئی۔آپؓ کی شہادت کے خونچکاں واقع اور پھر اس کے نتیجہ میں جنگِ جمل وصفین میں مسلمانو ں اور
خاص کر صحابہ کرامؓ کے قیمتی خون کی ارزانی نے ملتِ اسلامیہ کو ہلاکر رکھ دیا۔“ اسلام میں بدعت و ضلالت کے محرکات
صفحہ نمبر : 38
اس کے بعد بہت سے فتنوں نے امتِ مسلمہ کو گھیر لیا۔عبداللہ ابن سبا کے نفاق نے مسلمانوں میں شیعانِ علی اورحرورہ خارجی دو بنیاد فرقوں کو وجود بخشا۔جن کی بنیاد پر بعد میں بہت سے مختلف فرقے وجود میں آئے۔ لیکن اس سے بھی بڑا المیہ تو یہ ہے کہ مسلمانوں کی فکر (Ideology) ٹوٹ گئی جبکہ قرآن نے انہیں ایک فکر پر جمع کیا تھا۔ اور رسول اللہ ؐ نے اپنے صحابہؓ کو جو فہم و فراست بخشی تھی وہ بعد میں مفقود ہوگئی۔قرآن و سنت کو سمجھنے کے لئے مسلمانوں نے تصوف اور علم الکلام جیسے نئے پیمانے تراشے جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمانوں کے ہاتھوں سے اللہ کی مضبوط رسی چھوٹ گئی اور مسلمان ادھراُدھر بکھر گئے۔اس کے بعد امت میں اتحاد کے فقدان کو لیکرپچھلی کچھ صدیوں میں مسلمانوں میں مختلف تنظیمیں اور تحریکیں وجود پزیر ہوئیں جو ایک مثبت فکر لیکر تو ضرور اُٹھی تھیں لیکن ان میں سے اکثر تنظیمیں اور تحریکیں کوئی مثبت نتیجہ اخذ نہ کرسکیں۔ اصل حقیقت تو یہ ہے کہ ان تحریکوں نے یا تو اجتماعیت پر ساری توجہ مرکوز کی یاپھر کچھ مخصوص اشخاص کی فکر کی تبلیغ واشاعت پر اپنا زور صرف کیا‘ جبکہ ضرورت اس بات کی تھی کہ اسلامی تعلیمات کو اُن خارجی اثرات اوربدعات سے پاک کیا جاتا جنہوں نے اسلام کی اصل صورت کو مسخ کرکے امت میں تفرقہ ڈالاہے۔جیسے تصوف‘فلسفہ‘علم الکلام اور طریقت وغیرہ۔ علامہ اقبال کا ایک شعرذہن میں گردش کررہاہے‘شعر ذر ا سی تبدیلی کرکے کوٹ کررہاہوں۔ ؎
تمدن‘تصوف‘طریقت‘ کلام
بتانِ عجم کے پجاری تمام
آخری بات
اس وقت مسلمانوں میں کئی جماعتیں پائی جاتی ہیں۔جومختلف فکریات پر کا م کرتی ہیں۔میں پہلے بھی عرض کرچکا ہوں کہ ہم تمام جماعتوں سے کنارہ کش ہوکر علحیدگی اختیار نہیں کرسکتے۔حضرت حذیفہ ؓ کی روایت کردہ حدیث قبل ازیں گزرچکی ہے۔ اس کے علاوہ حضرت عمر ؓ کی ایک روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایاکہ تم میں سے جو شخص یہ چاہتا ہے کہ وہ جنت کے درمیان میں جگہ پائے تو وہ جماعت کے ساتھ چمٹ جائے‘کیونکہ اکیلے شخص کے ساتھ شیطان ہوتا ہے اور دو آدمیوں (جماعت)سے دور ہوتاہے(مستدرک حاکم)۔
کون سی جماعت سے انسان منسلک ہو جائے؟یہ ایک اہم سوال ہے۔ جس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ مسلمانوں کی ایسی جماعت جو تصوف‘فلسفہ‘طریقت اور علمِ کلام جیسی بعد کی اختراعات سے صرف نظر قرآن و سنت کو محض صحابہ کرام ؓ کے فہم پر سمجھنے کی کوشش کرتی ہو۔تمام اختلافات سے صرفِ نظر ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ موجودہ زندگی میں اللہ کو راضی کرے‘جس کاواحد راستہ یہ ہے کی صحابہ ؓ کاطریقہ اختیار کیا جائے‘جہاں تصوف کی آمیزش تھی اور نہ علم الکلام کا وجود۔