طالب بٹ
سرینگر// جموں کشمیر میں گزشتہ4برسوں کے دوران ڈھانچوں کی تعمیر نے رفتار پکڑ لی ہے،جس کے نتیجے میں دیہی ور شہری علاقوں میں ترقی کا جال بچھ گیا۔ کسی بھی ملک،ریاست اور خطے کی ترقی کا زینہ وہاں کے ڈھانچوں کے قیام پر منحصر ہوتی ہے۔جموں کشمیر کی حکومت نے بھی مرکزی زیر انتظام خطے میں ڈھانچوں کی تعمیر میں سرعت لائی ہے جس کا نتیجہ عیاں ہے۔ سڑکوں کے نیٹ ورک سے لیکر پلوں،دفاتروں،بجلی،سرنگوں،پانی،سیاحتی اور دیگر تعمیرات کیلئے ڈھانچوں کا جال بچھایا گیا ہے۔جموں و کشمیر کی حکومت کی طرف سے فراہم کردہ معلومات کے مطابق، 2019 سے جموں اور کشمیر میں مختلف شعبو، اسکیموں کے تحت 1,41,815 نئے کام ومنصوبے شروع کیے گئے ہیں۔
ان کاموں، پروجیکٹوں کی تکمیل کے لیے 27,274.00 کروڑ روپے فراہم کیے گئے ہیں۔ پراجیکٹ کی تعمیر اور خریداری کی سرگرمیاں ہنر مند اور غیر ہنر مند مزدوروں، انجینئرز، ٹرانسپورٹرز اور چھوٹے کاروباروں کے علاوہ نجی شعبے میں مواد، آلات کی فراہمی میں مصروف افراد کے لیے روزگار کے نمایاں مواقع پیدا کر رہی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس سرمایہ کاری سے جموں و کشمیر میں تقریباً 1,169 لاکھ منڈیوں کا روزگار پیدا ہوا ہے۔ 2019کے بعد سڑکوں کی بہتری،تعمیر،مرمت اور تعمیر میں سرعت لائی گئی جس سے عام شہریوں اور کارباریوں کو نا قابل یقین فائدہ ہوا۔
سڑکوں کی کی لمبائی کو39ہزار345کلو میٹروں سے41ہزار141کلو میٹروں تک بڑایا گیا جبکہ سڑکوں پر تارل کول بچھانے کی شرح کو66فیصد سے74فیصد تک اضافہ کیا گیا۔ سڑکوں پر روزانہ تار کول بچھانے کی شرح6.54کلو میٹروں کو20.68کلو میٹروں تک توسیع دی گئی جبکہ وزیر اعظم دیہی سڑک یوجنا میں بھی سالانہ500کلو میٹروں کا اضافہ کیا گیا اور اس کو12ویں نمبر سے چوتھے نمبر تک لایا گیا۔ سرکاری اعداد شمار کے مطابق سرینگر سے جموں کے سفر کو7تا12گھنٹوں کی مسافت سے کم کرکے5.5گھنٹے کیا گیا جبکہ جموں،ڈوڈہ کے سفر میں مسافت کو5.5گھنٹوں سے کم کرکے3.5گھنٹے کیا گیا۔اسی طرح جموں کشتوارڈ کے سفر کی مسافت کو7.5گھنٹوں سے کم کرکے5گھنٹوں تک سمٹا دیا گیا۔
اس سلسلے کی کڑی کے تحت سال2022میں 4قومی شاہراؤں کے پروجیکٹوں کو مکمل کیا گیا جبکہ دہلی،امرتسر،کٹرہ ایکس پریس کا کام ہاتھوں میں لیا گیا اور بھارت مالہ کے تحت وزارت ٹرانسپورٹ نے10سڑک و ٹنل پروجیکٹوں کو بنانے کی حامی بھر لی۔ بجلی کی پیدوار اور ہر گھر بجلی کے خواب کو پورا کرنے میں گزشتہ4برسوں سے مرکزی اور جموں کشمیر کی حکومتوں نے لنگڑ لنگھوٹ کس لئے اور جہاں 2019سے قبل ٹرانفارمیشن کی صلاحت8234 میگاواٹ امپیرس تھی وہی اس کو10264تک بڑایا گیا۔ مالی سال2022-23تک220کلو واٹ ترسیلی لائنوں کی لمبائی کو804سرکٹ کلو میٹروں سے1220سرکٹ کلو میٹروں تک بڑایا گیا اور132کلو واٹ ترسیلی لائنوں کی لمبائی کو1955سرکٹ کلو میٹروں سے2265سی کلو میٹروں تک بڑایا گیا۔ اعداد شمار کے مطابق ہائی ٹینشن لاینوں میں بھی گزشتہ4برسوں سے3800 میگا واٹ امپیرس(ایم وی ائے) کا جہاں اضافہ ہوا وہی ایل ٹی لائنوں میں 1600سرکٹ کلو میٹروں تک توسیع دی گئی۔ ڈھانچہ جاتی ترقی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جموں کشمیر میں سست روی کا شکار پراجیکٹوں کو 2019کے بعد سست رفتار منصوبے پروگرام کے تحت، 1,984 کروڑ روپے کے 1,193 منصوبے مکمل کیے گئے، جن میں 5 منصوبے جو 20 سال سے زائد عرصے سے نامکمل تھے، 15 پراجیکٹ 15 سال سے زیادہ اور 10 سال سے زیادہ کے 165 منصوبے شامل ہیں۔صحت شعبے میں 2 نئے ایمز، 7 نئے میڈیکل کالج، 2 ریاستی کینسر انسٹی ٹیوٹ اور 15 نرسنگ کالجوں کو حال ہی میں فعال کیا گیا ہے۔ 854 نشستوں کی انٹیک کیپیسٹی شامل کی گئی جس میں 600 ایم بی بی ایس، 50 پی جی کورسز، 26 بی ڈی ایس، 38 ایم ڈی ایس، اور 140 ڈی این بی شامل ہیں۔جل جیون مشن کے تحت گھریلو نل کے پانی کے کنکشن 5.75 لاکھ گھرانوں (31فیصد) سے بڑھ کر 10.55 لاکھ گھرانوں (57فیصد) ہو گئے ہیں۔ دو اضلاع (سرینگر اور گاندربل) کو ہر گھر جل اضلاع بنایا گیا ہے۔
تمام دیہی اسکولوں، آنگن واڑی مراکز اور صحت کے اداروں کو نلکے کے پانی کے کنکشن فراہم کیے جاتے ہیں۔آبپاشی اور فلڈ کنٹرول میں تین بڑے آبپاشی کے منصوبے جیسے مین راوی کینال (62 کروڑ روپے)، ترال لفٹ اریگیشن سکیم کا تیسرا مرحلہ (45 کروڑ روپے) اور دریائے جہلم اور اس کے معاونین کا جامع فلڈ مینجمنٹ پلان،پہلا مرحلہ جس کی لاگت روپے ہے، 399.29 کروڑ مکمل ہو چکے ہیں۔تعلیم کے شعبے میں نڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی جموں اور انڈین انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ جموں کو فعال بنا دیا گیا ہے۔ ڈگری کالجزوانجینئرنگ کالجز 96 سے بڑھ کر 147 ہو گئے ہیں۔
جموں و کشمیرمیں وزیر اعظم کے ترقیاتی پیکیج کے تحت زیادہ تر پروجیکٹوں نے رفتار پکڑی ہے اور انتظامیہ کی طرف سے ممکنہ رکاوٹوں کو دور کرنے کی وجہ سے پیکیج کے تحت ایک قابل ذکر پیش رفت ہوئی ہے۔چیف سکریٹری ڈاکٹر ارون کمار مہتا کی جانب سے اپریل میں جاری کردہ اقتصادی سرویا-23 2022کے مطابق، 7 نومبر 2015 کو وزیر اعظم کی طرف سے اعلان کردہ 80,064 کروڑ روپے مالیت کے پی ایم ڈی پی کا مقصد اقتصادی انفراسٹرکچر کو پھیلانا، بنیادی خدمات کی فراہمی، روزگار کو فروغ دینا اور جموں و کشمیر کے ڈیزاسٹر مینجمنٹ فریم ورک کو مضبوط کرنے کے علاوہ ستمبر 2014 کے سیلاب کے متاثرین کو آمدنی پیدا کرنا اور انہیں راحت اور بحالی فراہم کرنا۔اکنامک سروے میں کہا گیا ہے کہ سترہ منصوبے (سنٹرل سیکٹر کے 5 اور یو ٹی سیکٹر کے 12) ہر لحاظ سے مکمل ہو چکے ہیں جبکہ نومبر 2022 تک 12 پروجیکٹ (مرکزی سیکٹر کے 4 اور یو ٹی سیکٹر کے 8) کافی حد تک مکمل ہو چکے ہیں۔اکنامک سروے رپورٹ کے مطابق باقی 24 منصوبوں میں سے، 3 پراجیکٹ بہت جلد مکمل ہو رہے ہیں اور بقیہ 21 پراجیکٹ مالی سال-24 2023ور اس کے بعدمکمل ہونگے۔ اقتصادی سروے نے کہا،یکج کے تحت رفتار اور ایک قابل ذکر پیشرفت حاصل کی گئی ہے بنیادی طور پر زمین کے حصول، جنگلات کی منظوری، یوٹیلیٹی شفٹنگ، عدالتی مقدمات وغیرہ جیسی ممکنہ رکاوٹوں کی نشاندہی اور انہیں دور کرنے کی وجہ سے انہوں نے رفتار پکڑی ہے۔53 پروجیکٹوں کے لیے 42,303 کروڑ روپے کی رقم جاری کی گئی ہے اور جنوری 2023 تک 39,928 کروڑ روپے خرچ کیے جا چکے ہیں۔
اقتصادی سروے میں کہا گیا ہے کہ سال-23 2022کے دوران بارڈر ایریا ڈیولپمنٹ پروگرام کے تحت 418 کاموں کو مکمل کرکے جنوری تک 19 کروڑ روپے خرچ کیے گئے ہیں، جس کا مقصدبین الاقوامی سرحد کے قریب واقع دور دراز اور ناقابل رسائی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کیلئے خصوصی ترقیاتی ضروریات کو پورا کرنا ہے۔مرکز کے زیر انتظام جموں و کشمیر کی 816 کلومیٹر سرحد ہے جو 8 اضلاع جموں، سانبہ، کٹھوعہ، پونچھ، راجوری، بانڈی پورہ، بارہمولہ اور کپواڑہ سے گزرتی ہے۔ بی اے ڈی پی جموں و کشمیر کے 83 بلاکوں اور 1179 دیہاتوں میں کام کر رہا ہے جس کا رقبہ 5439.55 مربع کلومیٹر اور 25.97 لاکھ آبادی مردم شماری 2011 کے مطابق ہے اور بی اے ڈی پی کے تحت کام متعلقہ ڈپٹی کمشنر کی قریبی نگرانی میں انجام پاتے ہیں۔