عمران بن رشید
سیر جاگیر سوپور‘کشمیر
8825090545
علم‘تجربہ اور مشاہدہ کے ذریعے کسی چیز کی پہچان”معرفۃ“کہلاتی ہے۔جس کے دو درجے ہیں‘ایک یہ کہ آپ کسی چیز پر غور وفکر کرکے اُس چیز کے مختلف پہلو(Dimensions)معلوم کریں۔اور دوسرے یہ کہ غوروفکر کے ذریعے کسی چیز کے خالق کو پہچانا جائے‘ اول الذکر فلسفہ‘علم الکلام اور سائنس کا کام ہے جبکہ ثانی الذکر کا تعلق ایمان بالغیب سے ہے۔سورہ ذٰریٰت میں اللہ کا ارشاد ہے ]وفی انفسکم افلاتبصرون۱؎[ یعنی خود تمہارے نفسوں کے اندر بھی نشانیاں ہیں (جواللہ کی معرفت کا ذریعہ ہیں) کیا تم غور نہیں کرتے۔امام بخاری ؒ کہتے ہیں ]تاکل وتشرب فی مدخل واحدٍ ویخرج من موضعین[کھاناپینا ایک راستے سے داخلِ جسم ہوتا ہے اور دوسرے راستے سے فضلہ کی شکل میں خارج ہوتا ہے۔انسان کی اس عجیب وغریب تخلیق پر غوروفکر معرفتِ الٰہی کا بہترین ذریعہ ہے۔ابنِ کثیرؒ نے قتادہؒ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ جو شخص اپنی پیدائش پر غور کرے گا اپنے جوڑوں کی ترکیب پر نظر ڈالے گاوہ یقین کرلے گا کہ بے شک اسے اللہ نے ہی پیدا کیا ہے اور اپنی عبادت کے لئے ہی بنایا ہے۲؎۔گویا معرفت الٰہی کا حصول غوروفکر اور تدبر سے ممکن ہے نہ کہ مراقبہ اور جسمانی اذیت سے جیسا کہ صوفیاء کا طریقہ ہے۔ صوفیاء کے یہاں اگرچہ ]من عرف نفسہ فقدعرف ربہ[کا عقیدہ معروف ہے یعنی جس نے اپنے آپ کو پہچانا اُس نے اپنے ربّ کو پہچانا‘تاہم اُن کا یہ عقیدہ دو اعتبارات سے محل نظرہے ایک یہ کہ قرآن میں پہلے ہی اعلان ہوا ہے ]وفی انفسکم افلاتبصرون[ لہذا اس طرح کے کسی دوسرے عقیدے کی حاجت ہی نہیں رہتی‘دوسرا یہ کہ صوفیاء کے یہاں اپنی ذات کو پہچان نے کا جو طریقہ رائج ہے وہ یا تو محض نظری ہے یا قرآن کے مخالف۔ یہاں تک کہ وہ معرفتِ الٰہی کو ”حلول“کے مفہوم میں بھی لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جسے اللہ کی معرفت حاصل ہوتی ہے اُس میں اللہ کی ذات حلول (God incarnation)کرتی ہے‘یہ عقیدہ نصاریٰ سے ماخوذ ہے‘جوکہتے تھے کہ عیسیٰ ؑ ہی اللہ ہے]لَقَدْکَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوا اِنَّ اللّٰہَ ھُوَالْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ[بلا شبہ اُن لوگوں نے کفر کیا جنہوں نے کہا کہ اللہ مسیح ابن مریم ہی ہے]المائدہ/72[۔اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے ابونعمان سیف اللہ خالد حفظہ اللہلکھتے ہیں ”مسلمان کہلانے والوں میں بھی کئی لوگ یہ کہنے والے ہیں کہ احد اور احمد میں کوئی فرق نہیں بلکہ دونوں ایک ہیں یا اللہ تعالیٰ بشری جامہ پہن کر آگیا ہے ۔پھر کئی اپنے بزرگوں کے متعلق یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ عبادت کرتے کرتے اللہ میں فناہوکر ایک ہوگئے اور بعض ان کے متعلق کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان میں اتر آیا‘پہلا عقیدہ اتحاداور دوسرا حلول کہلاتا ہے“]تفسیر دعوت القرآن/جلد دوم /90[۔ مولاناعبدالرحمان کیلانی”ؒ شریعت و طریقت“میں کہتے ہیں ”بعینہ یہی صورتِ حال ان مشاہدینِ حق کی ہے‘وہ اندھے اس لحاظ سے ہیں کہ نصوصِ شرعیہ سے یہ ثابت ہے کہ اُس ذاتِ باری کا اس دنیا میں نہ تو دیدار ممکن ہے اور نہ ہی کوئی اُس کی کُنہ کو پاسکتا ہے‘مگر یہ حضرات بضد ہیں کہ ہم ضرور یہ ملاحظات و مشاہدات کرکے رہینگے۔ پھر جس طرح ان اندھوں میں تکرار اور جھگڑا ہوا بعینہ یہی صورت حال یہاں بھی پیدا ہوگئی ایک نے کہا کہ میں خدا کے اتنا قریب ہوگیا کہ بالآخر ہم دونوں ایک ہوگئے‘دوسرے نے کہا کہ میں جذب و مستی میں اتنا منہمک ہوا اور آتشِ عشق اتنی تیز بھڑکی کہ خود خدا نیچے اتر کر میرے جسم میں اتر گیاپھر میں ہی خدا تھا‘تیسرے نے کہا تم دونوں غلط کہتے ہو بھلا خدا کوئی مخصوص جسم ہے جس میں تم مدغم ہوگئے یا وہ تمہارے جسم میں داخل ہوسکے‘وہ تو ہر شے میں پہلے سے ہی موجود ہے اور ہر چیز میں داخل ہے‘ہرچیز خدا کی ذات کا حصہ ہے۔چوتھے نے کہا تم سب غلط ہو خدا تو فی الواقع ایک الگ ہستی ہے تاہم یہ کائنات کی جملہ اشیاء اُس کا لباسِ مجازہے۔یہ ہیں وہ مختلف نظریات جو دینِ طریقت کے مختلف اعیان نے پیش کئے“]صفحہ/32[۔
اب ذرا سورہ فاطر کی آیت بھی دیکھ لیجیئے]ومن النّاس والدّوابِّ والانعام مختلفٌاَلْوانہ کذلک انّما یَخشَی اللّٰہَ من عبادہ العلمٰءُوا انّ اللّٰہ عزیزٌ غفورٌ[ اور اسی طرح انسانوں‘جانوروں اور چوپایوں میں بھی بعض ایسے ہیں کہ اُن کی رنگتیں مختلف ہیں اللہ سے اُس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں‘واقعی اللہ زبردست بڑا بخشنے والا ہے]آیت/28[۔ اس آیت کودوحصوں میں تقسیم کر لیجیے پہلا حصہ]ومن النّاس والدّوابِّ والانعام مختلفٌاَلْوانہ کذلک[ یعنی اور اسی طرح انسانوں‘جانوروں اور چوپایوں میں بھی بعض ایسے ہیں کہ اُن کی رنگتیں مختلف ہیں۔یہاں تک مخلوقات پر غور وفکر پر ابھاراگیا ہے کہ کیسے اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کو مختلف رنگ‘مختلف شکلیں اور مختلف صورتیں عطا کی ہیں‘اور پھر آیت کے دوسرے حصے ] انّما یَخشَی اللّٰہَ من عبادہ العلمٰءُوا انّ اللّٰہ عزیزٌ غفورٌ[میں یہ کہا گیا ہے کہ اللہ سے اہلِ علم ہی ڈرتے ہیں‘گویا مخلوقات پر غوروفکر کے ذریعے جو علم حاصل ہوگا وہ یقین کے درجے کا علم ہوگااور اللہ کو موجودہ دنیا میں چونکہ نہیں دیکھا جاسکتا جیسا کہ قرآن میں آیا ہے]لاتدرکہ الابصار وھوا یدرک الابصار[ یعنی نگاہیں اُس کو نہیں پا سکتیں جبکہ وہ نگاہوں کو پالیتا ہے]انعام/103[لہذا کائنات پر غوروفکر ہی کے ذریعے معرفتِ الٰہی کا حصول ممکن ہے۔ مفسرِقرآن حافظ صلاح الدین یوسفؒ]متوفی/2020[کہتے ہیں ”اللہ کی قدرتوں اور اُس کی کمالِ صناعی کو وہی جان اور سمجھ سکتے ہیں جو علم رکھنے والے ہیں اس علم سے مراد کتاب وسنت اور اسرار الٰہیہ کا علم ہے اور جتنی انہیں رب کی معرفت حاصل ہوتی ہے اُتنا ہی وہ رب سے ڈرتے ہیں“۳؎۔مختصریہ کہ معرفتِ الٰہی علم اور تقویٰ سے عبارت اور منسلک ہے‘لیکن افسوس کہ ہمارے یہاں معرفتِ الٰہی کو خوداذیتی‘ مراقبوں اور رقص و سرود کی محفلوں میں تلاش کیا جاتاہے‘اس پر ستم ظریفی یہ کہ بھنگ پیکر بدمست اور عریاں ہوکر لوگ عارف باللہ کا لقب پاتے ہیں وہ بھی عبادت کا طوق اپنے گلے سے نکال کر۔ اور اس سب پر”طریقت“ کی بلیغ اصطلاح چسپاں کرکے حق سے کھلم کھلا انحراف کیا جاتا ہے بالکل یہود اور نصاریٰ کی طرح۔آپ کو بتادوں کہ قرآن کے جن الفاظ سے طریقت کی دلیل پکڑی جاتی ہے وہ یہ ہیں ]واعبد ربک حتیٰ یاتیک الیقین[۴؎۔یعنی اے محمد ؐ اپنے رب کی عبادت کرتارہ یہاں تک کہ آپ کو یقین حاصل ہوجائے۔اہل طریقت کہتے ہیں کہ اس آیت میں یقین کا وہ درجہ بیان ہوا ہے جسے ”بقاء اللہ“کہاجاتاہے جس کے بعد انسان کو اپنے ربّ کی اتنی معرفت حاصل ہوجاتی ہے کہ اُسے عبادت کی حاجت نہیں رہتی‘گویا بالفاظِ دیگر محمد رسول اللہؐ کو یقین کا یہ درجہ حاصل ہی نہیں (نعوذباللہ)کیوں کہ انہوں نے تو آخری دم تک اپنے ربّ کی عبادت کی۔اس آیت میں یقین سے مراد سلفِ صالحین کے نزدیک موت ہے۔
اس کے بعد سورہ ذٰریٰت کی آیت بھی آپ کے گوش گزارکردوں جو قدرے مشہور بھی ہے۔اللہ تعالیٰ کہتے ہیں (وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون[۵؎۔میں نے جنوں اور انسانوں کو پیدا نہیں کیا سوائے اپنی عبادت کے لئے۔یہاں طریقت کی جڑکٹ جاتی ہے‘انسان کی تخلیق کا بنیادی مقصد ہی عبادتِ الٰہیہ ہے اورعبادت ہی سے معرفتِ الٰہی کی راہیں ہموارہوتی ہیں‘عبادت ہی رب سے قریب کرتی ہے۔چنانچہ ابن جریجؒ ”لیعبدون“ کی تفسیر ”لیعرفون“ سے کرتے ہیں‘گویا عبادتِ الٰہی ہی معرفتِ الٰہی ہے۔ صحیح البخاری سے حدیث کے الفاظ رقم کررہا ہوں یہ حدیثِ قدسی ہے رسول اللہ ؐ فرماتے ہیں کہ اللہ فرماتا ہے]ومایزال عبدی یتقرّب الیَّ بالنوافل حتیَّ اُحِبَّہُ۔الخ[یعنی میرا بندہ(فرائض ادا کرنے کے بعد)نفل عبادتیں کرکے مجھ سے اتنا قریب ہوجاتا ہے کہ میں اُس سے محبت کرنے لگ جاتاہوں ۶؎۔یہاں بھی عبادت کو ہی قربتِ الٰہی کا ذریعہ گردانا گیاہے گویا عبادت سے قطعاً فرار ممکن نہیں۔مولانا داوٗدرازؒ اس حدیث کی شرح میں کہتے ہیں ”اس حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بندہ عین خدا ہوجاتا ہے جیسے معاذ اللہ اتحادیہ اور حلولیہ کہتے ہیں بلکہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب بندہ میری عبادت میں غرق ہوجاتا ہے اور مرتبہ محبوبیت پر پہنچتا ہے تو اس کے حواسِ ظاہری و باطنی سب شریعت کے تابع ہوجاتے ہیں“۔اب کیا یہ عقل کی خرابی نہیں ہے کہ انسان عبادت سے کنارہ کش ہوکر سماع‘قوالی‘رقص و سرود اور مراقبوں میں معرفتِ الٰہی تلاش کرے؟یہ سب اطاعتِ ابلیس اور رہبانیت ہے اور کچھ نہیں۔مشہور صوفی ابو طالب مکیؔ نے خواب کی بنیادپرقوالی کو جائز ٹھرایااور اسے قربت اور معرفت الٰہی کا ذریعہ قرار دیا۔علامہ ابنِ جوزی ؒ نے ”تلبیس ِ ابلیس“ میں اس پرخوب تبصرہ کیا ہے۔ ڈاکٹر ابو عدنان سہیل رقمطراز ہیں ”ابو طالب مکی نے صوفیاء کے لئے جوازِ سماع پر خواب کے واقعات پر حجت پکڑی ہے اور سماع کی کئی قسمیں نکالی ہیں“۷؎۔یاد رہے کہ سماع کا لفظ قوالی کاہم معنی ہے۔
بہرحال معرفتِ الٰہی کا تعلق علم سے ہے اور علم کا تعلق حواس سے۔انسان کا علم جس قدر راسخ ہوگا اُسی قدر وہ اپنے ربّ کی معرفت حاصل کرے گا۔یہاں ایک نہایت اہم نکتے کی وضاحت کردوں‘وہ یہ کہ معرفت الٰہی کو دو قسموں میں منقسم کیا جاسکتا ہے۔ایک عام معرفتِ الٰہی اوردوسرے خاص معرفتِ الٰہی۔عام معرفتِ الٰہی سے میری مراد مخلوقات پر غوروفکر کے ذریعے معرفت الٰہی ہے‘مثال کے طور پر آپ مخلوقات پر غور و فکر کرتے ہیں جیسے انسان‘جانور‘پہاڑ اور زمین وآسمان وغیرہ اس غور وفکر کے نتیجے میں خالق کے ہونے کا یقین آپ کے دل بیٹھ جاتا ہے۔یہ عام معرفت الٰہی ہے جو ہر اُس آدمی کو حاصل ہے جو تھوڑا سا غوروفکر سے کام لیتاہے۔خالق کے ہونے کا یقین دل میں بیٹھ جانے کے بعد کتاب وسنت سے آپ خالق کی صفات کا تعارف لیتے ہیں جہاں آپ کو یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ خالق جس نے ہر شے کو تخلیق کیاہے وہ احد ہے‘صمد ہے‘ رحمٰن ہے‘ علیم ہے‘حی ہے‘قیوم ہے‘عالم الغیب ہے وغیرہ۔یہ دوسرے درجے کی معرفت الٰہی ہے‘اور معرفت کے ان ہی دو درجوں کا ذکر سورہ فاطر کی اس آیت میں ہواہے]ومن النّاس والدّوابِّ والانعام مختلفٌاَلْوانہ کذلک انّما یَخشَی اللّٰہَ من عبادہ العلمٰءُوا انّ اللّٰہ عزیزٌ غفورٌ[ اور اسی طرح انسانوں‘جانوروں اور چوپایوں میں بھی بعض ایسے ہیں کہ اُن کی رنگتیں مختلف ہیں اللہ سے اُس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں‘واقعی اللہ زبردست بڑا بخشنے والا ہے]آیت/28[۔اس آیت میں تینوں چیزوں کا ذکر ہے کائنات پر غوروفکر‘علم اور پھر اللہ کی کچھ صفات بیان ہوئیں ہیں۔یہی تین چیزیں معرفتِ عام اور معرفتِ خاص کی بنیاد ہیں۔بلکہ اس میں خشیتِ الٰہی کا ذکر بھی ہے جو معرفتِ الٰہی سے ہی عبارت ہے۔معرفت عام اور معرفت خاص کے فرق کو آپ ایک حدیث سے سمجھئے‘یہ حدیث متفق علیہ ہے یعنی صحیح البخاری اور صحیح المسلم دونوں میں آئی ہے۔حدیثِ جبریل کے نام سے مشہور ہے لیکن ام السنہ بھی کہلاتی ہے۔اوراس حدیث میں جبریل ؑ رسول اللہ ؐ سے چند سوالات پوچھتے ہیں جیسے]ماالایمان[ایمان کیا ہے؟ ]ماالاسلام[
یعنی اسلام کیا ہے؟اور ]ماالاحسان[یعنی احسان کیا ہے؟ احسان کی وضاحت رسول اللہ ؐ نے یوں فرمائی]انْ تَعْبُدُوا اللّٰہَ کَاَنَّکَ تراہ فاِنْ لم تکُن تراہ فاِنہ یراک[یعنی اللہ کی عبادت ایسے کرو جیسے کہ تم اُس کو دیکھ رہے ہواگر یہ نہ ہوسکے تو پھر یہ سمجھو کہ وہ تم کو دیکھ رہا ہے۔اس میں عبادت کے دو درجے بیان ہوئے ہیں ایک یہ کہ انسان عبادت کرتے ہوئے یہ محسوس کرے کہ گویا وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے اگر ایسا ممکن نہ ہو تو یہ پھر یقینی ہے کہ اللہ اُسے دیکھ ہی رہا ہے۔پہلا مرتبہ گویا معرفتِ الٰہی کا خاص درجہ ہے جہاں مشاہداتِ فطرت کے ساتھ ساتھ اللہ کی صفات کا علم بھی ہے تو ظاہر سی بات ہے کہ انسان کے اوپر وہ کیفیت طاری ہوگی جیسے کہ وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے۔اور دوسرا مرتبہ معرفتِ الٰہی کا عام درجہ سے متعلق اور منسوب ہے۔جہاں انسان محض مشاہداتِ فطرت سے حاصل شدہ یقین کی بنیاد پر یہ یقین رکھ کرلیتا ہے کہ اللہ اُسے دیکھ رہا ہے۔یہاں انسان اللہ کی صفات کو ذہن میں نہیں لاپاتا۔ شیخ محمد بن صالح العثیمینؒلکھتے ہیں ”احسان کا پہلا مرتبہ بعد والے مرتبے سے زیادہ کامل ہے‘اس لئے کہ جو شخص اللہ تعالٰی کی اس طرح عبادت کرتا ہے گویا کہ وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے تواُس کی یہ عبادت طلب اور رغبت پر مبنی ہوگی جبکہ دوسرے مرتبہ کی عبادت ڈر اور خوف پر مبنی ہے“۔۸؎
حواشی
۱؎ آیت 21
۲؎ تفسیر ابن کثیر
۳؎ تفسیر احسن البیان /تفسیر سورہ فاطر
۴؎ الحجر/99
۵؎ آیت نمبر56
۶؎ حدیث نمبر6502
۷؎ اسلام میں بدعت اور ضلالت کے محرکات /120
۸؎ شرح عقیدۃ الواسطیہ