جموں وکشمیر کی سیاسی صورتحال گذشتہ تین دہائیوں سے کروٹیں بدلتی رہی ہیں تاہم منسوخی دفعہ 370،آرٹیکل 35Aاورریاست کو یونین ٹریٹری میں تبدیل کرنے کے بعد یہاں سیاست کانقشہ ہی بدل گیا۔جوسیاسی پارٹیاں یہاں کی سیاست کو پروان چڑھانے کیلئے نت نئے ایجنڈے سامنے لارہی تھیں۔وہیں 5اگست 2020کے بعد ان سیاسی پارٹیوں کے لیڈران کو خانہ و تھانہ نظر بند کردیا گیا۔جس سے یہاں کی سیاست دم توڑ بیٹھی۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مرکز کے فیصلے حتمی ہوتے ہیں اور ریاست یا کسی خطے کی سیاست مرکزی حکومت کے ایما پر ہی چلتی رہتی ہیں۔
مرکزی سرکار نے چند ماہ کے بعد وقفے وقفے سے سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے کا سلسلہ شروع کیا اور بیشتر مین اسٹریم لیڈران وکارکناں کو رہا کرنے کے بعد ڈی ڈی سی انتخابات کا بگل بجا دیا ۔یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ جیلوں سے باہر آنے کے بعد نیشنل کانفرنس،کانگریس،پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی،پیپلز کانفرنس،عوامی نیشنل کانفرنس ودیگر کئی جماعتوں نے گپکار اعلامیہ کے تحت ایک مشترکہ پلیٹ فارم قائم کیا اور جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کو بحال کرنے اور لوگوں سے چھینے گئے حقوق کی بحالی کے ایجنڈے پر ڈی ڈی سی انتخابات میں مشترکہ طور حصہ لینے کا فیصلہ لیا اور انتخابی میدان میں آکر دونوں خطوں کے تمام اضلاع میں اپنے امیدوار کھڑا کئے جبکہ سید الطاف بخاری کی سربراہی والی ”اپنی پارٹی“ اور بھارتیہ جنتا پارٹی نے بھی ڈی ڈی سی امیدواروں کو انتخابی عمل میں لایا اورتمام پارٹیوں کے امیدواروں نے پرانی روایات کو دہراتے ہوئے تعمیروترقی اور انسانی حقوق کی بحالی و مسائل کے حل کو ایجنڈا بناکر لوگوں کی دل بہلائی کی اور لوگ ایک بار پھر ایک امید کے ساتھ ان سیاستدانوں کے جھانسے میں آگئے اورپولنگ مراکز میں جاکر ووٹ ڈال دئے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اب تک ڈی ڈی سی انتخابات کے چھ مراحل طے ہوئے۔
ان انتخابات کے حوالے سے پیپلز الائنس کے جملہ لیڈران کا دعویٰ ہے کہ وہ جموں وکشمیر میں بھاری جیت درج کریں گے کیونکہ لوگوں نے تبدیلی اور بحالی کے نام پر جم کر ان کے امیدواروں کے حق میں ووٹ ڈالے۔اگر چہ یہ قبل از وقت کہنا بے جا ہوگا تاہم رجحان کے مطابق یپپلز الائنس کے زیادہ سے زیاد ہ امیدوار جیت حاصل کرسکتے ہیں۔اپنی پارٹی نے ڈی ڈی سی انتخابات کے حوالے سے اپنا ایجنڈا پیش کرتے ہوئے کہاہے کہ جموں وکشمیر کی ہمہ جہت ترقی ان کی ترجیحات میں شامل ہے۔جہاں تک انتخابی مہم کے دروان ایجنڈے کا تعلق ہے تو گپکار اتحاد اور اپنی پارٹی میں بھی یکسانیت ہے لیکن اپنی پارٹی اس اتحاد سے باہر کیوں؟اس حوالے سے انتخابات کے بعد ہی حقائق سامنے آنے کی توقع ہے۔بھارتیہ جنتا پارٹی کا پی ڈی ڈی کے ساتھ گٹھ جوڑ سے پہلے جموں وکشمیر میں کوئی وجود نہیں تھا اور اس وقت تک تقریباً صر ف ایک دو کانسٹی چیونسی میں ان کے امیدوار میدان ہوتے تھے لیکن اب بی جے پی ٍکے امیدوار بھی میدان میں ہیں۔ووٹ اور سپورٹ ان کے حق میں کتنا اور کیا ہے؟لیکن روڑشو کرکے ان تمام مین اسٹریم جماعتوں پر دباؤ بنائے رکھے ہیں۔
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ سیاستدانوں کی لوگوں کے تئیں دل بہلائے کیلئے ہمیشہ باتیں ہوائی ہوتی ہیں۔یہ ایک طرف ٓآتی ہیں اور تنکے کی طرح ہوا میں اڑ جاتی ہیں۔بہرحال ڈی ڈی سی انتخابات کے بعد ہی معلوم ہوگا کہ یہاں کی سیاست کس کروٹ بیٹھے گی۔ہاراور جیت کا مسئلہ درپیش نہیں البتہ وعدے وفا ہوجائے یا پرانی روایات کوہی دہرایا جارئیگا۔ضرورت اس بات کی کہ جو بھی پارٹی اکثریت حاصل کرے گی یا جو امیدوار جیت درج کرے گا ان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ لوگوں سے کئے ہوئے وعدوں کو پورا کرنے میں اپنا مخلصانہ رول ادا کریں تاکہ تعمیروترقی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوجائے اور مسائل کے حل کی امیدیں بھی بھر آئیں گی۔