اشارِ چشمِ سے ہی انتہا ہوگئی
پل میں ہی محبت بے بہا ہوگئی
جو تھا سکونِ دل کم سا ہو گیا
شاید قبول اُن کی ہر دعا ہوگئی
آہ! نہ نکلی تیز زباں سے میری
یوں بے اثر طبیب کی دوا ہوگئی
سمجھ آیا اُس کے ابدی سفر پہ
کیوں وہ وجہ سے بے وفا ہوگئی
ایک وقت جو مل کے ہوتی تھی
وہ دیدِ پُر کش بھی تنہا ہوگئی
فاحد احمد انتہا