اس بات سے ہم سب کو اتفاق ہے کہ تعلیم ہی وہ نور ہے جو تمام تاریک راہوں کے لیے روشنی کا پیغام بن کر آتی ہے. تعلیم مثل نیشتر بن کر انسانی روح سے جہالت کا سارا خون فاسد نکالنے کا نام ہے. جہاں دنیا عظمت تعلیم کے حوالے سے انتہائی حساس ہے وہی پر میری سرزمین ارض کشمیر کا باوا آدم ہی نرالا ہے.یہاں کی مٹی اگرچہ ہر طرح کی زرخیزیت رکھتی ہے لیکن موجودہ دور میں ہم تعلیمی خسارے سے دوچار ہیں. سیاسی کارستانی نے ہمارا وہ سب کچھ چھین لیا جس کا ہم نے خواب دیکھا تھا اور آج ہمارے بچے کرونا کی ڈرامائی تسبیح ورد زبان رکھ کر گھروں میں اپنی بربادی کا تماشہ دیکھ رہے ہیں. جہاں انتظامیہ کی بے حسی اور لاپراوہی ہماری بربادی کا ذمہ دار ہے وہی پر والدین کی غفلت اور بے غیرتی بھی اس چیز کا حصہ ہیں.
قوم کا فرد فرد آج دیگر مسلوں میں الجھا ہوا ہے اور شاید ہی یہاں کوئی ماں کا پیارا ہوگا جو ان شگوفوں کے تئیں فکر مند ہوگا. یہاں استاد انتظامیہ کا شکوہ کرتا ہے انتظامیہ والدین کا والدین بچوں کا اور ایسے ہی ہمارا تعلیمی شعبہ بربادی کی گرفت میں ہے. ترقی کے الفاظ کہنے والوں سے میرا براہ راست سوال ہے کہ ترقی سے آپ کا کیا مطلب ہے؟شاید آپ اس بات سے بے خبر ہیں کہ کوئی قوم تب تک ترقی کا دعوا نہیں کرسکتا جب تک نہ ان کا تعلیمی شعبہ ترقی یافتہ ہو. ارض کشمیر کے تمام والدین خود میں یہ مزاج پیدا کریں کہ تعلیم سے ہی ہر ترقی مراد ہے. اس لیے اول فرصت میں ہم اپنے شگوفوں کے بارے میں فکر کریں.
ان کی تربیت اور باقی معملوں میں ان کے دوست بن کر کام کرنے کا جنون خود میں پیدا کریں. خدارا اپنے بچوں کو اسلامی, سائنسی, علمی, اخلاقی معملوں میں مضبوط بنائیں کیونکہ ہماری تربیت دن بہ دن کمزور ہورہی ہے. موٹی رقم دے کر بڑے اسکولوں میں اپنے بچوں کا داخلہ کرنے سے کچھ نہیں ہوگا بلکہ تربیت کی ذمہ داری والدین حضرات کو خود سنبھالنی ہے تب ہم ایک کامیاب کل کا دعوا کرسکتے ہیں. ہم اس قوم کے فرد ہیں جن کے بارے میں واضح ہے کہ.
حیرت ہے کہ تعلیم وترقی میں ہے پیچھے
جس قوم کا آغاز ہی اقراء سے ہوا تھا
تین سالوں کی سیاسی اور کرونا جیسی دہشت نے ہمارے اندر تعلیم کا تعرف ہی ختم کیا. اب ہر گھر کے بچے ہر فضول کام کے خریدار بن گئے ہیں. ابھی بھی وقت باقی ہے انفرادی سطح پر اپنے گھروں میں موجود بچوں کو تربیت کی تمام اصولوں سے متعارف کرائیں گے. اگر ہم نے اب بھی فقط الزامات سے کام لیا اور زمینی سطح پر کچھ کرنے سے قاصر رہے تو کل کی تاریخ میں ہم غلامی کی ذلیل زندگی گزارنے پر مجبور ہوجائیں گے. سماج کے ہر فرد پر یہ ذمہ داری ہے کہ تعلیم کے تئیں اپنی فکر زندہ کریں ورنہ ہماری کشتی ڈوبنے کے نزدیک ہے. بچوں کے ہر کام اور عمل کا محاصبہ کیجیے تاکہ ان میں ذمہ دارانہ مزاج تولد ہوجائے جس سے قوم کے روشن کل کے حوالے سے سوچیں گے.
اگر دیکھا جائے تو صاف ظاہر ہوتاہے کہ ہم سائنسی دنیا میں انتہائی مفلسی کے شکار ہے. یہ اس لیے کہ غفلت کے سبب ہر شعبے میں تحقیقی مزاج کمزور ہورہا ہے.ہم نے ابھی تعلیمی دنیا میں کچھ نہیں کیا ہے اور تھکاوٹ ایسے ظاہر کررہے ہیں کہ شاید ہم ہی سے اب دنیا باقی ہے. والدین سے میں ملتمس ہوں کہ براہ کرم اپنے بچوں کے بارے میں انتہائی سنجیدہ ہوجائیں تب ہم مکمل ترقی یافتہ ہوجائیں گے. اللہ میرے چمن کو بہار عطا کرے.آمین
از قلم: منتظر مومن وانی
بہرام پورہ کنزر بارہمولہ
رابط:6006952656