افسانہ نگار۔ اربینہ قیوم
طالبہ، شعبہ اردو، کشمیر یونی ورسٹی
اس کا نام ماں باپ نے زرینہ رکھا تھا۔لیکن آج تک میں نے کسی کو اسے اس نام سے پکارتے ہوئے نہیں دیکھا ہے۔ لیکن لوگ اسے جنت بی کے نام سے پکارتے تھے۔جب بھی کبھی گاؤں میں کسی میاں بیوی میں کوئی بحث ہوتی تھی تو میاں اپنی بیوی کو جنت بی کی مثال دیتا تھا کہ جنت بی کی طرف دیکھو۔
کیسے اس نے ایک بیوہ ہوکر اپنے گھر کو محنت سے جنت بنادیا ہے اور اپنے بیٹے کی اچھی تربیت کی ہے۔بیس سال کے عمر میں جنت بی کی شادی ہوئی تھی۔جب وہ شادی کر کے اس گاؤں میں آئی تو اسے دیکھ کر گاؤں والے کافی متاثر ہوگئے تھے۔ اور ہوبھی کیوں نہ جاتے۔۔۔ وہ تھی ہی ایسی۔۔۔ کون سی خوبی تھی جو اس میں نہ تھی۔ شادی کے دو سال بعد اس کے شوہر کا انتقال ہوگیا تھا۔اس کا ایک بیٹا تھا۔ اس کی ساس ہمیشہ واویلا کرتے رہتی تھی۔بات بات پر جنت بی کو طعنے دیتی تھی کہ اس کمبخت کی نظر میرے بیٹے کو کھا گئی! اس کی ساس ہر بار اس سے جھگڑتی رہتی تھی۔
ایک طرف شوہر کی موت کی صورت میں اس پر قیامت ٹوٹ پڑی تھی۔ تو دوسری جانب اس کی ساس نے اس کا جینا حرام کر رکھا تھا۔گھر کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے جنت بی نے دوسروں کے گھروں میں برتن مانجھنے کا کام شروع کیا۔اس کا بیٹا دو سال کا تھا لہذا وہ بیٹے کو بھی اپنے ساتھ لے جایا کرتی تھی۔وہ صبح سویرے اپنی ساس کے لیے اذان کے وقت ہی کھانا پکا کر رکھتی تھی۔ اس کے بعد وہ کام پر جایا کرتی تھی۔لیکن اس کے باوجود بھی اس کی ساس ہمیشہ واویلا کرتی رہتی تھی۔
جنت بی دوپہر کو کام سے واپس لوٹتی تھی اور گھر کے کاموں میں مصروف ہو جاتی تھی۔ گھر کے کاموں سے فارغ ہوجانے کے بعد وہ سلائی کے کام میں مصروف ہوجاتی تھی۔آدھی آدھی رات تک وہ کام کرتی تھی۔ اور یہی جنت بی کا روز کا معمول ہوتا تھا۔وہیں دوسری طرف اس کی ساس ہمیشہ چیخ چیخ کر کہتی رہتی تھی کہ میرے خاندان کو تمہاری نظر لگ گئی۔ہم لٹ گئے ہم لٹ گئے کم لٹ گئے۔۔۔۔لیکن جنت بی ایک صابر خاتون تھی۔وہ اپنی ساس کی باتوں کو نظر انداز کرتی تھی۔وہ بہت محنتی تھی۔وہ کئی دن تک خود بھوکی رہ جاتی تھی لیکن اسں کے باوجود بھی اس نے اپنے بیٹے کی تربیت میں کوئی کمی نہیں آنے دی۔حالاں کہ جنت بی کو کئی لوگوں نے دوسری شادی کا مشورہ بھی دیا تھا لیکن وہ اکثر اس کا ایک ہی جواب دیتی تھی کہ وہ اپنی بدقسمتی کی سزا اپنے بیٹے کو نہیں دینا چاہتی ہے۔
وہ اپنے بیٹے کو کسی دوسرے کے بھروسے نہیں چھوڑنا چاہتی تھی۔وقت گزرتا گیا اور جنت بی کا بیٹا بڑا ہوکر استاد بن گیا۔ اب اسے لوگ کام والی جنت بی کے بیٹے کے بجائے ماسٹر مسیب صاحب کے نام سے پکارتے تھے۔ مسیب صاحب نے ایک دن اپنی ماں سے کہا کہ امی جان! آپ نے میرے لیے اتنا کچھ کیا مجھے بتاو کہ میں تمہارے لیے کیا کروں؟ جنت بی نے جواب دیا” ارے بیٹا میں تو اب بوڑھی ہوچکی ہوں۔مجھے کیا چاہیے۔اب میرا ایک ہی ارمان ہے کہ تم ایک ادارہ قائم کرو جہاں پر یتیم بچوں کی پرورش اور ان کی اچھی تعلیم و تربیت حاصل ہوجائے تاکہ کوی بھی یتیم بچہ خود کو یتیم محسوس نہ کر سکے۔مسیب صاحب نے حامی بھری اور ماں کی اس خواہش پر لبیک کہا۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد مسیب صاحب نے اپنی ماں کے نام پر مدرسہ قائم کیا۔
ایک دن جنت بی نماز ادا کر رہی تھی اور اللہ تعالیٰ سے دعا مانگ رہی تھی کہ اے میرے رب جو آپ نےمجھ پر حکم صادر کیا تھا وہ میں نے ادا کیا۔ اب مجھے کسی پر بوجھ نہ بنا۔مجھ پر رحم فرما۔ شام کو جب مسیب صاحب گھر آئے تو انھوں نے ماں کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا اور آواز دی لیکن اندر سے کوئی جواب نہیں ملا۔ بہر صورت کسی طرح دروازہ کھولا تو دیکھا جنت بی جائے نماز پر داعی اجل کو لبیک کہہ چکی تھی۔