محمد سمیر جودہ
الازہر یونیورسٹی
[email protected]
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک چھوٹا لڑکا تھا جو ایک بہت امیر آدمی کا بیٹا تھا۔
اس کے والد اس کے اسکول کے دن کے دوران ہر چیز خریدنے کے لئے اسے بہت سے پیسے دیتے تھے
ایک دن وہ لڑکا بہترین کھانے خریدنے کے لئے ریسٹورنٹ گیا۔
اور جب وہ اپنے اسکول کا دن مکمل کرنے کے لئے اپنے اسکول آ رہا تھا تو اس نے ایک اور لڑکے کی آواز سنی جو اسے پکار رہا تھا مگر اس نے اس کی طرف کوئی توجہ نہیں دی اس کا یہ خیال تھا کہ وہ ان گدوں میں سے ہے جو ہمیشہ اس سے پیسے کے سوا کچھ نہیں چاہتے تھے۔
لیکن اس سے کچھ کہنے کے لئے لڑکے نے جلدی سے اسے پالی کر اس کا ہاتھ پکڑ لیا لیکن امیر لڑکے نے سخت الفاظ میں اسے ڈانٹا تو لڑکے کی آنکھوں سے آنسو بہہ گئے تھے اور اس نے کچھ نہیں کہا سوائے اللہ تمہیں معاف فرمائے بھائی
مجھے تم سے پیسے یا کچھ نہیں چاہیے صرف تمہیں تمہارا پرس دینا چاہتا تھا جو ریسٹورنٹ میں تم سے گر گیا۔
امیر لڑکا غریب کے ساتھ اپنی حرکت پر شرمندہ ہو گیا۔
اور اس نے امانت دار لڑکے کو انعام دینے کے لئے اپنے پرس کھولا جسے مکمل ملا اور اس میں کچھ بھی نہیں کم نہیں ہوا تھا۔
غریب لڑکے نے اپنی امانت کے لئے کچھ لینے سے انکار کر دیا۔
امیر لڑکے نے سیکھا کہ لوگوں کو عجلت میں فیصلہ نہیں کرنا چاہئے،اپنے فیصلے میں ہمیشہ سنجیدہ ہونا چاہئے، ان چیزوں سے متکبر نہیں ہونا چاہئے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اسے عطا فرمایا اور لوگوں کے ساتھ عزت اور مہربانی سے لین دین کرنا چاہئے۔
پھر اس نے امانت دار لڑکے سے کہا
تمہاری امانت نے مجھے ایک سخت سبق سکھایا جسے اپنی زندگی بھر کبھی نہیں بھولوں گا وہ ہے کہ لوگ دھاتوں کی طرح ہیں اور تم سب سے قیمتی اور مہنگی جوہر ہو جس سے اپنی زندگی بھر ملا اللہ تم کو برکت دے۔