صبح بیٹھے بیٹھے دماغ مختلف خیالات کے سنگ محو پرواز ہی تھا کہ ایک فون کال نے سلسلے منقطع کردئے فون کال تھی عبد القیوم تائب کی جو دمام سعودیہ میں امام و خطیب ہیں فاضل دیوبند ہیں اور اچھے با صلاحیت عالم ہیں اصل میں پونچھ کے رہنے والے ہیں آج کشمیر میں ہی آئے تھے معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ ان کا نکاح ہوا ہے یہیں پر.
خیر وہ الگ بات کہ پھر معلوم ہوا کہ زوجہ کے بجائے زوجات کے خادم ہیں اور مفتی طارق مسعود کے اس معاملے میں مداح ہیں ان کی ازدواجی کا یہ خوبصورت احساس جان کر ہم تو صرف آہ سرد بکھیر کر رہ گئے کہ ہم کیا ہیں فضائل نکاح دوم سوم تو معلوم پر کیا کریں ان پر عمل کی نہ ہی توفیق مل رہی ہے اور نہ ہی عمل کرنے کی ہمت ہے مارے خوف کے فلحال آج تک تو ہم صابرین کی صف میں ہی کھڑے ہیں منتظر ہیں مشتاق ہیں.
ان سے علیک سلیک فیسبک واٹسیپ پر ہی ہوتی رہتی تھی جہاں ان کو سن کر دیکھ کر اپنائیت کا احساس ہمیشہ سے رہا کہ یہ ایک پیارے سے بھائی ہیں اور اپنے وطن سے دور ہوکر بھی اپنوں کو یاد کرتے ہی رہتے ہیں اور آج انہوں نے ملاقات کا شرف بخشنے کا حکم دیا ہم نے بھی جلدی سے رخت سفر لگا کر ہاں کر دی پر ہم نے ملاقات کے لئے مادر علمی کا انتخاب کرلیا جس کے در و دیوار کی آغوش کسی شفیق و مہربان سے کم نہیں کہ انہیں کی آغوش میں ہم نے خود کو بچپن سے جوان ہوتے ہوئے محسوس کیا ہمارے قہقہے ہمارے بچپن کی شرارتیں دوستیاں اور مستیوں کے ضامن ہیں یہ در و دیوار جس کا نام سن کر جناب والا نے ہاں کردی اور یوں ملاقات طے ہوئی اور جگہ کا انتخاب بھی ہوا.
میں اپنے مادر علمی کی دید کے شوق میں سادہ ہی چل پڑا بنا کسی تکلف کا اظہار کئے ویسے یہ میری عادت ہے کہ کبھی بال تب سنوار لیتا ہوں جب گاڑی کے سائڈ شیشے کے سبب سے معلوم ہوتا ہے کہ میں نے تو گنگا کرنے کی بھی تکلیف نہیں کی ہے اب وہ اپنے سسرال سے چلے خراماں خراماں اور ہم چلے اپنے غریب خانہ سے سامنا ہوا تو ہم نے نظریں جھکائے رکھیں کہ دیکھتے ہیں کہ پہچھان لیں گئے یا نہیں پر کیا کیجئے ان صاحب نے دور سے ہی پہچھان لیا اور ہمیں یقین ہوگیا کہ ازدواج کی کثرت سے نظر میں تیزی آتی ہے خیر مادر علمی چلئے گئے جہاں اپنے پیارے ساتھیوں مفتی حسن مفتی بشیر مفتی اقبال مولانا ادریس وغیرھم سے ملاقات ہوئی گرچہ میں قصد کرکے گیا تھا اپنے استاد مکرم کی قدم بوسی کا شرف حاصل کرنے خیر استاد محترم کا سفر سرینگر کا تھا تو دید نصیب نہ ہوئی
مختصر لائبریری گئے وہاں کچھ کتابوں کے نام ایسے تھے کہ لگا یہ سب میری خواہشات کے مطابق ہی یہاں رکھی گئی ہیں جب کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے پر ان کتابوں سے میرا جنون کی حد تک لگاؤ ہے.
واپسی ہوئی مولانا ساتھ تھے مادر علمی سے لیکر بازار تک باتیں کیں ان کی گھنی داڑھی خوبصورت گول چہرہ علمی وجاہت مسکان ہونٹوں پر اور ادب کا قرینہ مستقل ان کی ذات سے منسلک شرمیلے تھوڑے سے جب کہ ایسا اصل میں نہیں کیونکہ ان کی شریک حیات ہیں جہاں شرمیلا ہونا ممکن نہیں پر ہیں کمال کے باتیں ہوتی رہیں میری منزل نے مجھے دیکھا اور میں ڈر کے مارے گاڑی سے اتر گیا وہ بھی اترے گلے ملے وہ چلے گئے اپنے گھر مگر میرے دل میں اپنی جگہ پکی کرکے
میں سمجھا بھائی کہ آپ سفیر محبت ہیں آپ سلامت رہیں چلتے چلتے مادر علمی کی آغوش میں ایک خوبصورت تصویر لی گرچہ یہاں تصویر لینا پسندیدہ نہیں پر کیا کرتے ہمیں اس کے در و دیوار سے محبت ہے عقیدت ہے.
یہ چمن آباد رہے سلامت رہے.