سری نگر، 31 اکتوبر : ملکی سطح پر قدیم ثقافتی ورثے کی حفاظت کو یقینی بنانے کی خاطر مرکزی و ریاستی سرکاروں کی جانب سے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا جا رہا ہے تاکہ آنے والی نسلیں ان تواریخی ورثے کی افادیت سے روشناس ہو کے استفادہ حاصل کر سکیں گے مگر اس حوالے سے وادی کشمیر کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔
یہاں کی متعدد تواریخی اہمیت کی حامل یادگاریں اپنی زبوں حالی کا رونا ہی رو رہی ہیں کیونکہ متعلقہ محکموں کی عدم توجہی کے باعث یہ قصہ پارینہ بن کے رہ چکی ہیں اور اب بھی ان کی اور توجہ مرکوز نہ کی گئی تو صدا کے لئے ان کا بچا کھچا وجود بھی مٹ جائے گا۔
ایسی ہی ایک نظیر جموں و کشمیر کے دارالحکومت سری نگر کے مہاراج گنج علاقے میں دریائے جہلم کے کنارے پر دیکھنے کو مل رہی ہے جہاں ‘اکبر کشمیر’ کے نام سے موسوم کشمیری بادشاہ زین العابدین عرف بڈشاہ، جن کے دور کو کشمیر میں آج بھی سنہری دور مانا جاتا ہے، کا مقبرہ اپنی زبوں حالی کی داستان بیان کر رہا ہے۔
اس مقبرے کے احاطے میں سلطان زین العابدین کی والدہ کی تاریخی گنبد نما قبر نیز پندرہویں صدی میں کشمیر پر حکمرانی کرنے والے زین العابدین، ان کی بیویوں اور بچوں کی قبریں ہیں۔
وادی کے معروف مورخ ظریف احمد ظریف نے یو این آئی اردو کو بتایا کہ اس طرح کے قدیم ورثے کی حفاظت نہ کرنا اس بات کی غمازی کر رہا ہے کہ حکومت اور لوگ یہاں کی ثقافت سے کس قدر دور ہو چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ تاریخی اہمیت کے حامل مقامات قومی امانت ہیں لیکن ہم نے ان کو اپنے ہاتھوں سے تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔
مذکورہ مورخ کے مطابق محکمہ سیاحت نے اس مقبرے کے اردگرد چند سال قبل لائٹیں نصب کیں لیکن مقبرے میں پانی عرصہ دراس سے داخل ہوتا آ رہا ہے جس کی وجہ سے اس کی بنیادیں کافی حد تک کھوکھلی ہو چکی ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ آثار قدیمہ محکمہ اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں پوری طرح سے ناکام ثابت ہو گیا ہے۔
ظریف احمد ظریف کے مطابق ناسازگار حالت اور سیاسی عدم استحکام کے باعث بھی وادی کشمیر کے تاریخی مقامات اپنی شان و شوکت کھو چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ غیر سنجیدہ قوموں کا یہی حال ہوتا ہے کہ وہ اپنے ماضی کو بھول جاتے ہیں۔
ظریف احمد ظریف نے کہا کہ تاریخی مقامات کو تحفظ فراہم کرنے اور ان کی شان رفتہ بحال کرنے کی خاطر سنجیدہ نوعیت کے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے اندر شہریت کا احساس پیدا کرنا ہوگا اور تاریخ پر بھی نظر دوڑانی چاہئے تب جا کر ہمارے اندر اس طرح کے ثقافتی ورثا کو تحفظ فراہم کرنے کا جذبہ پیدا ہو سکے گا۔
اس حوالے سے مقامی ذی عزت شہری ریاض احمد نے یواین آئی اردو کو بتایا کہ حکومت کو تاریخی اہمیت کے حامل بڈشاہ مقبرے کی عظمت رفتہ بحال کرنے کی خاطر وقت وقت پر آگاہی فراہم کی گئی لیکن ان کی آواز صدا بہ صحرا ہی ثابت ہو رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ اس مقبرے کو دیکھنے کے لئے ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کا تانتا بندھا رہتا تھا اور یہاں کے گلی کوچے بھی گلزار ہوا کرتے تھے مگر شومئی قسمت کہ یہ مقبرہ آج اپنی لٹی ہوئی شان و شوکت کی کہانی بیان کر رہا ہے جبکہ مقامی لوگوں کا بھی کہنا ہے کہ قدیمی یادگاریں اگر محفوظ رہیں تو نئی پود کو ان کے بارے میں جاننے سے کافی حد تک استفادہ حاصل ہو سکتا ہے۔
یو این آئی