ربیع الاول کا مہینہ تقریباً اختتام ہورہا ہے۔ مسلمانوں کے لیے اس مہینے میں کئی یادیں جڑی ہوئی ہیں۔ بہار کی آمد کسے یاد نہیں رہتی؟ چہار جانب خوشبو پھیل جائے تو کوئی بدبخت ہی ہوگا جواس خوشبو سے اپنے مشام جان کو معطر نہ بنائے۔ رحمت کی بارش رم جھم برسے تو کوئی سیاہ نصیب ہی ہوگا جو اس کے قطروں سے اپنے ظاہر وباطن کی پاکیزگی کا سامان نہ کرے۔ گلستان میں طوطیاں نواسنج ہوں تو کوئی بدذوق ہی ہوگا جس کے کان اُن طوطیوں کی جادو آواز میں مدہوش نہ ہو۔ لہلہاتے سبزے اور پھولوں سے لدے باغیچے کوپاکر بھی کسی کی طبعیت میں سکون اور نشاط پیدا نہ ہوتو وہ کسی اور کو کیوں ملامت کرے گا؟
ربیع الاول بھی موسم بہار کی آمد کا باب ہے۔ مگر مسلمانوں کے لیے بلکہ تمام جہانوں کے لیے تو اس میں وہ رحمت وبہار آئی جس نے پوری کائنات کو رحمت سے بھر دیا۔ہمارے پیارے نبی حضرت محمدﷺ کہ جن کے بارے میں خود رب ذوالجلال نے فرمادیا:
(اے نبی!)ہم نے آپ کو جہان والوں کے لیے رحمت ہی رحمت بنا کر بھیجا ہے
یہ مہینہ کیوں نہ یاد رہے کہ اسی مہینے میں اس خدائی رحمت کا ظہور ہوا
اور پھر یہ بھی رب کی قدرت کا عجیب معاملہ ہوا کہ اسی مہینے میں اس رحمت للعالمینﷺ کی وفات ہوئی کہ جس پر حضرات صحابہ نے یہ کہہ کر داستان ختم کردی کہ:
و اظلمت المدینۃ
حضورﷺ کی وفات ہوئی تو پورا مدینہ اندھیرے میں ڈوب گیا
اس سے بڑھ کر غم کی تصویر کشی اور کیا ہوسکتی ہے؟ اور سچ تو یہ ہے کہ یہ تصویر کشی جن پاک نفوس نے کی ہے وہ یہ تعبیر کرسکتے تھے۔
آج جب کہ چودہ صدیاں بعد ہی ایسے دیوانے موجود ہیں جو نبی کریمﷺ کے نام مبارک پر کٹ جانا سعادت سمجھتے ہیں اور راتوں کے سناٹوں میں رب تعالیٰ کی بارگاہ میں دست دعاء پھیلائے ہوئے یہ دعاء کرتے ہیں کہ اے رب کریم! ہماری جانوں کو حضورﷺ کی نام پر قربان ہونے کے لیے قبول فرما۔تو اُن نفوس قدسیہ کی فدائیت کا کیا اندازہ کیاجاسکتا ہے جنہوں نے شب و روز اس جمال جہاں آراء ﷺ کے دیدار کے مزے لوٹے
آہ! کیا سعادت پائی ہے ان صحابہ نے!!
گھر بیٹھے ہیں، طبیعت میں کچھ گھبراہٹ اور بے چینی محسوس ہوئی بے کل ہو کر گھر سے نکل پڑے اور سیدے مسجد نبوی تشریف لے گئے۔ وہاں پہنچتے ہیں اورجونہی سرورکونین ﷺ پر نظر پڑتی ہے بے چین طبیعت کو یکدم قرار آجاتا ہے۔ پوچھا جاتا ہے کہ یہ کیا ماجرا ہے؟ تو جواب ملتا ہے کہ گھر میں خوشی خوشی بیٹھے ہوتے ہیں مگر جونہی آپ کی یاد آتی ہے تو طبیعت آپ کے دیدار کے لیے مچل اٹھتی ہے، اور پھر گھر میں بیٹھا نہیں جاتا، اسی لیے اب بھی یہی کیفیت پیش آئی، آپ کی یاد نے گھر میں بیٹھنے نہ دیا، اور اب جب کہ آپ کی دید سے آنکھیں سرفراز ہوچکیں تو اب طبیعت کی ساری بے چینی بھی ختم ہوچکی۔
اسی لیے تو کہنے والے نے کہا:
اُن کے دیدار سے آنکھ روشن ہوئی
روح بے تاب کوبھی قرار آگیا
میری آنکھوں میں اب کوئی حسرت نہیں
جب نظر میں حبیبِ خدا آگیا
ایک صاحب نے پوچھا: ربیع الاول میں نبی کریمﷺ کی آمد بھی ہے اور وفات بھی ہو تو کیا کیاجائے؟
جواب دیا کہ ان کی محبت کی شمع کی لو مزید بڑھا دی جائے!
کہنے لگے: کیا مطلب؟
عرض کیا کہ: اس دنیا میں ہر آنے والے کے لیے یہی ضابطہ ہے کہ وہ وقت مقرر پر آتا ہے اور وقت مقرر پر جاتا ہے۔
اسی طرح ہمارے نبی بھی وقت پر آئے اور وقت پر رب نے انہیں واپس بھی بلالیا
مگر ہمارے لیے یہ پیغام چھوڑ گئے کہ میں جب تک تمہارے بیچ رہا یہ تو تمہارے لیے خیر کا سبب تھا ہی مگر یاد رکھوکہ میری وفات بھی تمہارے لیے سراپا خیر ہے، سراپا خیر۔
ہاں اسی وفات کے بعد تو مقام محمود ملے گا، اور اسی وفات کے بعد ہی امت کو شفیع اعظمﷺ کی شفاعتِ عظمیٰ کا فیض نصیب ہوگا۔
اسی لیے علامہ بوصیری رحمہ اللہ نے کہا تھا:
مالی من الوذ بہ
عند حلول الحادث العمم
قیامت کا دن جو سب سے بڑا حادثہ ہوگا، اس دن میں آپ کے سواء اور کہاں جا کر پناہ حاصل کر سکتا ہوں؟
اور ہاں! اگر ہم جائیں گے بھی سہی تو سب یہی کہیں گے کہ میں اس کے لیے موزوں نہیں ہوں، سب نبی ایک کے بعد دوسرے کے بعد بھیجتے رہیں گے اور آخر میں جب ساری خلقت محمدمصطفیﷺ کے در پر پہنچے تو آپ فرمائیں گے:
ہاں! میں ہی اس کا حق دار ہوں
پھر میرے نبی سجدہ ریز ہونے کی اجازت طلب کریں گے۔ چنانچہ اجازت ملنے پر سجدہ ریزہوں گے، رب تعالیٰ کی حمد و تسبیح بیان کریں گے، آپ کی شفاعت قبول ہوگی اور پوری انسانیت کے سامنے آپ کا بلند ترین مقام روشن ہوجائے گا۔
شیخ مصلح الدین سعدی رحمہ اللہ نے کیا ہی خوب فرمایا ہے:
اِمام رسل، پیشوائے سبل
امینِ خدا، مہبطِ جبرئیل
شفیع الوریٰ، خواجہ بعث و نشر
اِمامُ الہدیٰ، صدرِ دیوانِ حشر
آپ رسولوں کے امام، ہدایت کے پیشوااور اللہ تعالیٰ کی وحی کے امین ہیں اور حضرت جبرئیل علیہ السلام وہ وحی لے کر آپ کے پاس ہی آتے تھے۔
آپ ہی تمام انسانوں کے شفیع، قیامت کے دن کے سردار، ہدایت کے امام اور حشر کے دن کی مجلس کے صدر بنائے جائیں گے۔
آپ کی آمد کا پیغام بھی ایک ہے اور وفات کا پیغام بھی ایک ہے، جسے شیخ سعدی رحمہ اللہ تعالیٰ نے ان دو اشعار میں سمو دیا ہے:
خلافِ پیمبر کسے راہ گزید
کہ ہرگز بمنزل نخواہد رسید
مپندار سعدی کہ راہِ صفا
تواں رفت جز بر پئے مصطفی
جس کسی نے بھی پیغمبر کے خلاف راستہ اختیار کیا، تو وہ کبھی بھی منزل تک نہیں پہنچ پائے گا۔
اے سعدی!یہ تصور بھی مت کرو کہ مصطفیﷺ کے راستے پر چلے بغیر کامیابی کا راستہ طئے کیاجاسکتا ہے!!
سجاد احمد خان
ریپورہ گاندربل