تحریر: ترآب
نجم الدین ایوب خاموشی سے عیسائی پادری کے چہرے کو دیکھ رہا تھا کچھ دیر بعد عیسائی راہب کے ہونٹوں پر مسکراہٹ ابھر آئی اور مسکراتے ہوئے کہنے لگا
ہاں اس روز میری آنکھوں نے دھوکہ نہیں کھایا تھا
اگر تم اس بچے کے باپ ہو تو واقعی دنیا کے خوش قسمت انسان ہو
نجم الدین کے لیے یہ بڑی عجیب بات تھی اور بے ساختہ اس کے منہ سے نکلا ہاں ہاں یہ میرا بیٹا ہے مگر یہ تو بتاؤ کہ تم اس کے چہرے میں اب تک کیا تلاش کر رہے تھے
پادری نے بولا میں اس تحریر کو پڑھ رہا تھا جو اس کے ماتھے پر خداوند نے لکھی ہے پادری کی باتوں میں عالمانہ وقار چھلک رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ ایسے بچے صدیوں میں ایک بار پیدا ہوتے ہیں بلاشبہ یہ بہت عظیم تر بچہ ہے
نجم الدین عیسائی راہب کی پیشنگوئی سن کر بہت جذباتی ہو گیا اور عیسائی راہب سے پوچھا
مجھے بتاؤ وہ کیا تحریر ہے ؟
پادری نے بڑے ہی عاجزانہ لہجے میں کہا میری گنہگار آنکھیں اس تحریر کو پوری طرح سے تو نہیں پڑھ سکتی
اس بچے کی چہرے پہ میں وہ روشنی دیکھ رہا ہوں جو بڑے شہنشاہوں کی ہوا کرتی ہے
پادری کی یہ بات سن کر نجم دین پر سکتے کی سی کیفیت طاری ہوگئی کہ آج تک جس بچے کو وہ اپنے لئے منحوس تصور کر رہا تھا وہ بچہ اتنی شان والا ہے
بہرحال یہ واقع تو گزر گیا اور وہاں سے جانے کے بعد نجم الدین نے یہ واقع اپنی زوجہ محترمہ کو بھی سنایا
زبیدہ ( نجم الدین کی بیوی ) یہ بات سن کر شدت سے زارو قطار رونے لگی اور بے شک یہ خوشی کے آنسو تھے
زبیدہ اپنے خاوند نجم الدین سے (شکایت آمیز اور طنز برے لہجے میں ) کہنے لگی وہ عیسائی راہب کیا بتائے گا جس روشنی کی وہ بات کر رہا ہے وہ روشنی تو میں بچپن سے ہی اپنی بیٹے یوسف کی چہرے پر دیکھ رہی ہوں
اگرچہ نجم الدین ایوب خود بھی ایک زہد و تقوی اور پرہیز گار آدمی تھا لیکن اپنی معزولی کے حادثہ سے متاثر ہو کر ہم پرستی کا شکار ہو گیا تھا اور اپنی بیوی کی جذباتی حالت دیکھ کر خود بھی آبدیدہ ہو گیا اور توبہ کرنے لگا کہ اللہ میرے اس گناہ کو معاف کرے کہ میں شیطان کے فریب میں آ گیا تھا اور اپنے اس مبارک بیٹے سے کتنا دور چلا گیا تھا
اس واقعے کے بعد نجم الدین ایوب اپنے بیٹے یوسف (صلاح الدین )کی تعلیم و تربیت پر خاصہ جان دینے لگا
پھر ایک سال بعد ہی نجم الدین کو ایک خوفناک اور پرخطر مہم پر جانا پڑا
یہ تقریبا پانچ سو سال کے بعد وقت نے کروٹ بدلی تھی
کہ جس بیت المقدس کو امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے دور خلافت ١٦ ہجری میں بغیر ایک خون کا قطرہ بھاے فتح کیا تھا اسی متاع عزیز کو اسلام کے وارثوں نے سن ٤٦١ ہجری میں گوایا تھا جس کے نتیجے میں ایک مضبوط عیسائی ریاست قائم ہوگی اور ایک انتہائی متعصب عیسائی godfrey یوروشلم کا شہنشاہ بن گیا اور اس سے پہلے دو اور عیسائی ریاستیں وجود میں آ چکی تھی
ایڑسیہ پر جو سلیم ثانی کی حکومت تھی جو اپنی مذہبی عصبیت میں شاہ یوروشلم گاڑ فری سے کسی طرح بھی کم نہ تھا یوروشلم انطاکیہ روم قسطنطنیہ کے بعد مذہبی تقدس کے اعتبار سے اڑسیہ کو عیسائی دنیا میں پانچواں درجہ حاصل تھا تاریخی لحاظ سے اس شہر کو الجزیرہ کی آنکھ سمجھا جاتا تھا صلیبیوں نے یہاں زبردست فوجی تک جمع کر رکھی تھی اور اس کے ساتھ ایڈ سیہ کو شاہ یوروشلم کی تائید حاصل تھی مسلمانوں کو اس شہر کی اہمیت کا بخوبی اندازہ تھا اور وہ ایڑسیہ کو اسلامی اقتدار کے لئے مستقل خطرہ سمجھ رہے تھے
گیارہ سو دس سے لیکر گیارہ سو پندرہ تک مسلمانو نے اس پر بہت حملے کیے مگر فاتح بن پائے اور شریر مایوسی کی حالت میں تھک کر بیٹھ گئے
پھر جب عماد الدین زنگی نے موصل اور دمشق میں دوبارہ اقتدار حاصل کیا تو وہ ایڑسیہ کی طرف متوجہ ہوا اس موقع پر اس کے مشیر نے مشورہ دیتے ہوئے کہا
کیا آپ کو ایڈ سیہ پر حملے کے بجائے اپنی علاقوں کی حکمرانی پر دھیان دینا چاہیے کیونکہ ایڑسیہ کو گاڑ فرے کی حمایت حاصل ہے
اس پر عماد الدین نے تاریخی جملہ کہا کہ
اپنی شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھا کر بڑے پر جلال لہجے میں )
مجھے وحدہ لا شریک کی حمایت حاصل ہے
ایڑسیہ اس زہر آلود خنجر کی طرح ہے جو مسلمانوں کے شہ رگ کے قریب رکھا ہوا ہے اس سے پہلے کی حرکت میں آئے میں اسے توڑ دوں گا۔۔۔
(جاری)