رئیس احمد کمار
قاضی گنڈ کشمیر
جمال خان کے تین بیٹے تھے ۔ دو کی شادی ہوئی تھی اور تیسرا جو سب سے چھوٹا تھا ابھی کنوارا ہی تھا ۔ دونوں بیٹوں نے شادی کے کچھ سال بعد ہی اپنے الگ گھر بسائے ہیں ۔ جب بھی جمال خان کو اپنا کوئی دوست یا رشتہ دار اسکی وجہ پوچھتا تھا تو اس کے منہ سے یہی الفاظ نکلتے تھے
"”” بڑی بہو کو اکثر اپنی بہنیں اور ماں الگ گھر بسانے کے لئے اکساتے تھے ۔ زیادہ دیر تک وہ سسرال میں نہیں ٹکتی تھی اور اکثر چھوٹی موٹی باتوں کا بہانہ بنا کر میکے کا رخ اختیار کرتی تھی ۔ لاکھ کوشش کے باوجود بھی جب وہ نہیں سدھر گئی تو شوہر نے اسکے لئے الگ گھر بسانے کا انتظام پکا کیا۔ دوسری بہو دو تین سال تک ایک اچھی عورت کی طرح گھر کا ہر کام کرتی تھی اور تمام ہمسایوں اور رشتہ داروں کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آتی تھی لیکن کچھ سال بعد ہی اس کو بھی بڑی بہو کی طرح اپنی بہنوں نے الگ گھر بسانے کے لئے مجبور کیا "”
جمال خان نے اب اپنے سب سے چھوٹے بیٹے نیاز خان کو مسرت نامی لڑکی سے شادی کرائی جو اپنے والدین کی اکلوتی بیٹی تھی ۔ جمال خان اب بہت خوش ہے کیونکہ نئی دلہن کو میکے میں کوئی دوسری بہن ہی نہیں ہے جو اسکو اکسا سکتی ہے لیکن دو بھائی ہیں ۔ شادی کے کچھ مہینے بعد ہی نئی نویلی بہو کی ماں کا حادثہ پیش آیا اور وہ میکے چلی گئی اور ایک سال بعد ہی سسرال واپس آئی کیونکہ اسکی ماں برابر ایک سال تک بستر مرگ تھی ۔ سسرال واپس آنے کے کچھ مہینے بعد ہی اسکے باپ کو بھی حادثہ پیش آیا ۔ مسرت دوبارہ میکے چلی گئی کیونکہ اپنے والدین کی اکلوتی بیٹی ہونے کے ناتے وہ ان کو مشکل وقت میں کام آنے کو ہی ترجیح دیتی تھی ۔ ہر وقت جب بھی کوئی مشکل میکے میں درپیش آتی تھی تو مسرت کو ہی وہاں سمبھالنا پڑھتا تھا ۔
جمال خان اب ہر روز اپنی قسمت کا رونا روتا تھا ۔ ایک دن اس نے اپنی اہلیہ کو قصبے میں کچھ کپڑے خریدنے کے لئے اپنے ساتھ لیا تو انہوں نے وہاں ہی کرایہ پر ایک کمرہ لیا جہاں دونوں میاں بیوی نے کئی سال گزارے کیونکہ تین میں سے ایک بھی بہو جمال خان اور اسکی اہلیہ کو بڑھاپے میں بھی سہارا نہ بنیں ۔