تحریر:حافظ میر ابراھیم سلفی
بارہمولہ کشمیر
زمین چمن گل کھلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسمان کیسے کیسے
نہ گور سکندر نہ ہے قبر دارا
مٹے نامیوں کے نشان کیسے کیسے
امام محمد بن اسماعیل بخاری رحمہ اللہ تعالی نے اپنی الجامع الصحیح کے اندر ایک روایت نقل کی ہے کہ "اور بلاشبہ اگر اہل جنت میں سے کوئی عورت زمین کی طرف جھانکے تو جو کچھ اس کے درمیان ہے اس کو روشنی سے بھر دے اور اس کو خوشبو سے بھر دے اور البتہ اس کے سر کا دوپٹہ دنیا اور دنیا کے خزانوں سے زیادہ بہتر ہے”.(رقم الحدیث 2796) اس حدیث پاک سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت کی خوشبو نہایت ہی اعلیٰ ہے۔ تخلیق ابن آدم کا مقصد یہی ہے کہ اس روئے ارض پر اپنی حیات میں اللہ عزوجل کی رضامندی حاصل کی جائے تاکہ ہماری عقبی اعلی و ارفع ہو۔ لیکن جدیدیت اور معیشت کے اس طوفان میں ہم فکر آخرت سے جدا ہوگئے ہیں۔ دنیا کی اس عارضی مٹھاس نے ہمیں اپنی لپیٹ میں بری طرح لیا ہے۔ جنت و جہنم کوئی افسانہ یا داستان نہیں بلکہ ایک واضح حقیقت ہے جس سے ابن آدم بھاگتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ لیکن مغربیت کے اس پرفتن دور میں بھی کامیابی کی ضمانت رجوع الی اللہ میں ہی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے صحیح بخاری کے اندر ہی ایک اور ایمان افروز روایت نقل کی ہے کہ تاجدار حرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "میں جنت کی سیر کر رہا تھا کہ اچانک ایک نہر پر پہنچا اس، کے دونوں کناروں پر خول دار موتیوں کے گنبد بنے ہوئے تھے۔ میں نے پوچھا:جبریل یہ کیا ہے؟ جواب دیا گیا ‘یہ کوثر ہے جو آپ کے رب نے آپکو عطا کیا تھا ، میں نے دیکھا کہ اس کی خوشبو کستوری سے بھی زیادہ تیز تھی”.(رقم الحدیث 6581) جنت کی نعمتیں عظیم اور ابدی ہیں جو ہر نقص سے پاک و طیب ہیں۔ جنت کی حیات وہ مبارک حیات ہے جس میں نہ کسی طرح کی تھکان، نہ کسی طرح کا پسینہ، نہ ظلم و جبر کے انجمن، نہ طاغوتی علمبرداروں کا دبدبہ۔مسند احمد کی روایت میں جنت کی مبارک مٹی کے بارے میں آیا ہے کہ "میں نے اسکی مٹی پر اپنا مبارک ہاتھ مارا تو اس کی خوشبو بھی کستوری سے اعلی اور عمدہ تھی۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ یہ مشابہت فقط لفظی ہے جبکہ مہک، حلاوت اور ٹھنڈک میں دنیا کی کستوری و کافور جنت کی نعمتوں کا عشر عشیر کا مقابلہ بھی نہیں کرسکتے۔
یہ دنیاوی حیات آلام و مصائب، ھم و حزن سے گیری ہوئی ہے۔جبکہ حیات عقبی مت نہ کسی کی جدائی کی رنج، نہ کسی سے بچھڑنے کا غم۔ جنت کی مبارک زندگی میں نہ دل بے چین ہونگے اور نہ سکون کے منافی اعمال ہونگے۔ اہل جنت کا پسینہ بھی کستوری کی مہک سے بھرپور ہوگا۔
وہ ایسی حسین و جمیل حیات ہے کہ جس کی ثنا خوانی الفاظ سے ممکن نہیں۔ محدث العصر علامہ البانی رحمہ اللہ نے الصحیحہ کے اندر نقل کیا ہے کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "جنت میں ایک بازار لگے گا۔ جس میں لوگ ہر جمعہ کو جمع ہونگے ، اس میں ڈھیروں کستوری ہوگی ، پس شمال سے ہوا چلے گی جو ان کے کپڑوں اور چہروں میں کستوری کی خوشبو بکھیر دے گی، جس سے ان کے حسن و جمال میں اضافہ ہی ہوتا رہے گا۔ پس جب وہ اپنے گھر والوں کی طرف واپس جائیں گے تو ان کے گھر والے کہیں گے’ اللہ کی قسم! تم ہمارے بعد حسن و جمال میں بڑھ گئے ہو جواباً وہ بھی اپنے اہل خانہ کی خوبصورتی میں اضافے کی گواہی دیں گے”.(رقم الحدیث 3471) کتنا آرام، کتنا سکون۔۔ ۔ ہر طرف سے خوشی و مسرت کے انجمن سجے ہوئے، ہر طرف مسکراہٹ کی چہچہاہٹ۔۔۔۔ ہر سمت رحمت خداوندی کا نزول۔۔۔۔ شمال و جنوب، مشرق و مغرب نعمتوں، برکتوں کا نزول۔۔۔۔ نہ پیشاب و پاخانہ کی پریشانی، نہ محنت کا کوئی کام، دلوں کے ارادے حقیقت میں تبدیل ہوتے ہوئے۔ ۔۔ دلوں کی مرادیں، دلوں کی چاہتیں حقیقت میں بدلتے ہوئے۔یہی فوز الکبیر اور فتح مبین ہے۔۔۔ اے ابن آدم تم کہاں بھٹکتے ہوۓ جارہے ہو؟؟ فرمان ربانی ہے کہ "یقینا پرہیزگار لوگوں کے لئے کامیابی ہے۔ باغات ہیں اور انگور ہیں۔ اور نوجوان کم عمر عورتیں ہیں۔ اور چھلکتے ہو جام ہیں۔ وہاں نہ تو وہ بیہودہ بات سنیں گے اور نہ جھوٹ۔تیرے رب کی طرف سے ( ان کے اعمال کا ) یہ بدلہ ملے گا جو کافی انعام بو گا۔” (القرآن )
آہ ! قدرت کا یہ شاہکار آدمی
کھا رہا کر ب پیہم کی مار آدمی
جانے کس جرم کی ہے سزا دیکھ لو
ہے پریشان لیل ونہار آدمی
تاجدار حرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت و وصیت کی تھی کہ اس دنیا میں مثل مسافر اور اجنبی بن کے رہنا۔ جب صبح نصیب ہو جائے تو شام کے انتظار میں نہ رہنا، جب شام نصیب ہو جائے صبح کے انتظار میں نہ رہنا۔اپنی جوانی کو بڑھاپے سے پہلے، صحت کو بیماری سے پہلے، زندگی کو موت سے پہلے، فرصت کو مشغولیت سے پہلے اور دولت کو فقر سے پہلے غنیمت جان لینا۔اپنے آپ کو اہل قبور کے صف میں شمار کرنا۔ دنیا اور عورتوں سے بچ کر رہنا۔ابن آدم اموال، اولاد کی زینت میں دلدل میں پھنس کر اپنی اخروی خوشیوں کو قربان کررہا ہے۔ یہ دنیا فقط لہو و لعب، دھوکہ اور تفاخر کی جگہ ہے جسے دوام حاصل نہیں۔عورتوں کے حسن و جمال، صنف نازک کی چالوں میں پھنس کر ہم حوروں سے کنارہ کشی اختیار کر رہے ہیں۔چند ایام کی چاندنی کے خاطر اپنی شرم و حیا کا سودا کرنے والے یاد رکھیں کہ ‘جنت کے کپڑے بوسیدہ نہیں ہونگے، نہ جوانی کے جوبن میں کوئی فرق آئے گا ، وہاں کے پتھر بھی لولو اور یاقوت جیسے قیمتی ہونگے۔ اسی طرح جنت کی مہندی بھی اعلی مہک کی حامل ہوگی۔
کیا سماں ہوگا۔۔؟ جب ٹھنڈی فضاؤں میں، خوبصورت نہروں سے ہمارا گزر ہوگا۔ جنت کی وادیوں میں ہماری دل جوئی کی جائے گا۔ ایک فقیر کو لایا، جائے گا جس کی پوری زندگی مشکلات اور مصائب میں گزری ہوگی، اللہ اسے جنت کی وادی میں ایک گھڑی کے لئے
بیجھے گا اور واپس نکال کر سوال کرے گا کہ، اے ابن آدم! کیا تم نے کوئی پریشانی دیکھی ہے؟ بندہ عرض کرے گا کہ "اے میرے رب میں نے تکلیف کا نام بھی نہیں سنا ہے”۔
دنیا میں عریانی و فحاشی کا بازار گرم کرنے والے اس خواب غفلت میں ہیں کہ ہمیں جواب نہیں دینا ہے لیکن اے ابن آدم؟ تمہیں ہر فعل کا جواب دینا ہوگا۔ جنت حاصل کرنا مشکل نہیں لیکن جس کا دماغ مغربیت کی خباثت سے آلودہ ہوچکا ہو، اس کے لئے یہ کسی خواب سے کم نہیں۔دوسری جانب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر سنائی ہے کہ جس بندے نے دین کا علم محض دنیاکمانے کے لئے کیا وہ بھی جنت کی خوشبو سے محروم رہے گا۔ آج اس حدیث کی عملی تصویر آپکو ملے گی، علم کے ہوتے ہوئے جہل کی بھرمار ہے، نہ دلوں میں محبت، نہ سینے میں پیار ہے۔اتحاد کے کھوکھلے نعرے، نفاق کا اعلی روگ اپنی بلندی پر ہے۔دین بھی فقط درس و تدریس تک محدود رہا، نہ زھد و تقوی ہے اور نہ شوق عمل۔ جنت میں اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کی جسمانی اور روحانی لذتوں کے سامان پیدا کیے ہیں۔ جن کا حاصل یہ ہے کہ ان نعمتوں کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کان نے سنا، نہ کسی کے دل میں اس کا خطرہ گزرا، بڑے سے بڑے بادشاہ کے خیال میں بھی وہ نعتیں نہیں آسکتی ہیں جو ایک ادنیٰ جنتی کو ملیں گی۔سب سے بڑی نعمت جو مسلمانوں کو اس روز ملے گی وہ اللہ تعالیٰ کا دیدار (دیکھنا ) ہے کہ اس نعمت کے برابر کوئی نعمت نہیں، جسے ایک بار اللہ کا دیدار نصیب ہوگا، وہ ہمیشہ ہمیشہ اسی کے ذوق میں ڈوبا رہے گا کبھی نہ بھولے گا۔رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا” جنت میں ایسے محل ہیں جن کے اندر (کھڑے ہوں) تو باہر کی ہر چیز نظر آتی ہے اور باہر(کھڑے ہوں) تو اندر کی ہر چیز نظر آتی ہے ”.ایک اعرابی نے کھڑے ہو کر عرض کیا” اے ﷲ کے نبی صلی ﷲ علیہ وسلم ! یہ کس آدمی کے لئے ہے؟” آپ صلی ﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ” اس کے لئے ہے جو اچھی بات کرے، کھانا کھلائے ، بکثرت روزے رکھے اور جب لوگ مزے کی نیند سو رہے ہوں اٹھ کر نماز پڑھے۔ "(سنن ترمزی)
جنت کے مناظر دیکھنے ہیں تو قرآنی آیات کی طرف رجوع کیا جاے، خصوصاً مکی سورتوں کی آیات جن میں آخرت کے احوال بڑی فصاحت اور بلاغت کے ساتھ بیان کئے گئے ہیں۔ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ” جو شخص مجھے ضمانت دے اس چیز کی جو دو جبڑوں کے درمیان ہے ( یعنی زبان) اور اس چیز کی جو دو ٹانگوں کے درمیان ہے(یعنی شرمگاہ) میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔”(بخاری) سیدنا جابر رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم سے سوال کیا” یا رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم اگر میں فرض نمازیں ادا کروں ، رمضان کے روزے رکھوں( شریعت کی) حلال کردہ چیزوں کو حلال جانوں اور حرام کرہ چیزوں کو حرام جانوں لیکن اس سے زیادہ کچھ نہ کروں ، تو کیا میں جنت میں چلا جاؤں گا ؟” آپ صلی ﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”ہاں” ۔(اسنادہ صحیح) یہ جنت یونہی نہیں ملتی۔۔۔۔ جب آخرت تمہاری ترجیحات میں آجائے تب جاکر بات بنے گی۔ جب علم و عمل کا تضاد مٹ جائے گا، تب بات بنے گی۔ جب خلوت و جلوت محرمات سے پاک ہوجائے، تب جاکر بات بنے گی۔ سیرت صحابہ کے درخشاں پہلو اس بات کو واضح کر رہے ہیں کہ ان کے ایمان کی سطح اپنے انتہا پر تھی جبکہ ہماری اکثریت نے شروعی نصوص کو محض گمان سمجھ رکھا ہے۔ صبح بناو سنگھار کرکے گھر سے نکلنی والی میری بہن شاید اس ظن میں ہے کہ یہ شباب و کباب کی محفلیں عرسہ دراز تک باقی رہنے والیاں ہیں۔ ہر گز نہیں۔۔۔۔۔اپنے اخلاق و کردار کا جنازہ نکالنے والا ملت کا فرد شاید اس وہم میں ہے کہ یہ فانی دنیا میں ہمارا وطن ہے۔۔۔ ہر گز نہیں۔۔۔۔۔۔ دھوکہ، مکر و فریب کی چالیں کھیلنے والا میرا بھائی اس امید میں ہے کہ میں یہ دولت کما کر شاید اپنے آرام کی غرض سے دولت خانہ تعمیر کروں گا۔۔۔۔۔۔ افسوس کہ فرعون، نمرود، ھامان، ابو جہل، ابو لہب، سکندر اعظم وغیرہ کے پاس تمہاری دو ٹکے کی دولت کے مقابلے میں سونے کے خزانے ہوا کرتے تھے لیکن آج ان کا وجود بھی ظاہر نہیں۔۔۔
سیدنا مستورد بن شداد فرماتے ہیں کہ میں نے رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا کہ دنیا کی مثال آخرت کے مقابلہ میں ایسی ہے جیسے کہ تم میں سے کوئی اپنی ایک انگلی دریا میں ڈال کر نکال لے، اور پھر دیکھے کہ پانی کی کتنی مقدار اس میں لگ کر آئی ہے۔ "(مشکوۃ المصابیح) فرمان باری تعالیٰ ہے کہ "یہ دنیوی زندگی (اور اس کا ساز و سامان) تو بس چند دِنوں کے استعمال کے لیے ہے اور یقین جانوکہ آخرت ہی در اصل رہنے بسنے کا گھر ہے۔‘‘(المؤمن : ۳۹)اسی طرح ایک اور مقام پر رب ذوالجلال کا فرمان عالی ہے کہ "جو لوگ شقی ہوں گے وہ دوزخ میں ہوں گے، جہاں ان کے چیخنے چلانے کی آوازیں آئیں گی، یہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے”.(ھود) دوستو! سفر طویل ہے اتنا طویل کہ جس کا کوئی خاتمہ نہیں۔ سخت مراحل آنے والے ہیں۔۔۔ بہت سخت۔۔ کیا ہم تیار ہیں؟
موت سے کس کورستگاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے
آج اپنی سیاست کا ڈنکہ بجانے والے کل سیاہ تاریکیوں میں ہونگے۔۔۔ آج اپنی چرب زبانی سے بلندی حاصل کرنے والے کل رسوائی کے دلدل میں ہونگے۔۔۔ آج اپنی شرافت کی وجہ سے گمنام رہنے والے کل کے شہسوار ہونگے۔ ظالمو!! کہاں تک بھاگو گے؟ فرمان ربانی ہے کہ "تم جہاں کہیں بھی ہو موت تمہیں آپکڑےگی، گو تم مضبوط قلعوں میں ہو”.(القرآن) بقول شاعر
عمر دراز مانگ کر لائےتھے چاردن
دو آرزومیں کٹ گئے ، دو انتظار میں
سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ”یہ دنیا تمہاری جائے قرار نہیں، اللہ تعالیٰ نے فنا ہونا اس کا مقدر فرمادیا ہے، تمہیں سفر درپیش ہے اس لیے بہتر ین زادراہ تیار کرنے میں لگ جاؤ اور یاد رکھو کہ بہترین زاد راہ تقوی اور پرہیز گاری ہے ۔” (جامع العلوم والحاکم : 2/415)سیدنا یحییٰ بن معاذ رازی رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ ” دنیا شیطان کی شراب ہےجس نے اسے پی لی وہ بےہوش ہوگیا۔ اسے صرف موت کی گھنٹی ہی ہوش میں لائےگی۔ لیکن تب تک وہ گھاٹا اٹھا نے والوں کی فہرست میں شامل ہو چکا ہوگا۔” حرام خوری اور رشوت لے لے کر اپنے محلات سجانے والو! حرام کمائی سے رب کی جنت کیسے خریدو گے۔۔؟ غریبوں کے حق مار کر اپنی دنیا چمکانے والو! قہر الہی کی شدت سے تمہیں کون کس جگہ پناہ دے گی؟؟ عفت و عصمت کے سوداگرو! میزان اکبر میں اپنے کن اعمال کا وزن کرواؤ گے؟؟ جاگو!! ہوش میں آجاو!! رجوع الی اللہ میں دیر نہ کرو کیونکہ موت کا بازار گرم ہے۔۔۔ وہ وقت گیا کہ جب مرنے کے لئے بڑھاپے کا انتظار کرنا پڑتا تھا۔۔۔ اب تو نوجوان ملت ہی سفر آخرت کی طرف گامزن ہیں۔۔۔۔
Emotions, they are raw today,
I’m simply torn apart …
For hollow, wrenching feelings
Tear apart this very heart
اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ ہمیں قرآن و سنت کا فہم عطا کرے تاکہ ہمارے دل و دماغ میں آخرت کا تصور مضبوطی سے راسخ ہو جائے۔۔۔۔۔۔ آمین یا رب العالمین۔
مصنف اسلامک اسٹڈیز کے طالبِ علم ہے اور اُن سے [email protected] یا 6005465614 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔