مضمون نگار: ڈاکٹر اویس احمد
میلان کنڈیرا یکم اپریل 1929 کو برنو، چیکوسلواکیہ میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد لڈوک کنڈیرا چیک موسیقار تھے۔ کنڈیرا کو چھوٹی عمر ہی سے موسیقی سکھائی گئی تھی۔ اُنھوں نے 1948 میں برنو میں سیکنڈری اسکول مکمل کیا۔ کنڈیرا نے نوعمری ہی میں چیکوسلواکیہ کی کمیونسٹ پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور پراگ کی چارلس یونیورسٹی میں ادب اور جمالیات کی تعلیم حاصل کی۔ اُس کے بعد اسی شہر کی اکادمی آف پرفارمنگ آرٹس میں فلم کی ہدایت کاری اور اسکرین رائٹنگ کی۔
کنڈیرا کا کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ کچھ راست تعلق نہ تھا۔ وہ اُس گروہ سے تعلق رکھتے تھے جو دوسری عالم گیر جنگ اور جرمن قبضے سے متاثر تھے جس کے نتیجے میں وہ مارکسزم اور پارٹی کی رکنیت کی طرف مبذول ہوئے۔ کنڈیرا نے 1948 میں چیکوسلواکیہ کی کمیونسٹ پارٹی میں شمولیت اختیار کی لیکن پھر 1950 میں "پارٹی مخالف سرگرمیوں” کی وجہ سے اُسے پارٹی سے نکال دیا گیا؛ جس نے اُن پر بہت اثر ڈالا۔ پارٹی سے بے دخلی نے اُن کے پہلے خود نوشت سوانحی ناول دی جوک (The Joke,1967) کے لیے تحریک فراہم کی؛ جو کہ کمیونسٹ پارٹی کی مطلق العنانیت پر ایک طنز بھی ہے۔ مذکورہ بالا ناول کے علاوہ اُن کے کئے ناول منظر عام پر آئے:۔
Life Is Elsewhere (1969),The Farewell Waltz (Original translation title: The Farewell Party) (1972),The Book of Laughter and Forgetting (1979), The Unbearable Lightness of Being (1984, Immortality (1988), Slowness (1995), Identity (1998), Ignorance (2000), The Festival of Insignificance(2014)
1956 میں کنڈیرا نے دوبارہ پارٹی میں شمولیت اختیار کی؛ لیکن 1970 میں دوسری بار اُنھیں نکال دیا گیا۔ وہ مزدور اور محنت کش طبقے کے درمیان رہنا پسند کرتے تھے،موسیقی کے جاز بینڈ کے ساتھ ٹرمپیٹ بجاتے تھے اور شاعری بھی کرتے تھے۔ 1967 میں جب وہ کمیونسٹ نظام سے مایوس ہو گئے تو اُنھوں نے ایک کانفرنس میں ادیبوں کی آزادی کا مطالبہ کرتے ہوئے علیحدہ چیک شناخت کے تحفظ کی اہمیت پر زور دیا؛ جو اُس صورت میں ممکن تھا جب چیک ادب اور ثقافت کو مکمل آزادی کے ساتھ ترقی کی اجازت دی جا سکتی تھی۔
کنڈیرا کی پہلی کتاب 1953 میں منظرعام پر آئی۔ اُن کی شاعری میں "سماجی حقیقت پسندی” کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اُنھوں نے سیاسی پروپیگنڈے کو ایک تھیم کے طور پر مسترد کرنے کا رجحان پیدا کیا اور اُس کے برعکس انسانی تجربے اور انسانی قدروں کی اہمیت پر زور دیا۔ اُن کی شاعری میں مارکسی نظرئیے کا عکس اگر چہ واضح ہے لیکن مارکسی فکر کی کٹرپن سے بہر صورت آزاد ضرور ہے جوکہ اُس وقت کی شاعری کا ایک جزولاینفک تھا۔ لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ اُن کے نزدیک محض پرولتاری طبقہ، طبقاتی جدوجہد اور سماجی حقیقت نگاری ہی سب کچھ نہیں ہے؛ بلکہ اُنھوں نے اپنی شاعری بالخصوص نظموں میں انسانی قدروں کو بھی موضوع بنایا ہے۔ Man: A Wide Garden(1953), The Last May(1955), Molologues(1957), کے عنوان سے اُن کے شعری مجموعے بھی شائع ہوئے ہیں۔ بعد میں اُنھوں نے اسی نوعیت کے ڈرامے بھی تحریر کرنے شروع کیے جن میں کمیونزم کو انسانیت دوست بنانے کی بھر پور سعی کی گئی۔ یہ ڈرامے اسٹیج بھی کیے گئے اور خاصی مقبول بھی ہوئے۔ اس ضمن میں اُن کے کئی ڈرامے جیسے The Owners of the(1962), Two Ears, Two Weddings(1968), The Blunder(1969) شائع بھی ہوئے۔ اس طرح کنڈیرا نے اپنی زندگی کے 30 سالوں کو رد کر دیا۔ یعنی ان 30 سالوں میں اُنھوں نے جو کچھ لکھا تھا؛ اُسے رد کر دیا۔ اس طرح وہ 1958 سے 1968 کے درمیان لکھی گئی کہانیوں کے مجموعے Laughable Loves ہی کو پہلی تصنیف گردانتے ہیں۔ وہ اس بات کا اعتراف کرتے تھے کہ بہ حیثیت ایک ادیب اُن کی زندگی کا آغاز اسی تصنیف سے ہوا ہے۔ اس مجموعے کے علاوہ The Apologizer (2015) کے نام سے ایک اور افسانوی مجموعہ بھی شائع ہو چکا ہے۔
1968 میں Prague Spring کے بعد کنڈیرا کو پراگ فلم اکیڈمی سے اُس کے تدریسی عہدے سے بھی برخواست کر دیا گیا اور اُن کی کتابوں پر پابندی لگا دی گئی اور کتب فروش کی دُکانوں اور کتب خانوں سے اُن کی کتابوں کی تمام کاپیاں واپس لے لی گئیں۔ اُس کے بعد اُنھوں نے بہ حیثیت مصنف ایک مکمل آزادی کے ساتھ لکھنا شروع کیا؛ کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ اب کوئی سنسر اُن کی کتابیں نہیں پڑھے گا۔ اس طرح 1975 میں وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ فرانس ہجرت کر گئے جہاں اُس نے رینس یونیورسٹی میں پڑھایا۔ 1978 میں پیرس چلے گئے جہاں 1982 میں اپنی شاہکار کتاب The Unbearable Lightness of Being مکمل کی جس سے اُنھیں بین الاقوامی شہرت حاصل ہوئی۔
انسانی رشتوں پر کنڈیرا کی تنقید کمیونسٹ نظام پرتنقید کے ساتھ راست طور پرجڑی ہوئی ہے، جس نے اُنھیں اُس وقت کافی غیر معمولی شہرت دلوادی۔ کنڈیرا کے ناول اس لیے مقبول ہیں کیوں کہ وہ مخصوص تناظر کے ساتھ کرداروں کو ایک طرح کی آفاقیت عطا کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ کمیونزم کے زوال کے بعد کنڈیرا نے فرانس میں سکونت اختیار کی اورکبھی چیک ریپبلک واپس نہیں گئے؛ یہاں تک کہ 1995 میں فرانسیسی زبان میں لکھنا شروع کر دیا۔ کنڈیرا کئی بار ادب کے نوبل انعام کے لیے نامزد ہو چکے ہیں۔ 2019 میں اُس کی چیک شہریت بحال کر دی گئی اور 2020 میں اُنھیں اُن کے آبائی ملک کے ممتاز فرانز کافکا انعام سے نوازا گیا۔
اگرچہ کنڈیرا کی ابتدائی شاعری کمیونسٹ نظرئیے کی حامی نظرآتی ہے۔ لیکن وہ اس بات پر مصر تھے کہ وہ سیاست کا ڈنڈھورچی نہیں بلکہ محض ایک مصنف ہے۔ فلسفیانہ موضوعات کے علاوہ The Unbearable Lightness of Being کی اشاعت کے بعد سیاسی موضوعات اُن کے ناولوں سے گویا غائب ہی ہوگئے۔ کنڈیرا کی افسانہ نگاری کا اسلوب جو فلسفیانہ ارتکاز سے جڑا ہوا تھا؛ رابرٹ موسل کے ناولوں اور نطشے کے فلسفے سے بہت متاثر تھا۔ مزید اُس پر لارنس سٹرن، ہنری فیلڈنگ، ڈینس ڈیڈروٹ، رابرٹ موسل، ویٹولڈ گومبروِکز، ہرمن بروچ، فرانز کافکا اور مارٹن ہائیڈیگر کے واضح اثرات ملتے ہیں۔ حالاں کہ وہ چیک زبان میں لکھتے تھے لیکن 1993 کے بعد اُنھوں نے فرانسیسی زبان میں لکھنا شروع کیا۔ 1985 اور 1987 کے درمیان اُنھوں نے اپنی پہلی تحریروں پر فرانسیسی تراجم کی نظر ثانی کا کام کیا۔ اُن کی کتابیں کئی دوسری زبانوں میں بھی ترجمہ ہو چکی ہیں۔
کنڈیرا کو اُس کی مجموعی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں کئی انعامات و اعزازات سے بھی نوازا گیا۔ 1985 میں اُنھیں یروشلم پرائز ملا۔ اسی طرح 1987 میں یورپی ادب کا آسٹرین اسٹیٹ پرائز جیتا۔ 2000 میں اُنھیں بین الاقوامی ہرڈر پرائز سے نوازا گیا۔ 2007 میں اُنھیں چیک اسٹیٹ لٹریچر پرائز سے نوازا گیا۔ 2010 میں کنڈیرا کو اُن کے آبائی شہر برنو کا اعزازی شہری بنا دیا گیا۔ 2011 میں اُنھوں نے Ovid پرائز حاصل کیا۔ 2020 میں اُنھیں فرانز کافکا انعام سے نوازا گیا؛ جو کہ ایک چیک ادبی ایوارڈ ہے۔ کنڈیرا فرنز کافکا سے بہے حد تک متاثر تھا۔ شاید اسی لیے کارلیوس فیونتیس نے اُنھیں "کافکا کا اکلوتا وارث” کہا تھا۔ اپریل 2023 میں A Kidnapped Wast کے عنوان سے میلان کنڈیرا کی آخری کتاب شائع ہوئی؛ جس میں ولادیمیر پوتن کی طاقت کو بے اثر کرنے میں وسطی یورپ کے کردار کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اپنی تحریروں سے حیرت میں ڈالنے والا میلان کنڈیرا 12 جولائی 2023 کو فوت ہوئے۔