عمران بن رشید
سیرجاگیر سوپور‘کشمیر
8825090545
علامہ اقبال ؒ کا ایک مشہور شعر ہے۔ ؎
ساحرِ الموط نے تجھ کو دیا برگِ حشیش
اور تو اے بے خبر سمجھا اسے شاخِ نبات
”الموط“قدیم زمانے میں عرب ممالک کے اندر ایک قلعہ تھا‘جس کے متعلق لوگوں میں یہ یقین بیٹھا تھا کہ جوبادشاہ اس قلعہ پر حاکم ہوجاتا ہے اُسے اس قدر طاقت(power) حاصل ہوجاتی ہے کہ دنیا اس کے آگے سرِ تسلیم خم کرلیتی ہے۔اتفاق سے یہ قلعہ ایران کے بادشاہ حسن صباحؔنے فتح کر لیا اور وہ اس پر حاکم ہوگیا۔دیکھتے ہی دیکھتے اس کی سلطنت وسیع سے وسیع تر ہوتی گئی‘وہ اردگرد کے بیشتر شہروں اور بستیوں پر حکومت کرنے لگا۔اس کی رعایا میں مختلف مذاہب اور قوموں کے لوگ شامل تھے۔وہ اپنی حکومت کو دنیا کی طاقت ور ترین حکومت (Super power)بنانے کے لئے ہر ممکن کوشش میں مصروف تھا‘وہ ہر قوم کو محکوم اور مغلوب بنارہاتھا اُن پر اپنی جابرانا حکومت اور قوانین مسلط کررہا تھاجس میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی ہوا۔
مسلمانوں کو توڑ نے اور زیر کرنے میں البتہ اُسے کافی دشواریاں پیش آئیں‘ اُس نے مسلمانوں کو جسمانی اذیتیں دیں‘ ان کے خلاف قتل و غارت کا بازار گرم کیا لیکن مسلمان اس کی جابرانا حکومت کو تسلیم کرنے پر کسی طرح راضی نہ ہوئے۔بالآخر حسن صباحؔ نے مسلمانوں کی فکر پر حملہ کیا‘وہ اس طرح کہ اُس نے قلعہ الموط کے اردگرد موجود خالی زمین کو ایک باغ میں تبدیل کردیا جس میں اُس نے حشیش(چرس)اور افیم کے پودے اُگائے‘باغ کے وسط میں شراب کا کنواں بھی رکھا‘یہاں تک کہ اس نے آس پاس کے شہروں سے کمسن اور خوبصورت لڑکیوں کواُٹھااُٹھاکر اس باغ میں ڈال دیا پھر مسلمان نوجوانوں کو گرفتار کرنے کا ایک سلسلہ چلایا جس کے تحت صدہا مسلمان نوجوانوں کو اُٹھاکر مذکورہ باغ میں اسیر کردیا گیا۔نتیجتاً ان نوجوانوں کو شراب‘چرس‘افیم اور کمسن لڑکیوں کی لت لگ گئی۔ایک دو مہینہ اسیر رہنے کے بعد جب اِن نوجوانوں کو رہا کیاگیا تووہ شراب‘ چرس اور کم سن لڑکیوں کی لت میں اس قدر گرفتار ہوچکے تھے کہ دو دن بھی سکون سے نہ رہ سکے‘ادھر ادھر تلاش کیا لیکن نہ کہیں شراب ملی اور کوئی دوسری نشہ آور شے‘کیوں کہ حسن صبا نے سماج میں سب نشہ آور اشیاء پر پابندی عائد کی تھی اور ان کو صرف اپنے اس تعمیر شدہ باغ میں میسر رکھا تھا۔بالآخر مجبور ہوکر یہ نوجوان حسن صباؔکے پاس جاکر اس کے سامنے گڑگڑانے لگے‘حسن صباؔ نے ان کے سامنے یہ شرط رکھی کہ جو کوئی اُن میں سے ایک مسلمان عالمِ دین کو قتل کرے گا اُسے باغ میں داخل ہونے کی اجازت دی جائے گی۔
نشے کی لت سے مجبور اِن نوجوانوں نے آگے دیکھا نہ پیچھے‘تلوار اُٹھائی اور اپنے ہی علماء کو موت کے گھاٹ اتاردیا۔پھر کیا تھا مسلمانوں میں افراتفری اور انتشار کا عالم برپاہوگیا‘لوگ علماء سے محروم اور دھڈہ بندی کا شکار ہونے لگے‘ایک مومن دوسرے مومن پر شک کی نگاہ اُٹھانے لگا‘بہت سے مسلمان محض شراب کی ایک بوتل کی خاطرحسن صباؔ کے لئے جاسوسی کرنے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے مسلمانوں کی جمعیت بکھر کر رہ گئی‘جس سے فائدہ اٹھاکر حسن صباؔ نے چٹان جیسی مضبوط مسلم قوم کی اینٹ سے اینٹ بجادی اور بآسانی یرغمال بنایا۔ یہی حال اس وقت پوری امتِ مسلمہ کا بالعموم اور کشمیری مسلم قوم کا بالخصوص ہے۔یہاں منشیات کو ہر ممکن پھلانے کی کوشش ہورہی ہے بلکہ سچ تو یہ کہ اغیارنے ہمارے نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد کو اپنے پنجۂ استبداد میں جھکڑ لیا ہے جس سے مفر کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔یہاں اب گلی گلی شراب‘افیم اور نشہ آور ادویات فروخت ہورہی ہیں وہ بھی خود ہمارے اپنے ہی ہاتھوں۔لڑکے تو لڑکے لڑکیاں بھی اس بدِبلامیں مبتلا ہو چکی ہیں جوسراسر ذلت اور رسوائی ہے۔سینے پر خنجر چلتے ہیں جب انسان دیکھتا ہے کہ چھوٹے چھوٹے معصوم بچے آبِ حیات کی طرح نشہ آور اشیاء کا استعمال کرتے ہیں‘آئے دن سوشل میڈیا(social media)یا اخبارات کے ذریعے اس طرح کی افسوس ناک خبریں موصول ہوتی رہتی ہیں۔
آپ کو بتادوں کہ ہمارے یہاں کے بہت سے تعلیمی اداروں میں بھی منشیات نے اپنی جھڑیں مضبوط کر لی ہیں۔سینگڑوں طلباء وطالبات اس دلدل میں جا گری ہیں کہ اب وہاں سے اُن کا ابھرنا قریب قریب ناممکن ہے۔ جب تعلیمی درسگاہوں جیسی مقدس جگہیں بھی اس ناپاک اور شیطانی مقصد کا شکار ہوں تو باقی کہنے کو بچتاہی کیا ہے۔ اب تو انسان کا کلیجہ منہ کو آتا ہے‘آنکھیں خون کے آنسو روتی ہیں‘روح بھی کانپ اُٹھتی ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ کائنات اب سمٹ رہی ایسے ماحول میں اب انسان کا دم گھٹ رہا ہے۔نوجوان نسل جو قوم کے لئے ریڈھ کی ہڈی کے مانند ہوتی ہے‘اسی نوجوان نسل پر قوموں کی تعمیروترقی کا انحصار ہوتا ہے۔تاریخ شاہدِ عادل ہے کہ جب کسی قوم میں کوئی انقلاب رونما ہواتو نوجونوں نے اس میں کلیدی رول ادا کیا۔اسی لئے شاید علامہ اقبال نے نوجوانوں کے لئے ”شاہین“کی اصطلاح استعمال کیا ہے ۔لیکن جب یہی نوجوان نسل اغیار کی سازش کا شکار ہوجائے تو انقلاب کی توقع کی جاسکتی ہے اور نہ ہی تعمیر وترقی کی۔ ؎
ہوئی نہ زاغ میں پیدا بلند پروازی
خراب کر گئی شاہین بچے کو صحبتِ زاغ