مضمون نگار: اربینہ قیوم
طالبہ، شعبہ اردو، کشمیر یونی ورسٹی
وادی کشمیر میں آج کل شادیوں کا موسم چل رہا ہے۔ آئے دن سوشل میڈیا پرشادیوں سے متعلق ایسی وارداتیں سننے اور دیکھنے کو مل رہی ہیں جو جگر کو چیر کے رکھ دیتی ہیں۔ یہ سچ ہے کہ ہر ماں باپ کی خواہش ہے کہ وہ اپنے بیٹے یا بیٹی کی شادی بڑی دھوم دھام سے کرے۔مگر فرسودہ رسوم و رواج نے ہر ماں باپ کی خواہش پر گویا پانی پھیر دیا ہے۔ رسومات کے نام بداخلاقیات کو جلا بخشی جارہی ہے۔ موجودہ دور میں بڑھتی مہنگائی کے باوجود بھی شادی بیاہ کی تقریبات پر انتہائی فضول خرچیاں ہورہی ہیں۔جس کے نتیجے میں معاشرے میں موجودہ افراد کی ایک کثیر تعداد کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
خصوصاً نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے یہ رسومات درد سر بن بنی ہوئی ہیں۔شادی بیاہ کا مروجہ نظام غریب بچیوں کی شادی میں رکاوٹ بن چکا ہے۔ جسے ختم کرنا ہرایک کی ذمہ داری ہے۔ کیوں کہ ان رسومات کی وجہ سے جتنے بھی لوگ متاثر ہوں گے۔ ان کا ذمہ دار ان ہی رسوم و رواج پر چلنے والے لوگ ہوں گے۔ ہم یہ بات بڑے ہی فخریہ انداز میں کہتے ہیں کہ بیٹی ایک باپ کے لیے رحمت ہوتی ہے۔ لیکن جب یہ پتہ چلتا ہے کہ ایک ماں کے بطن میں بیٹی پل رہی ہے تو تلملا اٹھتے ہیں اور اسے جنم دینے سے قبل ہی مار دیا جاتا ہے۔ کیوں ایک باپ بیٹی پیدا کرنے سے ڈرتا ہے۔؟
اس کے لیے سماج کے وہ افراد ذمہ دار ہیں جنھوں نے بیٹیوں کی شادیوں پر کروڑوں روپے خرچ کئے لیکن وہیں پاس میں ایک غریب بیٹی کا خیال تک نہیں آیا کہ اس کے گھر میں دو وقت کی روٹی کا گزارا بڑی مشکل سے ہوپاتا ہے تو شادی کیسے ہوگی۔۔۔ اس کے لیے وہ والدین ذمہ دار ہیں جنھوں نے اپنے لاڈلے بیٹے یا لاڈلی بیٹی کی شادی میں غیر ضروری رسومات پر بے لوث رقم لٹا دی ہے۔ ان ہی رسوم و رواج کی دہشت نے ہماری قوم کی بیٹیوں کو خودکشی کرنے پر مجبور کردیا ہے۔شادی تمام فرسودہ رسوم و رواج کے بغیر بھی ہو سکتی ہے۔سماج کے ذی حس اور سمجھدار لوگ کیوں خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔؟
وہ اس مصیبت کو ختم کرنے کے لیے اجتماعی سطح پر اقدامات کیوں نہیں کرتے ہیں۔؟ہماری وادی میں رشتہ طے کرنے پر لڑکی کو سر سے پاؤں تک ترچھی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ محض اس لیے کہ کہیں کوئی کمی نہ تو نہیں ہے۔لڑکی کی شرافت اور دین داری کا کہیں پر ذکر تک نہیں ہوتا ہے۔ہاں البتہ لین دین کی بات ضرور کی جاتی ہے۔بعض دفعہ تو لڑکی پر پیسے کو ترجیح دی جاتی ہے۔دولت کے عوض میں ایک باپ اپنے بیٹے کے لیے بدمزاج اور بدکردار لڑکی بھی منظور کر لیتا ہے۔
ہم اس بات کے شاہد ہیں کہ ہمارے یہاں کئی کئی دن تک شادیاں چلتی ہیں،کثیر مہمانوں کو شادی کی دعوت پر بلایا جاتا ہے،قیمتی زیورات اور ملبوسات تیار کیے جاتے ہیں، لاکھوں روپے خرچ کرکے شادی کا پنڈالا اور خیموں کی آرایش کی جاتی ہے،بجلی کے قیمقمے لگائے جاتے ہیں ،قسم قسم کے پکوان تیار کیے جاتے ہیں اور تو اور گاڑیوں میں بھر کر جہیز دی جاتی ہے۔یہ سب نمود و نمائش کرنے والے افراد کی بے لوث دولت کا نتیجہ ہوتا ہے۔ ایسے افراد کو ایک بار بھی غریب باپ کی بیٹی کا خیال تک نہیں آتا ہے۔ہر بیٹی یہ سب دیکھ کر سے دیکھ خون کے آنسو رونے پر مجبور ہو جاتی ہیں ۔ وہ لوگ اس بات کو کیوں نظرانداز کر رہے ہیں کہ کتنی لڑکیاں اس بدعت کی وجہ سے کنوری بیٹھی ہیں ۔فرض کریں کہ اگر ایک گھر میں بہو غریب گھرانے کی تو دوسرے امیر گھرانےکی ہو ۔امیر گھرانے کی لڑکی قیمتی چیزیں لاتی ہیں اور غریب گھرانے کی بیٹیاں اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں لا پاتی ہیں۔
تو یہ غریب گھرانے کی لڑکیاں اپنے والدین کے لیے درد سر بن جاتی ہیں۔غریب گھرانوں کی لڑ کیوں کو ساس اور سسر اسی وجہ سے نفرت بھی کرنے لگتے ہیں۔ کچھ لڑکیوں کے ماں باپ زمین و جائیداد فروخت کر کے جہیز دیتے ہیں اور بعض لوگ جو نچلے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں؛ معاشرے میں اپنی جھوٹی شان کو برقرار رکھنے کے لیے قرض کرکے جہیز اور کھان پان کا بہترین انتظام کرتے ہیں۔نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ پھر اپنی باقی عمر قرض کی ادائیگی میں گزار دیتے ہیں۔شہروں میں یہ بدعت گاؤں کے نسبت عام ہے ۔لیکن اب یہ بدعت گاؤں میں بھی تیزی سے پھیلنے لگی ہے۔اگر ہم نے اس بدعت کو روکنے میں توجہ نہ دی تو نہ جانے آنے والی نسلوں میں یہ بدعت کس حد تک تباہی مچائے گی۔اسلام تو سستی اورسادی شادی کی تعلیم دیتا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے برکت والا نکاح وہ ہے جس میں کم خرچ ہو۔ حالاں کہ ولیمے میں رشتےدار ،دوست و احباب کو مدعو کرنا اور ان کے لئے پر کھان پان کا بندوبست کرنا شریعت کے رو سے جائز ہے۔
لیکن اصراف کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے۔اس لئےہمیں چاہیے کہ ہم سب مل اس بدعت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں تاکہ غریب گھرانوں کی لڑکیوں کو عزت کا مقام حاصل ہو۔امیر لوگو ں کو چاہیے کہ اس بدعت کو ختم کرنے میں اہم رول ادا کریں۔ قران کریم کا حکم ہے کہ ایک قوم کی حالت تب تک نہیں بدلتی جب تک وہ قوم اپنی حالت خود نہ بدلے۔اس لئے ہمیں چاہیے کہ رسم و رواج کو ختم کر یں تاکہ آنے والی نسل اس بدعت سے آزاد ہو اور انسانی معاشرہ صالح اور خوشحال زندگی گزار سکے۔