تحریر:حافظ میر ابراھیم سلفی
مدرس:سلفیہ مسلم انسٹیٹوٹ پرے پورہ
رابطہ :6005465614
اہل علم و اہل عقل اس بات کا ادراک رکھتے ہیں کہ قوموں کا عروج و زوال تعلیم و تعلم، تربیت اخلاق پر منحصر ہوتا ہے۔ علم روحانی، اخلاقی، سماجی بیماریوں کی دواء شافی ہے۔ جب قوموں میں علم اور شعبہ جات علم تعمیر کے بجائے قومی عمارت منہدم کرنے میں لگ جائیں تب انجام بد سے بدتر ہوتا ہے۔بات وادی کشمیر کی ہورہی ہے جسے پوری دنیا "ریش وار” یا "پیروار” کے نام سے یاد کرتی ہے۔ تعلیمی و تربیتی لحاظ سے یہاں کی مٹی بڑی زرخیز ہے علوم و فنون کی بات کی جاۓ تو اسے "ایران صغیر” کا خطاب دیا جاچکا ہے۔ لیکن حالات کسی اور چیز کی عکاسی کررہے ہیں۔ گویا کسی نے یہاں کی فضا کو آلودہ کردیا ہو جس آلودگی سے یہاں ضمیروں کا جنازہ اٹھا، جس آلودگی سے تعلیم کے نام پر فحاشی کے مراکز مزین کردئے گئے، جس آلودگی نے ہمارے روح کو بیمار کردیا، جس آلودگی نے دیوثیت کو پروان چڑھایا۔ سوالیہ نشان ہے کہ آخر یہ پاک معاشرہ خبائث کی زد میں کیسے آگیا۔یہاں کی تعلیم نوجوان ملت کے لئے کردار شکنی کا ذریعہ بن رہی ہے۔ جس نظام تعلیم سے اذہان و قلوب ناپاک جراثیم کے شکار ہو جائیں وہ نظام تعلیم قوموں کو کھوکھلا کرنے کے لئے کافی ہے۔ کچھ بنیادی وجوہات کی طرف نظر ڈالنے سے اسباب و علاج کی طرف رہنمائی مل سکتی ہے۔
(۱) مقاصد کا عدم تعارف——-
عصر حاضر میں وادی کشمیر کا سب سے بڑا تعلیمی مرکز پرے پورہ بن گیا ہے۔ جہاں وادی کے مختلف اطراف و اکناف سے طلباء علم حاصل کرنے کے لئے آتے ہیں۔تعلیمی اداروں کے مالکان سے ہمیں کوئی گلہ نہیں البتہ ایک گزارش ہے کہ اختلاط طلباء و طالبات کو اب ختم کرنا چاہیے۔ یقیناً کثیر تعداد میں طلباء ان دانشگاہوں سے استفادہ حاصل کرتے ہیں لیکن منفی پہلوؤں پر نظر ڈالنے سے مثبت پہلو کہیں دکھائی بھی نہیں دیتے۔ اساتذہ مدرس کے ساتھ ساتھ مربی بھی ہوتا ہے جس کی اولین ذمہ داری تعمیر اخلاق و کردار ہوتی ہے۔ واجبی امر ہے کہ طلباء و طالبات کو حصول علم کے مقاصد سے آشنا کیا جائے۔
مقاصد علم
(۱) معرفت رب، معرفت نبی ﷺ، معرفت دین
(۲) تعمیر اخلاق، تعمیر حیا، تعمیر حلم
(۳) حصول تجربہ، حصول صبر، حصول شکر
(۴) انسانیت کی خیر خواہی
(۵) جہالت سے آزادی، حصول تدبر و تفقہ
(۶) علوم و فنون کا جائز استعمال
(۷) ذہنی پختگی، قلبی برداشت
(۸) مفاسد، منفی پہلوؤں کی جانکاری
(۹) تحفظ عفت و عصمت
(۱۰) عملی زندگی میں علم و فن کا استعمال
(۲) دنیا پرستی ——-
عیاشی، فضول خرچی، جنسی استحصال کی عملی تصاویر دیکھنی ہو تو جدید عصری تعلیمی مراکز کی طرف رجوع کریں۔ والدین کی طرف سے دی گئی آزادی کا ناجائز استعمال کس طرح ہورہا ہے، تعلیمی اداروں کے آس پاس ہوٹلوں کی طرف دیکھیں۔ باپ کے پاس گاڑی کی کرایہ نہیں ہوتی، بچے ہوٹلوں کی زینت بنے ہوئے ہوتے ہیں۔اپنے بچوں کا محاسبہ کرنا والدین کی ذمہ داری ہے جس سے وہ باگ چکے ہیں۔ وادی کشمیر میں غیر قانونی سطح پر منشیات کا کاروبار کیا جارہا ہے، شراب کے نشے میں لت پت ہمارے شباب گلیوں میں یا گندی نالیوں میں پڑے ہوتے ہیں۔ ثانیاً تعلیمی اداروں کا مقصد بھی فقط جھوٹی شہرت اور حصول دولت بن چکا ہے سوائے ان کے جنہیں رب بچاۓ۔کسی کی دنیا برباد ہو رہی ہے، کسی کی عاقبت جل رہی ہے، کسی کا گھر اجھڑ رہا ہے،لیکن کسی کو کوئی پر وہ نہیں۔حالات کا جائزہ لیکر یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ یہاں دولت ہی فرد واحد کا خدا چکا ہے اور یقیناً یہاں لوگ پیسوں کی پرستش بھی کرتے ہیں۔
(۳)حقوق والدین سے تغافل——
شریعت اسلومیہ نے والدین کو عظیم ذمہ داریوں کے لئے وقف کردیا ہے۔ والدین ان ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے مکلف ہیں۔ بعض نقاط کی طرف التفات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ کسی حد تک اس بڑھتے ہوئے طوفان کا مقابلہ کیا جاسکے۔۔۔۔
(۱) بچوں کا احتساب
(۲) جدید وسائل کے ذریعے بچوں کے موبائل (mobile usage) پر گہری نظر۔
(۳) بچوں کے سوشل میڈیا استعمال کا مسلسل جائزہ۔
(۴) محدود خرچہ اور اس کا بھی حساب لیا جائے۔
(۵) بچوں کے ہم نشینوں پر نظر۔
(۶) اگر والدین پڑھانے کی اہلیت رکھتے ہوں تو ٹیوشن سینٹروں کی طرف رخ نہ کیا جائے۔
(۷) بچوں کی نفسیاتی حالات پر نظر۔
(۸) بچوں کے دوست بن کر رہیں تاکہ ان کا ہر ایک معاملہ آپ پر واضح ہو۔
(۹) انتخاب اساتذہ۔
(۱۰) بچوں کو دینی تعلیم سے منور کرنے کے لئے درسگاہوں کی زینت بنائیں، تاکہ آپ کی ٹوپی شرمندگی کا سامنا نہ کرے۔
(۴) علم، عبادت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علامہ ابن سیرین رحمہ اللہ تعالیٰ کا فرمان صحیح مسلم کے مقدمے کے اندر موجود ہے کہ، "بے شک یہ علم ہی ہمارا دین ہے، لہذا غور و فکر کرکے ذرائع و وسائل علم کو تلاش کرو”.
ہر ایک تعلیم یافتہ نوجوان استاذ نہیں ہوسکتا۔زمینی حقائق اس بات کی شاہد ہیں کہ بعض جعلی اساتذہ رہزنوں کی صفات رکھنے والے ہوتے ہیں۔عصری تعلیمی دانشگاہوں میں شرعی حدود کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ استاذ کتنا بھی بڑا ولی اللہ کیوں نہ ہو، شرعی قوانین کا استحصال نہیں کرسکتا۔عبادت کی ادائیگی کے لئے شرعی نصوص کا پابند رہنا ہوگا۔ یہ بات مسلمہ ہے کہ ہر استاذ کا تدریسی طریقہ کار مختلف ہوتا ہے لیکن اس کا مطلب ہر گز نہیں کہ تعلیم کو مذاق بنایا جائے۔ایسے اساتذہ قوم کے دشمن ہیں، عزتوں اور عصمتوں کے لٹیرے ہیں، ناشر فحاشی و حامل جہالت ہیں جو اپنے منصب کی قدر و منزلت نہیں جانتے۔
(۵) حرام رشتوں کی ضلالت———
انٹرنیٹ بالخصوص سوشل میڈیا کے غیر ذمہ دارانہ استعمال نے قوم کے مستقبل کو داؤ پر لگایا ہے۔غیر محرموں کا آپس میں بات چیت، خلوت نشینی، ناجائز تعلقات فیشن بن چکا ہے۔قوم کا ایک طبقہ اسے جدیدیت کا نام دیتا ہے۔ثانیاً black websites اور Dark web کے بے تحاشا استعمال نے نوجوانوں کے کردار کو سستے داموں میں فروخت کردیا ہے۔حالات یہاں تک پینچ چکے ہیں کہ اب نصبی بہن اپنے بھائی سے ڈرتی ہے، بیٹی اب باپ کو اپنا محافظ نہیں سمجھتی۔ اور یہ سب کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے ہورہا ہے۔ لیکن ہم تماشائی بن کر دیوثیت کا کردار دکھا رہے ہیں۔ قوم کے ذمہ داروں کو خواب خرگوش سے بیدار ہونا پڑے گا۔ حرام رشتوں کی ابتداء اور انتہا رسوائی پر ہی مبنی ہوتی ہے لیکن یہ بات تب جاکر والدین کی سمجھ میں آتی ہے جب انکی عزت زیر زمین سپردخاک ہوچکی ہوتی ہے۔ جدیدیت کا درس دینے والے، مغربی افکار سے متاثر افراد، liberalism اور feminism جیسی اصطلاحات کو عروج دینے والے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول یاد رکھیں جسے امام حاکم نے المستدرک کے اندر نقل کیا ہے کہ، "نحن قوم أعزَّنا الله بالإسلام فمهما ابتغينا العزَّة في غيره أذلَّنا الله” یعنی، "ہم وہ قوم ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے اسلام کی وجہ سے عزت دی، پس جب ہم اسلام کو ترک کرکے دیگر افکار و ادیان میں عزت تلاش کریں گے، اللہ ہمیں پھر سے ذلیل و خوار کردے گا”.
بقول اکبر الہٰ آبادی
طفل میں بو آئے کیا ماں باپ کے اطوار کی دودھ تو ڈبے کا ہے تعلیم ہے سرکار کی
(۶) وقت کی بربادی———–
علم کے مقاصد میں یہ نقطہ بھی قابل غور ہے کہ انسان مہذب (disciplined) بن جائے۔ وقت کا مثبت استعمال کرنے والا بن جاۓ۔ اپنی راتوں کو طلب علم کے لئے وقت کردے۔ لیکن یہاں کا معاملہ اس کے برعکس ہیں۔تعلیمی اداروں میں قائم شدہ canteen بھی معاشرے کے لئے ایک ناسور بنتے جارہے ہیں۔ اس بات کی تائید وہی کرے گا جس نے ان اداروں کا تحقیقی جائزہ لیا ہوگا۔عربی میں ایک محاورہ (proverb) ہے کہ ، "الوقت كالسيف إن لم تقطعه قطعك”. یعنی، ” وقت تلوار کی مانند ہے، اگر آپ نے اسے نہیں کاٹا، یہ آپ کو کاٹ کر رکھ دے گا”.اسی ضمن میں امام محمد بن ادریس شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ کے معروف ابیات بھی قابل ذکر ہیں کہ،
بِقَدرِ الكدِّ تُكتَسَبُ المَعالي
وَمَن طَلبَ العُلا سَهرَ اللَّيالي
(تقدیر کے فیصلے محنتوں سے ہوا کرتے ہیں اور جسے بلندیوں کی تلاش ہوتی ہے وہ راتوں کو بھی دن بنادیتا ہے)
وَمَن رامَ العُلا مِن غَيرِ كَدٍ
أضاعَ العُمرَ في طَلَبِ المُحالِ
(جسے عروج کی تلاش بغیر اجتھاد کے ہوتی ہے وہ تاحیات اپنے لمحات نہ حاصل ہونی والی آرزوں میں ضائع کردیتا ہے)
تَرومُ العِزَّ ثم تَنامُ لَيلًا
يَغوصُ البحر من طلبِ اللآلي
(تمہیں عزت کی تلاش ہے لیکن راتوں کو فراش پر سوتے ہو حالانکہ جسے موتیوں کی تلاش ہوتی ہے وہ سمندر میں غوطہ زن ہوتا ہے)
(۷) سلف صالحین کی سیرت سے بیزاری——-
ماضی کی طرف نظر ڈالنے سے واضح ہوجاتا ہے کہ علوم و فنون میں، وقت کی قدر کرنے میں، اخلاقی تعمیر میں وہ ہم سے کہیں آگے تھے۔سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ، امام نووی رحمہ اللہ، علامہ عبدالغنی مقدسی رحمہ اللہ، علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور ان کے تلامذہ،امام احمد رحمہ اللہ اور انکے دو بیٹے عبداللہ اور صالح، مؤلفین کتب ستہ و دیگر محدثین، ائمہ اربعہ و دیگر ہم عصر جیسے سفیان ثوری رحمہ اللہ، حسن بصری رحمہ اللہ، ابن سیرین و ابن شھاب زھری، امام مجاھد و دیگر فقہاء، مفسرین و متکلمین جیسے ابو حاتم رازی و ابو زرعہ رازی ،شارحین جیسے ابن حجر عسقلانی،ملا علی قاری،علامہ عینی رحمہم اللہ کی خدمات دیکھ کر ہمیں اپنے آپ پر شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔ نہ انٹرنیٹ کی سہولت، نہ آمد و رفت کا کوئی پختہ نظام،ایک ایک حدیث کے لئے ہزاروں میل کا سفر یقیناً قابل تقلید ہے۔ درحقیقت وہ اخلاص کے پیکر، زہد و قناعت کے علمبردار تھے۔وقت کا تقاضا ہے کہ ایک مضبوط platform سے انکی سوانح حیات، خدمات دین کی ترویج و تشہیر کی جاۓ۔ماضی بعید کی طرح ہمارا ماضی قریب بھی روشن تھا۔ علامہ راشدی سندھی، فاتح قادیان علامہ امرتسری، محدث کبیر علامہ انور شاہ کشمیری لولابی، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، ابوالحسن علی ندوی،سید سلیمان ندوی، محدث مبارکپوری،قاضی منثور پوری،علامہ اقبال، مفتی محمد شفیع، محدث کبیر شیخ زبیر علی زئی ،ابوالکلام آزاد، علامہ احسان الہی ظہیر رحمہم اللہ ایسے اسماء ہیں جو روۓ ارض پر مہکتے پھول تھے ، آسمان پر چمکتے ستارے تھے۔ سائنسی دنیا پر بھی اہل اسلام ہی چاروں طرف چھاۓ ہوۓ تھے جن میں جابر بن حیان، محمد بن موسی الخوارزمی، ابن الھیثم کے اسماء قابل ذکر ہیں۔
تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی
کہ تُو گُفتار وہ کردار، تُو ثابت وہ سیّارا
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثُریّا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
(۸) آن لائن تعلیم————
گزشتہ دو سالوں سے پوری دنیا وبائی قہر میں مبتلا ہے۔ آف لائن تعلیمی نظام ٹھپ پڑ چکا ہے۔ ہمارے پاس آن لائن (e-learning) کے سوا کوئی دوسرا متبادل موجود نہیں۔ اس بات سے ہم اتفاق رکھتے ہیں کہ آن لائن تعلیمی نظام کے متعدد فوائد ہیں لیکن خطرات بھی کم نہیں۔اغیار نے ایسا جال بچھا دیا ہے کہ چار دیواری میں رہ کر ہی شباب ملت نے اپنی عفت و عصمت کو داغدار کردیا ہوتا ہے۔
(۹) ربانی وصیت کی پاسداری کی جاۓ ——-
فرمان ربانی ہے کہ
(اے نبیؐ) ” کہہ دیجیے کیا علم رکھنے والے اور علم نہ رکھنے والے برابر ہوسکتے ہیں۔ نصیحت تو وہی حاصل کرتے ہیں جو عقل والے ہیں۔” ﷲ تبارک و تعالی فرماتا ہے: ” کہہ دیجیے، کیا برابر ہوسکتے ہیں اندھا اور دیکھنے والا یا کہیں برابر ہوسکتا ہے اندھیرا اور اجالا۔ "(القرآن) فضائل علم پر رب کا قرآن شاہد ہے، اس کے تقدس کا خیال رکھیں۔
(۱۰) نبوی ﷺ وصیت یاد رکھیں۔۔۔۔۔۔۔۔
"طالب علم کے لیے فرشتے اپنے پروں کو بچھاتے ہیں اس چیز کی رضا کے لیے جو وہ طلب کرتا ہے ۔”(مسند فردوس) "بے شک اللہ تعالیٰ رحمتیں نازل فرماتا ہے اور اس کے فرشتے حتیٰ کہ چیونٹی اپنے بِل میں اور مچھلی سمندر میں لوگوں کو بھلائی ( کی باتیں) سکھانے والے کے لیے استغفار کرتی ہیں”.(معجم کبیر)
وقت کا تقاضا ہے کہ علم کے حقیقی معنیٰ اور حقیقی تشریح سے ملت کو آشنا کیا جائے تاکہ قوموں کا زوال عروج میں تبدیل ہو جائے۔۔۔ (ان شاء اللہ) اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں علم نافع کے ساتھ عمل صالح کی توفیق عنایت فرماۓ۔۔۔ آمین یا رب العالمین۔ (واللہ اعلم)